1987میں ریلیز ہونے والی ہندی فلم ’’آج ‘‘ میں جگجیت سنگھ کی خوبصورت آواز میں سندرشن فاخرکا لکھا مشہور گیت ’’وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی‘‘بلا شبہ آج بھی مجھ سمیت ہزاروں لوگوں کو بچپن کی حسین یادوں کے سحر میں فوراً جکڑلیتا ہے۔
9اپریل 2016کو شاید دو دہائیوں کے بعد آزادجموں وکشمیر کے دارلحکومت مظفرآبادکے ایک چوراہے جسے اپر اڈا چوک کے نام سے جانا جاتا ہے میں بارش کے پانی میں تیرتی کاغذ کی کشتیوں کوایک مرتبہ پھر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
سفید کاغذ سے بنی سڑک کے بیچ کھڑے گدلے پانی پہ تیرتی یہ کشتیاں پاس کھڑے بچوں ،نوجوانوں اور بزرگ شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کیے جارہی تھیں۔
استفسار پر معلوم ہوا کہ بارش سے بچتے چھتریاں (چھاتے) تھامے اس چھوٹے سے ہجوم کی قیادت تخلیقی ذہن کے مالک نوجوان فیصل جمیل کاشمیری کررہے ہیں جن کا مقصد بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے سے زیادہ حکومت کی توجہ شاہراہوں کی ٹوٹ پھوٹ اور اس پر کھڑے ہونے والے بارش کے پانی جیسے مسائل کی طرف مبذول کروانا تھا جس کے باعث شہری روز مرہ کے مسائل کا شکار تھے ۔
اس گدلے پانی میں تیرتی نو عمر کشتیوں نے جلد حکومتی حلقوں کی توجہ حاصل کی اور آج مظفرآباد کی مرکزی شاہراہوں اورچوراہوں پر کم از کم بارش کے رکے پانی پر کشتی رانی جیسا شوق پوراکرنے کی کوئی سہولت دستیاب نہیں۔
کاغذ کی ناؤ سے چلنے والا سلسلہ بھیک مارچ ،چندہ برائے ہنس پتال اورختم شریف جیسی انوکھی سرگرمیوں کے ذریعے بھی جاری رہا جس کے ذریعے تعلیم،صحت اور دیگر بنیادی شہری مسائل کی طرف ذرائع ابلاغ اورحکومتی اداروں کی توجہ مبذول کروائی گئی۔
گزشتہ سال آزادکشمیر کے انتخابات سے ایک ماہ قبل فیصل جمیل کاشمیری نے سول سوسائٹی مظفرآباد کے پلیٹ فارم سے اخباری اشتہارات کے ذریعے انتخابی معرکے میں شمولیت اختیار کرنے والوں سے پالیسی اور مستقل کی حکمت عملی کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد ایک سوال پوچھنے کا ایک سلسلہ شروع کیاجس کا مقصد رائے دہندگان کو یہ باور کروانا تھا کہ وہ متوقع امیدواروں سے گلی محلے کی سیاست کرانے کی بجائے قومی نوعیت کے مسائل پران کی آراء اور حکمت عملی سے بروقت آگاہی حاصل ہوں۔یوں جواب دیجئے نامی اس مہم کو خوب عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ۔
ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے فیصل جمیل کاشمیری نے 1996میں آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کی ۔وہ گریجویشن سے قبل ہی اپنے والد جمیل انور کشمیری مرحوم کی زیر نگرانی پندرہ روزہ جریدے آتش چنارجو 1995سے 2003تک باقاعدگی تک چھپتا رہا کے ساتھ منسلک رہے اور آزادکشمیر ریڈیو مظفرآباد میں بھی بحیثیت براڈکاسٹراپنے فرائض سرانجام دیتے رہے ۔2003میں یہ جریدہ چھپنا بند ہو گیاکیونکہ جنرل پرویز مشرف اور اس وقت کی حکومت کی کشمیر پالیسی کے خلاف لکھنے اور کارٹونز بنانے کی پاداش میں انہیں آزادکشمیر ریڈیو مظفرآباد سے نکال دیا گیا۔
فیصل پاکستان ایڈیٹرز کونسل آزادکشمیر ریجن کے سیکرٹری اطلاعات بھی رہے جس کے اس وقت صدر ضیاء شاہد اور جنرل سیکرٹری نجم سیٹھی تھے۔ فیصل جمیل کاشمیری اکتوبر 2005کے ہولناک زلزلہ کے بعد مجیب الرحمن شامی صاحب کے روزنامہ پاکستان کے ساتھ بطور بیوروچیف مظفرآباد بھی منسلک رہے۔
آئیے اب فیصل جمیل کاشمیری سے ہی پوچھتے ہیں کہ ایک صحافی، آرٹسٹ ، کارٹونسٹ ،نعت خواں شاعر، براڈکاسٹر اور مقرر کو سماجی ناانصاف، حکومتی اداروں کی شہری مسائل کی طرف عدم توجہی اور ایوان اقتدار میں براجمان منتخب نمائیندوں کو عوام کے سامنے جوابدہ کرنے اور معاشرے میں اچھوتے انداز سے سدھار لانے کا خیال کیسے آیا؟
’’ہماری مجموعی سوچ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں جمود کا شکار ہے۔ جب ہم دنیا کے ساتھ اپنے علاقے کا تقابل کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم یورپ اور امریکہ سے کئی سو برس پیچھے ہیں حالانکہ ہم تہذیبی حوالوں سے ہزاروں سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ میری سوچ کو سمت ہمارے لوگوں کی خاموشی نے عطا کی اور ساتھ ہی بے ڈھنگے احتجاجوں نے اس بات پر مجبور کیا کہ ارباب حل و عقد تک اپنی بات احسن انداز سے پہنچانے کے لیے ہمیں پرامن لیکن پراثر انداز اپنانا چاہیے۔
ہم نے مختلف شہری مسائل کے حل کے لیے خاموش دھرنے بھی دیئے اور مختلف ایسے ایونٹس کیے جن میں کبھی بھی احتجاجی رنگ موجود نہیں تھا ۔ ہمارا مقصد ہمیشہ یہی رہا کہ مسائل کی نشاندہی کے لیے ایسے ایونٹس کیے جائیں جو Creativeہوں اور جن میں ہمیشہ بہت ہی کم تعداد میں لوگ شریک ہوں تاکہ زندگی رواں دواں بھی رہے اور مسئلہ نہ صرف ہائی لائٹ ہو جائے بلکہ اس کا مناسب فالو اپ کر کے اسے حل کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ ہمارے توجہ دلانے پر نہ صرف حکومتی محکمے حرکت میں آتے ہیں بلکہ ان مسائل کے حل کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جسے میں معاشرے کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔
ترقی یافتہ ممالک میں بہت سی تنظیمیں ہیں جو مختلف انداز اور مثبت طرز فکر کے ساتھ اپنی بات ارباب اختیار تک پہنچاتی ہیں۔میں نے یہی سوچا کہ اپنے معاشرے میں اسی انداز سے ہمیں بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی بات کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانے کا مکلف کیا ہے جو بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ باقی ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہاری بات پر کس حد تک عمل کیا گیا کیونکہ عمل کرنا ذمہ دار محکموں اور افسران کا کام ہے۔ ‘‘
سینئر صحافی اور کالم نگارطارق نقاش ،فیصل جمیل کاشمیری کی دلچسپ تعمیری سرگرمیوں اور معاشرے پر ان کے اثرات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’فیصل جیسے لوگ ہمارے معاشرے کا سرمایہ ہیں ، جب ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے اردگرد ہونے والی چیزوں یا واقعات جو کہ ہماری زندگیوں پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہیں سے لاپرواہی برت رہے ہوتے ہیں، اس (فیصل)نے ان سب یا غلط یاصحیح کے حق یا مخالفت میں ایک مضبوط آواز اٹھانے کی ذمہ داری خود پہ لی۔سچ کہوں تو آج کے دور میں ایسے اعلیٰ کردار کے حامل لوگ بہت کم دیکھے گئے ہیں سب سے بڑھ کر دل کو چھو لینے والی بات یہ ہے کہ اس نے اپنا مقدمہ ایسے خوبصورت اور اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ لوگ اس سے قائل ہوجائیں۔نثر اور شاعری دونوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے اس نے اپنا نقطہ نظر اس انداز میں پیش کیاکہ لوگ توجہ دئیے بغیر نہ رہ سکے۔فیصل کی زبردست بات یہ ہے کہ وہ محض اپنے نقطہ نظر کو ترویج دینے کے لیے خود کو محدود نہیں کرتاوہ ہمیشہ پہلا قدم اٹھاکر مثال قائم کرتا ہے۔بلاشبہ اسے بہت سی خوبیوں سے نوازا گیا ہے۔ایک بہترین شاعر،نثرنگار،کالم نگار،خاکے بنانے والا،براڈکاسٹر،نعت خواں اور پتہ نہیں کیا کیا۔۔اتنی اعلیٰ خوبیاں رکھنے والے انسان آپ نے زندگی میں بہت کم دیکھے ہونگے۔‘‘
اپنی ذات میں خود ایک انجمن، فیصل Youth Led Activismکی خوبصورت مثال ہیں جو نہ صرف خود قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکے دوسرے نوجوانوں کو بھی ان کے کام کے قائد بننے کی تلقین کرتے ہیں۔فیصل کی خواہش ہے کہ نوجوان نسل فرقہ واریت اور نسل پرستی کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتے ہوئے معاشرے میں موجود اصل مسائل کا ادراک کرے اور ان کے جدید حل کے لیے اپنی بھرپور توانائیاں بھی صرف کرے۔
’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘
______________________________________________
مبشر نقوی مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے لکھاری ہیں جن کی سماجی مسائل پر تخلیقات زیادہ تر انگریزی زبان میں مختلف قومی جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔انہیں @SMubasharNaqviپرفالو کیاجاسکتا ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔