فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر586
ہم نے انہیں فلم ’’بھوانی جنکشن‘‘ کی لاہور میں شوٹنگ کے دنوں میں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ بات کرنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن موقع ملتا بھی تو شاید بات نہ کر پاتے۔ انہیں لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر اسٹیورٹ گرینجر کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت قریب سے دیکھا تو سانس رک سی گئی۔ لگ بھگ نصف صدی کے بعد بھی یہ منظر آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا ہے۔ ان کا رنگ بے بہا تھا۔ کندن کی طرح دمکتا ہوا۔ آنکھوں کی رنگت ہری تھی جبکہ بال بالکل سیاہ تھے۔
ایوا گارڈنر کی خوب صورت آنکھوں میں مقناطیسی کشش تھی لیکن ایک اور خوبی یہ تھی کہ ان کی بھنویں گھنی اور قدرتی طور پر ہلال کی طرح گولائی میں تھیں۔ ہالی ووڈ کی اکثر ہیروئنیں اس زمانے میں بھی بھنویں بنایا کرتی تھیں مگر ایوا گارڈنر اس کی محتاج نہیں تھیں۔وہ جب سیٹ پر یا کسی محفل میں نمودار ہوتی تھیں تو پھر سب کی نظریں ان پر مرکوز ہوکر رہ جاتی تھیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر585 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بھوانی جنکشن‘‘ کا یونٹ فلیٹیز ہوٹل میں مقیم تھا۔ لاہور کر ہر فرد ایوا گارڈنر کو دیکھنے کا شائق تھا۔ گورنر سے لے کر ایک عام راہ گیر تک انہیں ذاتی طور پر دیکھنے کا مشتاق تھا مگر ڈسپلن اتنا سخت تھا کہ گورنر صاحب کی دعوت بھی شکریے کے ساتھ مسترد کر دی گئی ۔ ہدایت کار جارج کیو کر کا کہنا تھا کہ ہم یہاں فلم بنانے کے لیے آئے ہیں۔ وقت کم ہے اور کام زیادہ۔
پروڈکشن انچارج کی نگرانی میں’’بھوانی جنکشن‘‘ کے یونٹ کے تمام افراد رات کو نو بجے سلا دیئے جاتے تھے کیونکہ کمروں کی روشنیاں گل کر دی جاتی تھیں۔ صبح آٹھ بجے انہیں شوٹنگ کے لیے تیار ہو کر لوکیشن پرم وجود ہونا لازم تھا۔ تاخیر کی صورت میں ایوا گارڈنر اور اسٹیورٹ گرینجر جیسے سپر اسٹار بھی ہدایت کار کی جھاڑ کھایا کرتے تھے اور وہ بھی منظر عام پر۔ بہرحال یہ ایک الگ داستان ہے جو اس سے پہلے کافی تفصیل سے بیان کی جا چکی ہے مگر اتنا یاد ہے کہ ایوا گارڈنر پر فلمی گانے کا یہ مکھڑا سو فیصد صادق آتا ہے کہ ۔۔۔
یوں تو ہم نے لاکھ حسین دیکھے ہیں
تم سا نہیں دیکھ۔۔۔
’’بھوانی جنکشن‘‘ کی تکمیل کے وقت ایوا گارڈنر ایک سپر اسٹار بن چکی تھیں مگر یہاں تک پہنچنے کے لیے انہیں کانٹوں بھرے راستوں پر پتھریلی پگڈنڈیوں پر طویل سفر کرنا پڑا تھا۔ یہ مقام انہیں آسانی سے راتوں رات نہیں مل گیا تھا۔
آئیے آپ کو اپنے دور کی حسین ترین عورت کی کہانی سنائیں۔
ایوا گارڈنر کا اصلی نام ایوالوینیا گارڈنر تھا۔ وہ ۲۴ دسمبر ۱۹۲۲ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ابتدائی تعلیم اور کالج کی تعلیم انہوں نے نارتھ کیرولائنا میں حاصل کی تھی۔ وہ بچھڑے ہوئے والدین کی لڑکی تھیں۔ امریکی روایات کے مطابق ویسے بھی انہیں جوان ہونے کے بعد اپنی زندگی بذات خود بنانی تھی۔ پہلے خیال تھا کہ وہ سیکرٹری کے طور پر کوئی ملازمت کر لیں گی مگر ہالی ووڈ کی رنگینیوں اور کشش نے انہیں بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا اور انہوں نے اداکارہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکا بلکہ سارے یورپ کی نو عمر اور خوش شکل لڑکیوں کے لیے ہالی ووڈ ہی آخری منزلا ور خواہشوں کی معراج تھی۔ انہوں نے دیکھا سنا اور پڑھا تھا کہا گر قسمت مہربان ہو جائے تو کس طرح ریستوران میں کام کرنے والی ویٹریس اسٹار بن جاتی ہے۔ معمولی سے کردار کرنے والی لڑکیوں اور چند ڈالرز کے عوض ماڈلنگ کرنے ولای لڑکیوں پر اچانک قسمت کس طرھ مسکراتی ہے۔ایسی بے شمار مثالیں ہر روز ان کے سامنے آتی رہتی تھیں۔ ہالی ووڈ کی حیثیت عمرو عیار کی زنبیل کی مانند تھی۔ زنبیل کے اندر تو دنیا کی ہر شے یہاں تک کہ پورا شہر تک سما جاتا تھا لیکن ہالی ووڈ میں دنیا کے ہر گوشے سے آنے والی خوش رو اور خوش اندام لڑکی کو کام مل جاتا تھا۔ فلم ، اسٹیج، ٹیلی ویژن، نائٹ کلب، ماڈلنگ، کہیں نہ کہیں وہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔ جس طرح قیام پاکستان سے پہلے سارے ہندوستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر فلم اسٹار بننے کی خواہش دل میں لیے بمبئی پہنچ جاتے تھے اسی طرح سارے امریکا کی لڑکیاں اور نوجوان لڑکے ہالی ووڈ کا رخ کرتے تھے۔ انہیں گھر سے بھاگنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی ۔ گھر ہوتا ہی کہاں تھا جہاں سے وہ بھاگتے۔ ماں کہیں تو باپ کہیں نو عمری ہی میں کمائی پر جت جاتے تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر ہوتے ہی وہ ہر طرح سے آزاد ہو جاتے تھے اور اپنی پناہ گاہوں اور چراگاہوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے تھے۔ بہت کم خوش نصیب تھے جو کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے تھے ورنہ بہت بری اکثریت انسانوں کے اس مشینی جنگل میں گم ہو کر رہ جاتی تھی۔
ایوالیونینا گارڈنر نے بھی جوانی کے آنگن میں قدم رکھتے ہی ہالی ووڈ کو اپنی منزل ٹھہرالیا۔ چھوٹے موٹے کاموں میں اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ اسے اپنے حسن و جمال کا بھی بخوبی احساس تھا۔ ایسی حسین اور دل نواز لڑکی اگر ہالی ووڈ کی اسٹار بننے کا خواب دیکھ رہی تھی تو یہ اتنا غلط اور بے جا بھی نہ تھا۔ وہ جس طرف سے گزرتی تھی بے شمار نگاہیں اس کا پیچھا کرتی تھیں۔ کچھ رشک سے ، کچھ حسد سے اور کچھ رفاقت اور دوستی کی تمنا لیے۔
ایوا نے ہالی ووڈ پہنچ کر حسب معمول زمانے کے سرد و گرم دیکھے۔ جس نے امید دلائی اس کے ساتھ رہنے لگی کیونکہ وہاں رہائش اور کھانا پینا بھی ایک مسئلہ ہوتاہے۔ ساتھ رہنے کا معاوضہ اسے ڈالروں میں ادا نہیں کرنا پڑتا تھا اسلیے کہ اس کے پاس ڈالر تھے ہی نہیں البتہ کھنکتا ہوا جسم اور دمکتا ہوا شداب چہرہ ضرور تھا۔ یہی اس کی کل پونجی تھی جس میں سے وہ ضرورت کے مطابق اخراجات کرتی رہتی تھی۔ ایک معمولی سے کسان کی بیٹی ہالی ووڈ جیسے شہر میں اس سے زیادہ اور کیا حاصل کر سکتی تھی۔
کسی فوٹوگرافر نے اسے ماڈلنگ کا جھانسہ دیا اور کچھ تصاویر بنا کر میگزینز اور اشتہاری کمپنیوں کو دکھا بھی دیں۔ اس فوٹوگرافر کی مہربانی سیا س کو ماڈلنگ کا کام مل گیا۔ اس سے برائے نام آمدنی ہوتی تھی مگر خالی جیب کے مقابلے میں کم بھری ہوئی جیب بہرحال بہتر ہوتی ہے۔
ہالی ووڈ میں بھی فوٹو گرافروں اور ٹیلنٹ ایجنٹوں کے نام پر ایک بڑا مافیا ہمیشہ رہا ہے۔ ایسے لوگ بمبئی میں بھی ہیں اور لاہور میں بھی جو لڑکیوں کو اسٹار بنانے کا لالچ دے کر اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا میں فلمی دنیا کا یہی انداز اور چلن ہے۔
ماڈلنگ کے راستے ایو ا کو ایک ایجنٹ نے فلم اسٹوڈیو تک پہنچا دیا جہاں اسے پچاس ڈالر فی ہفتہ معاوضہ پر چند نا قابل ذکر کرداروں میں ایکسٹرا کے طور پر استعمال کیا گیا۔ درجنوں، سینکڑوں لڑکیوں کے ہجوم میں ایک ایوا گارڈنر کو بھلا کون دیکھتا اور یاد رکھتا جبکہ ہیرو اور ہیروئن بھی سین میں موجود ہوں۔ ظاہر ہے کہ تمام نظریں ان پر ہی مرکوز ہوتی ہیں۔ ان دنوں ایوا نے جو کام کیے وہ خود اس کے سوا کسی کو یاد نہیں ہیں۔ فلم کی ریلیز کے موقع پر وہ بڑے اشتیاق اور غور سے لڑکیوں کے غول میں خود کو تلاش کرتی تھی۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ سارے فلم بینوں کی مرکز نگاہ بن جائے گی۔ بہرحال یہ بہت کافی تھا کہ ایک فلم کمپنی نے اس کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا اور اسے ہر ہفتے پچاس ڈالر مل جایا کرتے تھے جو کہ اس زمانے میں اس کے لیے بہت بڑی رقم تھی۔
اس کو ایم جی ایم کے مالک لوئی بی میئر کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے کچھ دیر تک اسے غور سے دیکھا پھر کہا’’یہ تو نہ بات کر سکتی ہے نہ ایکٹنگ کر سکتی ہے۔ ویسے بھی اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ کبھی آرٹسٹ نہیں بن سکتی۔‘‘
یہ اس طرح کا واقعہ تھا جو ۱۹۵۰ء میں لاہور میں صبیحہ خانم کے ساتھ پیش آیا تھا۔ سید عطا اللہ شاہ ہاشمی اس زمانے میں ایک معروف فلمی صحافی اور فلم ساز تھے۔ انہوں نے صبیحہ پر ایک نظر ڈالی اور کہا’’چھوٹا سا قد، گول چہرہ، اس لڑکی میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ کبھی آرٹسٹ نہیں بن سکتی۔‘‘
مگر لاہور کے عطا اللہ شاہ ہاشمی کی طرح ہالی ووڈ کے تجربے کار فلم ساز اور اسٹوڈیو کے مالک لوئی بی میئر کا اندازہ بھی غلط تھا۔ آگے چل کر ایوا گارڈنر نے فلمی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ صبیحہ خانم کو پاکستانی اسکرین کی فرسٹ لیڈی قرار دیا گیا اور سالہا سال تک وہ بام عروج پر ہیں۔ دیکھئے تجربار کار، جہاں دیدہ لوگوں کے اندازے بھی بعض اوقات کتنے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ مگر ایوا گارڈنر نے ہمت نہیں ہاری۔ اسے جو بھی کردار ملتے رہے وہ ان کو بڑی محنت اور لگن کے ساتھ نبھاتی رہی۔ اس کی کارکردگی اور سب سے بڑھ کر حسن و جمال کی تابانی زیادہ عرصے تک چھپی نہ رہ سکی۔ رفتہ رفتہ اسے بہتر کردار ملتے رہے اچھے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو اس نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اس طرح یہ سنگلاخ پتھر تراش خراش کے بعد ایک آنکھوں کو خیرہ کرنے والے ہیرے کی شکل اختیار کر گیا۔ اسے دنیا کی سب سے ہیجان انگیز حیوان کا لقب ملا۔ اس کے بعد دنیا کی حسین ترین عورت کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر587 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں