فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر585
مشہور نظم کا مصرعہ ایک فطری حقیقت کا اظہار ہے
بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں
تنہائی جنہیں دہراتی ہے
لیکن آج کل زندگی کچھ اس ڈھب کی ہوگئی ہے کہ تنہائی بہت مشکل سے میسر آتی ہے لیکن اس کی جگہ لینے کے لیے ٹیلی ویژن موجود ہے۔ ٹیلی ویژن کی بہت سی خوبیوں اور خامیوں میں سے ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس پر جب پرانی فلموں کی نمائش کی جاتی ہے تو بیتے ہوئے دن اور گزرے ہوئے لوگوں کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور پھر انسان ایک بار ماضی کے دنوں میں پہنچ جاتا ہے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر584 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پچھلے دنوں ٹی وی پر ایک پرانی ہالی ووڈ کی فلم دیکھی جس میں ایوا گاردنر نے مرکزی کردار کیا تھا۔ ایوا گارڈنر کو دیکھ کر پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ چالیس پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہالی ووڈ میں بہت دلکش اور معیاری فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ بڑے بڑے مصنفنین کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ فلم ساز اور ہدایت کار انتہائی تجربے کار اور فلم سازی کے تمام رموز سے بخوبی آگاہ ہرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلم سازی محض دولت کمانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک شوق ، جوش اور جذبے کا نام تھا۔ فلم ساز اور ہدایت کار چوبیس گھنٹے فلموں کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ سوتے جاگتے۔اٹھتے بیٹھتے فلم ہی ان کے ذہنوں پر سوار رہتی تھی۔ ایک لگن تھی۔ آگ تھی جو دلوں میں بھڑکتی رہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں جیسے ہنر مند اور فنکار ہالی ووڈ کے علمبردار تھے اب اعلیٰ سے اعلیٰ فنکار ان کے پاسنگ بھی نہیں ہیں۔ تکنیک نے بہت ترقی کرلی ہے مگر خیال پیچھے رہ گیا ہے۔ تخیل مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ اداکاری کا معیار بدل چکا ہے ۔ حضرت جگر مراد آبادی کے مطابق وہی معاملہ ہے کہ ۔۔۔
ہوش خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انسان بڑے گئے سائے
یہ المیہ صرف ہالی ووڈ تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی یہی حال ہے۔ انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی جو فلم سازی کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک امتیازی مقام کے حامل تھے ان کی فلموں کا تو اب نام بھی سننے میں نہیں آتا۔ رہا ہالی ووڈ تو وہاں کا ماحول اور دستور بدل چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فلموں کے موضوعات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اداکاری کے وہ معیار نہیں رہے نہ ہی ہدایت کاروں میں ویسے قد آور، ذہین اور تخلیق کار لوگ نظر آتے ہیں۔ مشینوں کی بالادستی ہے۔ انسانی ذہن ان کے تابع ہو کر رہ گیا ہے۔
دور کیوں جاتے ہیں۔ ہندوستان کی فلمی صنعت کو ہی دیکھ لیجئے۔
ستر اور ساٹھ کی دہائی تک وہاں کیسی فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ کس قدر با صلاحیت ہنر مند اور کیسے مایہ ناز اداکار اور اداکارائیں اسکرین پر چھائی ہوئی تھیں۔ اب تکنیک کے اعتبار سے بھارتی فلموں نے ہت ترقی کی ہے۔ کروڑوں کے سرمائے سے فلمیں بنتی ہیں۔ آمدنی بھی کروڑوں میں ہوتی ہے اور خسارہ بھی کروڑوں میں کیونکہ بیشتر فلمیں بے مقصد، بے روح اور ناکام ہوتی ہیں پہلے جیسی دیو قامت شخصیات اب خواب و خیال ہو کر رہ گئی ہیں۔ پاکستان کی فلمی صنعت اس کے مقابلے میں کم عمر سہی لیکن ساٹھ سترکی دہائی تک پاکستان میں بھی ایک سنہری دور تھا۔ مگر اب نہ وہ لوگ رہے نہ وہ فلمیں۔
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
ماضی کا نوحہ رونے کی بجائے کیوں نہ کچھ خوب صورت یادیں تازہ کی جائیں۔
ایک دن اچانک ٹیلی ویژن پر کلاسیکی فلموں کے ضمن میں اداکارہ ایوا گاڈنر کی فلم ’’دی کلرز‘‘ دیکھی تو پرانا دور یاد آگیا۔ آج کی نسل غالباً ایواگاڈنر کے نام سے واقف بھی نہیں ہے۔ اپنے زمانے میں ایوا گارڈنر و ان کے اسٹودیو نے ’’دنیا کی ہیجان خیز ترین حیوان‘‘ کے نام سے متعارف کرایا تھا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ایوا گارڈنر کے پیکر میں ایک حیوانی اور مقناطیسی کشش تھی۔ یہت و پبلسٹی تھی لیکن جب یہ ہیجان خیز ہستی معیاری فلموں میں جلوہ گر ہوئی تو ان کے سراپا حسن و رعنائی اور کشش انگیزی کے باعث دنیا بھر میں رائے شماری کے بعد فلم بینوں نے متفقہ طور پر ایوا گارڈنر کو دنیاکی حسین ترین عورت کے لقب سے نوازا۔ وہ اس لقب کی مستحق بھی تھیں۔
دراز قد، متناسب جسم، (ان کی کمر صرف ۲۲ انچ تھی) لیکن سر سے پیر تک دیو مالائی دیودیوں کی مانند ان کے سراپا مین ایسا تناسب تھا جو کہ اس زمانے کی حسین ترین ہالی ووڈ کی ہیروئنوں میں بہت کم اداکاراؤں کو نصیب تھا لیکن ایوا گارڈنر کے حسن میں ایک مخصوص اور منفرد کیفیت تھی۔ ایوا گارڈنر کے چہرے اور جسم کی رنگت شہد اور دودھ کی آمیزش کی یاد دلاتی تھی۔ حقیقی زندگی میں وہ جس قدر حسین تھیں فلموں میں اس سے کہیں کم نظر آتی تھیں۔(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر586 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں