فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر584

Jan 06, 2019 | 03:44 PM

علی سفیان آفاقی

۱۹۶۱ء میں انور کمال پاشا کی فلم ’’منگول‘‘ میں بھی فیروز نظامی نے موسیقی ترتیب دی تھی۔ جیساکہ نام ہی سے ظاہر ہے یہ ایک کاسٹیوم فلم تھی۔ ایسی فلموں میں موسیقی کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ ’’منگول‘‘ بری طرح فلاپ ہوگئی۔ فیروز نظامی کی موسیقی بھی ابھر کر سامنے نہیں آئی۔ 
پھر ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ فلم سازوں کو فیروز نظامی کا خیال تک نہ آیا۔ ۱۹۶۵ء میں انہوں نے ایک پنجابی فلم ’’سوکن‘‘ کی موسیقی بنائی۔ اس کے ہدایت کار ان کے بیٹے عارف نظامی تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ فیروز نظامی کو پاکستانی فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے کس طرح نظر انداز اور فراموش کیا تھا کہ آئندہ نو سال تک کسی نے ان کی خدمات حاصل نہ کیں۔ اتفاق سے ان کے بیٹے عارف نظامی نے ۱۹۷۴ء میں ایک پنجابی فلم کی ہدایت کاری کی تھی جس میں سدھیر اور فردوس مرکزی کرداروں میں تھے۔ غالباً اپنے بیٹے کا دل رکھنے کی خاطر ہو اس فلم کی موسیقی بنانے پر آمادہہوگئے تھے۔ ورنہ فلمی صنعت سے وہ قطعی طور پر برگشتہ اور بے تعلق ہو کر رہ گئے تھے۔ فلمی صنعت نے ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا تھا اس کے پیش نظر ان کی دل شکستگی حق بجانب تھی۔ افسوس کہ ایک ذہین با صلاحیت ہنر مند موسیقار کی ہماری فلمی صنعت نے قدر نہ کی۔ اس طرح نقصان میں فیروز نظامی نہیں خود فلمی صنعت رہی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر583 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فیروز نظامی سے ہماری ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ سرخ و سفید رنگت ، سیاہ چمک دار بال، براؤن روشن آنکھیں درمیانہ قد، بھرابھرا جسم، بڑی بری آنکھوں میں سرمے کی تحریر(ان کے علاوہ آنکھوں میں باقاعدگی سے سرمہ لگانے والوں میں تنویر نقوی بھی شامل ہیں) نرمی اور شائستگی سے گفتگو کرتے تھے۔ کم آمیز اور کم گو تھے۔ کسی کی برائی میں کبھی انہوں نے ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالا۔ البتہ تعریف کے قابل موسیقی کی دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔ قمیص پتلون اور کوٹ ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ سادگی ایسی کہ اسٹوڈیو کی سیڑھیوں پر بلا تکلف بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے تھے۔ یہ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ہمیں بایو کیمک اور ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی جانب مائل کرنے کے وہی ذمے دار ہیں۔ 
ایک دن ہم بھی ان کی سیڑھیوں میں بیٹھا دیکھ کر وہیں بیٹھ گئے۔ انہوں نے ھسب دستور مزاج پرسی کی توہم نے بتایا پیٹ میں گیس بہت ہوتی ہے۔تیزابیت کی وجہ سے بیزار رہتے ہیں وزن نہیں بڑھتا۔ پیٹ بھی اتنا کم ہے کہ قمیص پتلون پہن کر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
’’وہ کیوں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم نے کہا ’’دیکھئے نا پتلون پہن کر کم از کم پیٹ کچھ تو نمایاں نظر آئے۔ اب آپ پتلون پن کر کتنے جامہ زیب اور بارعب لگتے ہیں۔‘‘
وہ مسکرانے لگے بولے ’’آپ بایو کیمک علاج کیوں نہیں کرتے۔‘‘
وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’آپ نہیں جانتے۔ بہت قدرتی اور موثر طریقہ علاج ہے۔ یہی ہومیو پیتھی کا سرچشمہ ہے۔‘‘
پھر انہوں نے ہمیں ایک کتاب کا نام بتا کر کہا’’یہ کتاب خرید لیجئے اور خود ہی اپنا علاج کیجئے۔ میری طرف دیکھئے۔‘‘
ہم نے ان کے سرخ و سفید چہرے کو دیکھا۔
’’میں ہمیشہ بایو کیمک علاج ہی کرتا ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے اس طریقہ علاج کے بارے میں مختصرا بتایا۔ ہم نے دوسرے ہی دن یہ کتاب اور چند ادویات خرید لیں پھر ہومیو پیتھی کا شوق پیدا ہوگیا تو ہومیو پیتھک کتابیں بھی لے آئے۔ رفتہ رفتہ ہم محض ہومیو پیتھی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ اس کا سہرا فیروز نظامی کے سر ہے۔
فیروز نظامی صحیح معنوں میں ایک عالم فاضل آدمی تھے۔ موسیقی پرانہیں عبور حاصل تھا۔ غالباً وہ واحد پاکستانی موسیقار ہیں جس نے انگریزی میں موسیقی کے بارے میں ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام History Development of Musicہے۔ اس قابل قدر کتاب سے کتنے لوگوں نے استفادہ کیا یہ ایک علیحدہ بات ہے۔
فلمی صنعت سے بے تعلق ہو کر انہیں قلق تو ہوا ہوگا۔ اس قدر عروج حاصل کرنے کے بعد کسی کا فلموں سے دور ہو جانا خاص تکلیف دہ ہوتا ہے مگر فیروز نظامی نے اس کو دل کا روگ نہ بنایا۔ وہ با صلاحیت اور تعلیم یافتہ انسان تھے۔ اس لیے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پاکستان ٹائمز کے علاوہ دوسرے جرائد اور اخبارات میں بھی لکھتے رہے۔ دراصل ان کا مزاج فلمی صنعت کے ماحول کے مطابق نہ تھا نہ ہی وہ بلا وجہ فلمی حلقوں اور تقاریب میں شریک ہوا کرتے تھے۔ انہیں گوشہ نشینی اور خاموشی سے پیار تھا۔ روحانیت سے بھی دلچسپی تھی۔ ’’سرچشمہ حیات‘‘ کے عنوان سے انہوں نے روحانیت کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے ۶۵ سال کی عمر پائی۔ غالباً ہارٹ فیل ان کی وفات کا سبب بنا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے معروف کرکٹر نذر محمد فیروز نظامی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ مدثر نذر ان کے بھتیجے ہیں ان کے دوسرے بھائی بھی تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اگر انہیں موسیقی کا شوق کشاں کشاں فلمی کوچے میں نہ لے جاتا تو وہ کسی بھی شعبے میں بہت کامیابیاں حاصل کر سکتے تھے۔ فیروز نظامی نے ڈپٹی سیکرٹری کی حیثیت سے پنجاب آرٹس کونسل میں بھی فرائض سرانجام دیئے مگر موسیقی کے دلدادہ شخص کے لیے یہ سب اسی طرح تھا جیسے مچھلی کو پانی سے دور کر دیا جائے۔ انہوں نے کبھی مایوسی اور شکایت کا اظہارنہیں کیا مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے فلم سازوں کے سلوک نے انہیں ذہنی صدمہ پہنچایا تھا اور غالباً یہی ان کی وفات کا سبب بن گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک ایسے شعبے میں دلچسپی رکھتے تھے جس کا ماحول اور طریقہ کار ان کے مزاج کے مطابق نہ تھا لیکن ان کی فنی عظمت سے انکارممکن نہیں ہے۔ اپنے کارناموں کی وجہ سے وہ برصغیر کے نامور موسیقاروں کی صف میں شمار کیے جاتے ہیں اگر مناسب مواقع اور سازگار ماحول نصیب ہوتا تو وہ پاکستان کی فلمی موسیقی کے لیے بڑے کارنامے سر انجام دے سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس نیک، شریف النفس، درویش صفت انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دیں۔۔۔آمین!(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر585 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں