آج سسٹر میری کے دروازے پر ان کی مرید خواتین موجود نہ تھیں ان خواتین کے لیے صرف ہفتہ اور اتوارکادن مقرر تھا۔ آج پیر کادن تھا۔ سونیا نے آہستہ سے سسٹرمیری کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ور پھر جوابی اشارہ پا کراندرد اخل ہوگئی۔
سسٹر میری کمرے میں موجود تھی اور حسب عادت عجیب و غریب کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی۔ سونیا کو دیکھ کر اس نے فوراً کتاب بندکر دی اور ایک صندوق میں رکھ کر سونیا سے ملنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سسٹرمیری سفید لباس میں ملبوس تھی اس کے چہرے پر بلا کا وقار اور رعب حسن تھا۔ یہ ’’آیاصوفیاء‘‘ کی واحد راہبہ تھی جو اب تک کسی مرد کے نزدیک نہ گئی تھی۔ اس نے شروع دن سے ہی ایک عبادت گزار راہبہ کے طور اطوار اختیار کرلئے۔۔۔یہ مارسی تھی۔
مارسی کے چہرے پر نظر نہ ٹکتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے خداوند خدا کے فرشتوں نے مارسی کے حسین چہرے کو عرش کے سنہرے پانیوں سے غسل دیا ہو۔ مارسی کی آنکھیں جنہیں قاسم کٹورے کہا کرتا تھا اب کہکشاؤں کی طرح روشن تھیں۔ اس کی آنکھوں میں دانائی اور دانشمندی کا نور تھا۔ سرتا پا اجلے اور دھلے ہوئے سفید لباس میں مارسی پربت کی وادیوں سے آئی ہوئی اسپراء معلوم ہو رہی تھی۔ مارسی نے سونیا کو انتہائی محبت کے ساتھ سینے سے لگایا اور اپنے پاس مسہری پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات ہے سونیا! آج تمہارے چہرے پر اضطراب کی پرچھائیاں ہیں مجھے بتاؤ! میں تمہارا غم غلط کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 83پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیکن اگلے لمحے سونیا توپھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اس کا سر مارسی کے سینے سے جا لگا اور مارسی نے اپنا بازو اسکی پشت پررکھ کر اسے سہلانا شروع کردیا۔۔۔سونیا رو رہی تھی لیکن مارسی خاموش تھی۔ جیسے وہ سونیا کو رونے کا موقع دینا چاہتی ہو۔۔۔اسی اثناء میں سونیا کا انگوٹھی والا ہاتھ جو اس نے اپنے جسم کے نیچے دبا رکھا تھا غیر اختیاری طور پرباہر نکلا اور مارسی کی نظر اس پرپڑی۔۔۔مارسی کی آنکھ پہلی مرتبہ سرسری انداز میں سونیا کی انگوٹھی پرٹھہری اور پھر ہٹ گئی۔ لیکن اگلے لمحے ایک جھٹکے کے ساتھ مارسی کی نظر سونیا کی انگوٹھی پر دوبارہ پڑی۔ اور اب مارسی اپنی بھونیں سیکڑے بری طرح سونیا کی انگوٹھی کو گھور رہی تھی۔ اس کے دماغ میں ایک دم چکی چلنی شروع ہوگئی۔ ماضی کی چکی ،اس کے سامنے مارتھا کی وہ یادگار انگوٹھی تھی جو مارسی نے قاسم کو بخشش دی تھی۔ وہ اس خیال سے کہ کہیں اسے دھوکہ نہ ہوا ہو، انگوٹھی کی بناوٹ پر غور کرنے لگی۔ لیکن یہ تو وہی انگوٹھی تھی۔ مارسی کا پورا جسم زلزلے کی زدمیں آنے لگا۔ اس نے سونیا کو احتیاط کے ساتھ سیدھا کیا اور ہیجانی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے انتہائی ملائم لہجے میں سونیا سے کہا۔
’’دیکھو سونیا۔۔۔اس طرح رونے سے کام نہیں چلے گا۔اب چپ کرو شاباش اور مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘
مارسی نے اپنی پاکیزہ انگلیاں سونیا کے چہرے پرپھریں۔ اب سونیا کافی سنبھل چکی تھی۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور اپنی انگلی میں پہنی انگوٹھی سامنے کرتے ہوئے سسٹر میری سے کہا۔
’’یہ انگوٹھی آپ دیکھ رہی ہیں نا! یہ مجھے اس نوجوان نے دی ہے جو فرشتوں کی طرح پاک سیرت ہے۔ وہ قسطنطنیہ کا رہنے والا نہیں ہے۔ باہر سے آیا ہے۔ لیکن سسٹر۔۔۔میں کیا کروں؟ میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں۔ میرے بس میں نہیں۔ میرے اختیار میں نہیں کہ میں اسے اپنا سکوں۔ کیونکہ وہ ایک راہب ہے اور میں چرچ کی خادمہ۔۔۔سسٹر! میں خود کو اس کے لائق ہی نہیں سمجھتی میں اسے کیسے بتاؤں کہ میں اچھی نہیں ہوں۔۔۔وہ بہت اچھا ہے۔‘‘
لیکن مارسی کو کچھ سنائی نہ دے رہا تھا وہ کسی مجسمے کی طرح اپنی جگہ ساکت و جامد بیٹھی تھی۔ اسے اپنی آنکھوں اور کانوں پر بالکل یقین نہ آرہا تھا۔ گزشتہ سال سال کے عرصہ میں وہ بہت روئی تھی۔ اسنے بہت سجدے کئے تھے۔ بہت نمازیں پڑھی تھیں۔ وہ چھپ چھپ کر گزشتہ سال سال سے اپنے اللہ کے حضور گڑگڑاتی رہی تھی لیکن کبھی اسے اپنے فریادوں کاجواب سنائی نہ دیا تھا اور آج ایک دم اس کے سامنے قاسم کو دی ہوئی انگوٹھی آگئی تھی۔
سونیا بتا رہی تھی کہ وہ نوجوان بھی یہیں ہے۔ مارسی کے لئے یہ بڑے عجیب لمحات تھے۔ قاسم اس کے بالکل نزدیک آپہنچا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن کا انداز ہی بدل گیا۔ یہ دھڑکن پہلے ایک راہبہ کی دھڑکن تھی جو پوری دنیا کے ہر مرد سے کٹ کر گوشہ نشینی میں اپنے پروردگار سے اپنی محبت مانگتی تھی۔ لیکن اب اس کا دل ایک اور انداز سے دھڑک رہا تھا یہ ایک نوجوان لڑکی کے دل کی دھڑکن تھی جو برسوں بعد اپنے محبوب کا دیدار کرنے والی تھی لیکن اسے یقین نہ آرہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ انگوٹھی کسی اور آدمی کے ہاتھ لگ کر یہاں تک پہنچی ہوگی۔ اسنے بیتابی سے سونیا سے سوال کیا۔
’’اس نوجوان راہب کا حلیہ کیسا ہے؟۔۔۔کیا تم مجھے بتا سکتی ہو؟‘‘
سونیا پہلے تو چونکی۔ لیکن پھر قاسم کے چہرے کو یاد کرکے انتہائی نفاست کے ساتھ اس کا حلیہ ، قد کاٹھ بتانے لگی۔ اب مارسی کو یقین ہونے لگا کہ نوجوان راہب قاسم بن ہشام ہی ہے۔ مارسی کی کیفیت عجیب ہوگئی۔ وہ چاہتی تھی کہ ابھی اور اسی وقت اٹھے اور دوڑتی ہوئی قاسم کے پاس چلی جائے۔ وہ قاسم کے بازوؤں میں سر چھپا کر زور زور سے روئے اور اسے کہے کہ ۔۔۔’’چلو! سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مجھے اس تکلیف دہ دنیا سے لے چلو۔‘‘۔۔۔لیکن وہ ایسا نہ کر سکتی تھی۔ وہ سونیا کو بھول گئی اور سات سال پہلے کی اپنی محبت میں کھو گئی۔ وہ ایک ایک بات یاد کر رہی تھی۔ ’’لالہ شاہین‘‘ کی یادگار، قاسم کا گھر، قاسم کی خوش مزاج بھابھی سکینہ ، قاسم کے بھتیجے عمر اور علی۔۔۔پھر اسے اپنی ماں یاد آئی۔ سکندر بیگ اور ابوجعفر بھی یاد آئے اور پھر ایک دم اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔۔۔کہیں ڈیمونان کو قاسم نے تو قتل نہیں کیا؟ اورپھر نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال گھر کرنے لگا کہ ڈیمونان کو قاسم نے قسطنطنیہ پہنچ کر قتل کیا ہوگا۔ دراصل جب سے اس نے یہ سنا تھا کہ سلطان مراد خان ثانی کا بیٹا سلطان محمد خان قسطنطنیہ پر ایک بھرپور حملہ کرنے والا ہے اس کی دعاؤں کی رفتار کئی گناہ بڑھ گئی تھی۔ وہ شب و روز اپنے مالک کے حضور یہی ایک دعا کرتی کہ جلدی سے وہ دن آئے جب سلطان محمد خان قسطنطنیہ پر حملہ کردے۔ اسے یقین تھا کہ سلطان کے لشکر میں قاسم بن ہشام ضرور شامل ہوگا۔ گزشتہ سات سالوں میں مارسی کو اکثر اس بات پر حیرت ہوا کرتی تھی کہ قاسم نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ وہ سمجھتی تھی کہ اگر قاسم اسے ڈھونڈتا تو کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ اسے مل جاتی لیکن آج اسے یقین ہو رہا تھا کہ قاسم تو اسے ڈھونڈتا رہا ہے۔ وہ قاسم سے ملنے کے لئے بے چین ہوگئی لیکن اس نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے سونیا سے پوچھا۔
’’اچھا ۔۔۔تو تم اس سے محبت کرنے لگی ہو۔ لیکن یہ تو بتاؤ! کہ کیا وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے؟‘‘
’’ہاں کرتا ہے، بہت کرتا ہے مگر وہ مجبور ہے وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں جسمانی محبت نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میں ایک راہب ہوں۔ میں تمہیں روحانی محبت دے سکتا ہوں۔ اس نے مجھے روحانی محبت عطا کی ہے۔ یہ انگوٹھی اسی محبت کی نشانی ہے۔ لیکن سسٹر میری! مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ روحانی محبت کیا ہوتی ہے۔ آپ کو تو معلوم ہوگا مجھے بتائیے نا۔‘‘
مارسی ایک دانشمند لڑکی تھی۔ وہ آسانی سے بات کی تہہ تک پہنچنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ قاسم نے جان بوجھ کر یہ انگوٹھی سونیا کو پہنائی ہوگی تاکہ وہ مارسی کے پاس جائے تو مارسی انگوٹھی پہچان لے۔ یہ گویا ایک طرح کا پیغام تھا۔ مارسی، قاسم کے پیغام کو سوچ کر سرشار ہوگئی۔ لیکن اسے دیکھ ہوا اور وہ یہ کہ نادان سونیا خوامخواہ قاسم کی محبت میں گرفتار ہوچلی تھی۔ اچانک مارسی کے ذہن میں ایک خیال آیا اور اس نے سونیا سے کہا۔
’’بہت خوب! ۔۔۔تو وہ راہب تم سے روحانی محبت کرتا ہے۔ میں تمہیں ایک بات سکھاتی ہوں۔ تم اس سے کہنا۔۔۔تو وہ تم پر اور زیادہ مہربان ہو جائے گا۔۔۔لیکن پہلے میری ایک بات غور سے سن لو۔ اپنے آپ کو اسکی محبت میں اتنا دیوانہ مت کرو کہ اسے جب نہ پا سکو تو جدائی کا صدمہ برداشت ہی نہ کر پاؤ۔‘‘
سونیا مسکرا دی اور بے صبری سے بولی’’آپ مجھے وہ بات سکھائیے جو سکھانے جا رہی تھیں۔ آپ تو خود یسوع مسیح کی راہبہ ہیں۔ آپ کو بھلا محبت کے بارے میں کیا معلوم؟‘‘
نہ جانے کیوں مارسی کے ہونٹوں پر ایک عارفانہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے ایک طویل ٹھنڈی سانس لی اور دھیرے سے دوہرایا۔
’’ہاں ! تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔مجھے محبت کے بارے میں کیا معلوم؟‘‘
سونیا نے سمجھا کہ سسٹر کا دل دکھ گیا ہے۔ وہ معافیاں مانگنے لگی اور منت بھرے لہجے میں کہنے لگی’’سسٹر! اگرمجھے معاف کردیا ہے تو پھر بتائیے نا! کہ آپ مجھے کیا سکھانے والی تھیں؟‘‘
مارسی نے ایک لمحے کے لیے سونیا کے چہرے کی جانب دیکھا اور پھر کہا’’تم اس سے کہنا۔۔۔لالہ شاہین کے کبوتر اڑ گئے ہیں جب نیلا پانی سرخ ہو جائے گا تو اپنے گھروں میں واپس آجائیں گے۔‘‘
سونیا نے انتہائی حیرت سے سسٹر میری کے الفاظ سنے۔ اس نے ایک مرتبہ پھر الفاظ زیر لب دہرائے اور ان کو سمجھنے کی کوشش کی۔ لیکن پھر اپنی بھنویں سیکڑ کر استعجاب سے بھرپور لہجے میں کہا۔
’’یہ کیا بات ہے سسٹر! ۔۔۔مجھے توکچھ سمجھ نہیں آیا۔ لالہ شاہین کے کبوتروں کا ہماری محبت سے کیا تعلق؟‘‘
’’تم اس جملے کے مطلب کو چھوڑو۔ اسے ایک طرح کا روحانی منتر سمجھ لو۔ میں نے تمہیں محبت کا ایک یادگار پیغام سکھایا ہے۔ یہ کسی کی محبت کاایک یادگار پیغام ہے۔۔۔۔اس میں بہت اثر ہے۔‘‘
سونیا پھر بھی سمجھ تو کچھ نہ سکی۔ لیکن اس نے سسٹر میری کا پیغام زبانی یاد کرلیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)