عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 85
آیا صوفیا کے پادریوں کی مجلس سہ پہر سے شرع ہو کر رات تک جاری رہی۔مجلس میں قسطنطنیہ کے تمام پادری شریک ہوئے اور سب کے سب اس بات پر غم و غصے کا اظہار کرتے رہے کہ شہنشاہ نے دونوں کلیساؤں کی متحدہ مجلس کا صدر ’’کارڈنیل اسیڈور‘‘ کو بنا کر’’آیا صوفیاء‘‘ کے بطریق اعظم کی توہین کی ہے۔ اور قسطنطنیہ کے تمام مذہبی پیشواؤں نے مل کر متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ مجلس کے روز شہنشاہ کے سامنے احتجاج کریں گے اور دونوں کلیساؤں کی متحدہ مجلس کو ٹھیک اسوقت جب وہ عروج پر ہوگی بائیکاٹ کرکے ناکام بنادیں گے۔ یہ حقیقت تھی کہ شہر کی ساری عوام کے دل و دماغ پر مذہبی پیشواؤں کا قبضہ تھا۔ لوگ بد عقیدگی اور طرح طرح کے توہمات کا شکار ہو کر مذہبی پیشواؤں کے سامنے لاچار اور بے دست و پا ہو چکے تھے۔ مذہبی پیشوا لوگوں کو پیسے اور زروجواہر کے عوض جنت کی راہداریوں کے ٹکٹ دیا کرتے تھے۔ یہ بات یقینی تھی کہ اگر تمام پادری مل کر لوگوں کو شہنشاہ اور کارڈنیل کے خلاف اکساتے تو لوگ بھڑک اٹھتے۔ چنانچہ بطریق اعظم کی سازش کامیاب ہوگئی اور تمام پادریوں نے متفقہ طور پراسکا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔
رات کو اجلاس ختم ہوا تو قاسم بطریق اعظم سے اجازت لے کر خوشی خوشی اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔ راہدری سنسان پڑی تھی اور زیادہ تر لوگ سو چکے تھے۔ راہدری میں دونوں طرف جلتی ہوئی مشعلوں نے سنسان راہداری کے ماحول کو دیومالائی بنادیاتھا۔
قاسم سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پرپہنچا تو اسے دوسری منزل نہ جانے کیوں ویران ویران دکھائی دی۔ قاسم راہداری کا پہلا موڑ مڑا تو اسے پلک جھپکتے میں ایک سایہ سا دائیں سے بائیں حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔۔۔یوں جیسے کوئی شخص ایک دم سے کسی کمرے میں داخل ہوا ہو۔ قاسم چوکنا ہوگیا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 84پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دراصل قاسم اجلاس ختم ہونے کے بعدبھی کافی دیر تک شہر کے پادریوں کو اس عظیم مقصد کے لئے متحد رہنے کی تبلیغ کرتا رہاتھا۔ اس دوران بطریق اعظم اور باقی سب لوگ اپنی اپنی رہائش گاہوں میں چلے گئے تھے۔ جب شہر کے چھوٹے کلیساؤں سے آئے ہوئے پادری رخصت ہوئے تو رات کا پہلا پہر گزر چکاتھا اور اس وقت ’’آیا صوفیاء‘‘ کی یہ راہداری کسی قبرستان کی طرح خاموش پڑی تھی۔
قاسم چیتے کی طرح اپنے جسم کے بال کھڑے کئے راہداری میں چلتا ہوا اپنے کمرے کے باہر پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا کہ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔
قاسم احتیاط سے کمرے میں داخل ہوا۔ لیکن اندر کوئی نہ تھا۔ البتہ اس نے مشعل کی روشنی میں دیکھا کہ اس کا تمام سامان بکھرا پڑا تھا اور کوئی چور اس کے سامان کی بری طرح تلاشی لیتا رہا تھا۔ قاسم کا ذہن اچانک’’بطریق شاگال‘‘ کی طرف چلا گیا۔ آج صبح کے بعد اسے شاگال کہیں نظر نہ آیا۔ قاسم نے اپنے ساما ن کو سمیٹا اور سونے کے لیے لیٹ گیا لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسے عجیب قسم کے حالات کا سامنا تھا۔ جہاں تک فرض کا تعلق تھا تو قاسم کی کارکردگی اطمینان بخش تھی۔ لیکن جہاں تک محبت کا تعلق تھا ابھی تک قاسم کی کوئی کوشش بار آور نہ ہوئی تھی۔ قاسم اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے دیر تک اپنے بستر پر لیٹا رہا۔ اور پھر نہ جانے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی۔ قاسم کی آنکھ لگی تو قاسم کے کمرے میں موجود لکڑی کی کھڑکی میں حرکت ہوئی۔یہ ایک بڑی اور بھاری بھرکم کھڑکی تھی۔ قاسم گہری نیند سو رہا تھا جب ہلکی سی آوازکے ساتھ کمرے کی کھڑکی کھلی۔
مشعل کے حرکت کرتے ہوئے شعلے کی وجہ سے کمرے میں پڑی ہر چیز کا سایہ بھی محو حرکت تھا۔ کھڑکی کھلی تو مشعل کی روشنی کا ایک دھارا کھڑکی سے باہر کی طرف لپکا اور سامنے کھڑا سایہ ایک دم روشن ہوگیا۔ اگلے لمحے یہ سایہ آواز پیدا کئے بغیر قاسم کے کمرے میں داخل ہوا اورکھڑکی بند کر دی۔
رات کا دوسرا پہر گزر رہاتھا۔’’آیا صوفیاء ‘‘ کی پوری عمارت نیند کی وادیوں میں غرق تھی۔ ہر طرف سناٹا تھا اور سوئی کے گرنے کی آواز بھی سنی جا سکتی تھی۔لیکن قاسم کے کمرے میں موجود سایہ کوئی آواز پیدا نہ کر رہا تھا۔ وہ سایہ مشعل کی روشنی میں چلتا ہوا قاسم کے پیروں کی جانب بڑھا۔ یہ قاسم کے بستر کی پائنتی تھی۔ سایہ قاسم کے پیروں کے نزدیک پہنچ کر رک گیا۔ مشعل کی روشنی سائے پر پڑرہی تھی۔ اس لئے اب وہ سایہ نہ تھا بلکہ ایک جیتی جاگتی زندگی تھی۔ اور پھراگلے لمحے کمرے میں داخل ہونے والے نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو مشعل کا شعلہ حیرت سے بھڑک اٹھا۔۔۔ ارے! یہ تو سونیا تھی۔’’آیا صوفیاء‘‘ کی جذباتی کنیز۔
سونیا قاسم کے قدموں میں بیٹھ گئی اور اس کے ننگے پیروں کو دیوانوں جیسی نظروں سے دیکھنے لگی۔ قاسم کی وجاہت، مردانگی اور قدم کاٹھ دیکھ کر سونیا کے چہرے پر تحسین کے جذبات نظر آئے۔ سونیا چاہتی تھی کہ وہ چل کر قاسم کے پہلو میں لیٹ جائے۔ لیکن کوئی ان دیکھی طاقت اسے روک رہی تھی۔وہ دیر تک قاسم کے قدموں میں بیٹھی رہی۔ اور پھر وہ اٹھی اور جھک کر قاسم کے پیروں کا بوسہ لیا۔۔۔آن واحد میں قاسم کی آنکھ کھل گئی اس نے ایک جھٹکے سے اپنے پاؤں کھینچے اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’یہ کیا حرکت ہے؟۔۔۔سونیا! تم۔۔۔اس وقت؟۔۔۔میرے کمرے میں؟‘‘
سونیانے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر قاسم کو خاموش رہنے کا اشارہ کی ااور سرگوشیانہ لہجے میں بولی جیسے کوئی منتر پڑھ رہی ہو۔
’’لالہ شاہین کے کبوتر اڑ گئے ہیں۔۔۔جب نیلا پانی سرخ ہو جائے گا تو وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔‘‘
قاسم ایک دم اپنی جگہ پر سن ہو کر رہ گیا۔یہ سیدھا سیدھا مارسی کاپیغام تھا اسکے جسم کا رواں رواں خوشی سے جھومنے لگ گیا۔ اسے یہ بھول گیا کہ رات کا دوسرا پہر ہے اور سونیا اس کے کمرے میں اکیلی ہے وہ اچھلا اور اپنے بستر پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ اس نے بے تابی کے ساتھ سونیا سے پوچھا۔
’’کک۔۔۔کیا۔۔۔تم۔۔۔کیا کہہ رہی ہو؟ایک بار پھر کہو!‘‘
سونیا نے پھرکہا’’لالہ شاہین کے کبوتر اڑ گئے ہیں جب نیلا پانی سرخ ہو جائے گا تو وہ اپنے گھروں کولوٹ آئیں گے۔‘‘
قاسم مارسی کا پیغام سمجھ گیا۔ مارسی یہی کہہ رہی تھی کہ آبنائے باسفورس میں عیسائی فوجوں کا خون بہے گا تو اس سفید لباس راہبہ کو بھی چھٹکارا ملے گا۔۔۔
مارسی کے پیغام نے قاسم کی زندگی میں نئے رنگ بھر دیئے یہ پہلا موقع تھا کہ اسے محبت میں کامیابی ہو رہی تھی۔ وہ خوشی کے مارے جذباتی ہوگیا اور آگے بڑھ کر سونیا کے شانے پر ہاتھ رکھ دیئے۔ سونیا گلنار ہوگئی۔ قاسم نے سونیا سے کہا۔
’’سونیا! آج تم نے میرا دل مسرت سے بھر دیا۔ آج تم مجھ سے جو مانگو گی اگر میرے پاس ہوا تو تمہیں ضرور دوں گا۔‘‘
سونیا دل ہی دل میں سسٹر میری کو دعائیں دینے لگی۔ جس نے اسے قاسم کو رام کرنے کا منتر سکھایا تھا۔ سونیا کا دل مسرت سے پھڑکنے لگا۔ وہ اپنی قسمت پر ناز کرنے لگی۔ سونیا نے قاسم کی بات سن کر شرارت سے کہا۔
’’سچ؟ ۔۔۔کیا سچ مچ میں جو مانگوں گی آپ دیں گے؟‘‘
’’ہاں بے شک! میں نے جو قول دیا ہے وہ پورا کروں گا۔‘‘
’’تو پھر مجھے اپنا ساتھ دے دیجئے!‘‘
قاسم سٹپٹا گیا سونیا کا جملہ ذومعنی تھا۔ قاسم کو یقین تھا کہ وہ اسے سے محبت نہیں مانگے گی۔ کیونکہ قاسم ایک راہب تھا اور وہ جانتی تھی۔ لیکن اس نے تو ساتھ مانگ لیا تھا۔ قاسم نے گھبرا کر سونیا کی جانب دیکھا اور کہا
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟۔۔۔تم جانتی ہو کہ میں ایک راہب ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ راہب ہیں شادی نہیں کر سکتے اپنا قرب تو مجھے بخش سکتے ہیں۔ میں آپ کے قدموں میں سر رکھ کر ساری دنیا سے بے خبر ہو جانا چاہتی ہوں۔‘‘
قاسم کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ اپنے ہی دام میں پھنس چکا تھا۔ اسنے وقتی طور پر سونیا کو ٹالنے کے لیے جن الفاظ کا سہارا لیا وہ سونیا کے لئے زندگی کا سب سے بڑا سہارا بن گئے۔ قاسم نے کہا۔
’’ٹھیک ہے! تو پھر تم قسطنطنیہ کی جنگ تک انتظار کرو۔ اگر مسلمان جنگ جیت گئے تو میں تمہیں سہارا دوں گا۔ اور اگر ہار گئے تو میں تمہیں ییہاں سے نکال لے جاؤں گا۔‘‘
اپنی سوچ کے حساب سے قاسم کا جملہ ٹھیک تھا۔ اور قاسم نے دل میں فیصلہ بھی کچھ ایسا ہی کرلیا تھا کہ وہ ہر دونوں صورتوں میں اس دکھی لڑکی کو سہارا ضرور دے گا۔۔۔۔سونیا ایک دم مستقبل کے خوابوں میں گم ہوگئی۔ قاسم نے اسے کہا۔
’’دیوانی لڑکی! اب تم جاؤ۔ بہت رات ہوگئی ہے۔ اور تمہارا دیر تک میرے کمرے میں رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘
’’کیوں ٹھیک نہیں؟ یہاں کون سا راہب ہے جسکے کمرے میں رات کو سیج نہیں سجتی؟‘‘
’’میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ اور تم پوچھ رہی ہو یہاں کون سا راہب ہے جو پاکدامن ہے ۔۔۔مجھے دیکھو! میں پاکدامن ہوں۔ اس لئے اب تم اپنے کمرے میں جاؤ۔‘‘
سونیا کا دل جانے کو تو نہ چاہ رہا تھا لیکن طوعاً و کرہاً وہ قاسم کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی چلی گئی۔ سونیا چلی گئی تو کچھ دیر بعد قاسم نے اپنے کمرے کے دروازے سے باہر نکل کر باہر سنسان راہداری میں نگاہ ڈالی۔ اس نے ایک جانب دیکھا اور پھر ادھر سے نظر ہٹا کر دوسری جانب لمبی راہداری میں نگاہ دوڑائی۔ اور یہ دیکھ کر وہ سن سا ہوگیا کہ راہداری کے آخری کونے پر۔۔۔قاسم سے کافی دور بطریق شاگال کھڑا تھا۔ مشعل کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں اس کا سرخ چہرہ بھیانک دکھائی دے رہا تھا۔ قاسم کو اس کی دونوں آنکھیں کسی انگارے کی طرح دور سے دہکتی ہوئی نظر آئیں۔ اس کا رخ قاسم کی جانب ہی تھا اور وہ تن کر کھڑاکینہ توز نظروں سے قاسم کو گھور رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ قاسم کچھ سوچتا، شاگال ایک طرف مڑا اور دوسرے قدم پر وہ قاسم کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ قاسم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی ایک تیز لہر دوڑ گئی۔ وہ الٹے قدموں اپنے کمرے میں آیا اور اس نے کمرے کا دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کر دیا۔
قاسم بستر پر آکے لیٹ تو گیا لیکن شاگال کی آنکھیں تو جیسے اس کے دماغ میں گڑ گئی تھیں۔ دوسرخ انگارے قاسم کو ہر طرف دکھائی دینے لگے۔ بالآخر قاسم نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا اور آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کی۔ لیکن اب نیند اس سے کوسوں دور جا چکی تھی۔
اگلا روز آخری روز تھا۔۔۔کیونکہ اس سے اگلے روز کلیسا میں بہت بڑی مجلس منعقد ہونے والی تھی۔ آج ہی کلیسا کے ہال میں کانفرنس کے لئے نئے طریقے سے کرسیاں بچھائی جارہی تھیں۔ عبادت کے چبوترے کو چھوڑ کر باقی سارے ہال میں دائرے کی صورت میں دو سو سے زیادہ کرسیاں بچھا دی گئیں۔ چبوترے پر مجلس کے صدر اور شہنشاہ کے لئے شاہی مسند رکھ دی گئی۔ ہال کے وسط میں ایک کسی قدر وسیع میدان سا بن گیا تھا۔ چاروں طرف کی غلام گردوں اورمحرابوں میں فوجی افسروں اور معززین شہر کے لیے نشتیں رکھ دی گئیں۔آج ’’آیا صوفیاء‘‘ کی صفائی کی جا رہی تھی کیونکہ کلیہاں کلیسئاے رومہ اور یونانی کلیسا کا اتحاد ہونے والا تھا۔ قاسم اس اتحاد کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ آج صبح سورج طلوع ہوتے ہی قاسم بطریق اعظم کے کہنے پرایک مرتبہ پھر سپہ سالار گرانڈ ڈیوک نوٹاراس سے ملنے گیا تھا۔ قاسم نے سپہ سالار کو میٹنگ میں شدت پسندرویہ اختیار کرنے پر آمادہ کرلیا۔
وہاں سے واپسی پر قاسم انتہائی غیر محسوس طریقے سے اپنے بعض خفیہ ساتھیوں سے ملنے کے لیے بھی گیا جس کی کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو سکی۔ لیکن جس وقت قاسم اپنے ساتھیوں سے مل کر واپس آرہا تھا اسے بازارکی بھیڑ میں ڈیوڈ دکھائی دیا۔ قاسم کا ماتھا ٹھنکا۔ کہیں ڈیوڈ اس کا تعاقب تو نہیں کر رہا؟ اسی سوچنے قاسم کوبے چین کردیا لیکن وہ اپنے دھیان میں چلتا رہا اور دوپہر سے پہلے ’’آیا صوفیاء‘‘ پہنچ گیا۔ ’’آیا صوفیاء ‘‘ میں کانفرنس کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور اس وقت ہال کے ہر ستون کے ساتھ کئی مشعلیں اٹکائی جا رہی تھیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)