شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 52

Jul 06, 2018 | 02:23 PM

قمر نقوی

گاؤں میں ہم لوگوں کا ورود گویا ایک ناقابل یقین اتفاق تھا ..... وہ لوگ اپنا رونا دھونا اور چیخنا چلانا بھول کر ہمارے گرو جمع ہوگئے.....
چوپال کے سامنے ایک چار پائی ڈال کر اس پر کھیس بچھادی گئی ..... اور میں اس چارپائی کے صدر مقام پر بیٹھا یا گیا ..... میں نے سپاہیوں کو اشارا کیا کہ وہ بھی بیٹھیں ..... اسی وقت دوسری چارپائی بھی آگئی جس پر دونوں سپاہی اور جنگی خاں بیٹھ گئے ..... گاؤں کے تین چار معمر لوگ میرے سامنے زمین پر اکڑوں بیٹھے ..... ان کے قیافے نہایت متفکر ..... بہت پریشانی کے مظہر تھے ..... !
شیرنی کی لاش گاڑی سے اتار کر ایک طرف ڈال دی گئی تھی ..... کچھ مرد اور چند عورتیں بمعہ بچوں کے اس زیارت سے مشرف ہو رہے تھے .....
میرے سامنے زمین پر جو بوڑھے بیٹھے تھے میں ان سے مخاطب ہوا ..... ’’میں نے کسی کے رونے کی آواز سنی تھی ..... کیا معاملہ ہے ؟ ..... ‘‘

شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 51پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


’’کیا بتائیں حجور جندڑی مصیبت میں ہے ..... ‘‘
اور اس نے درج ذیل واقعہ بیان کیا .....
دوپہر کے وقت ..... ایک عورت اپنے شوہر کے لیے کھانا لے کر گھر سے روانہ ہوئی ..... اس کا شوہر اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا..... کھیت فاصلے پر ہے ..... جنگل کا قطعہ سے گزرتے وقت غائب ہوئی ..... جو لوگ قریب کے کھیتوں میں تھے انہوں نے اس کی ایک چیخ سنی اور فوراً ہی کلہاڑے اور گنڈا سے لے کر دوڑ پڑے ..... تھوڑی ہی دیر پر وہ بے ہوشی کی حالت میں ملی ..... اب وہ گھر میں پڑی ہے ..... ہوش آگیا ہے لیکن بات نہیں کرتی ..... زخم سے خون بھی رسنے لگتا ہے .....
’’کسی جانور کے پنجوں کے نشانات ملے ..... ؟‘ ‘میں نے پوچھا
’’نہیں حجور ..... ‘‘’’نسان کا ہے کا حجور ..... وہ تو بھوت ہے ..... ‘‘
’’ہوں ..... ‘‘مجھے معلوم تھا کہ وہ لوگ اپنا خیال کسی طرح نہیں بدلیں گے .....
دشواری یہ تھی کہ میرے ساتھ اس موقعے کے لیے دوائیں نہیں تھیں ..... صرف وہ پیلی دوا تھی جو زخموں کے لیے مفید ہوتی ہے ..... یا ایک ڈبی ایک قسم کے اینٹی بایوٹک مرہم کی پٹی تھی جو پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئی ..... لیکن اس عورت کے زخموں کا خون رکنا ضروری تھا اور مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری تھا .....
ہاسٹیل وہاں سے اٹھائیس میل دور اٹارسی میں تھا ..... اور سفر بیل گاڑی کا ..... ! ’’حجور کے پاس کوئی دوا ہوتو دیو ..... ‘‘
’’ہاں ..... لیکن میں اس کا زخم دیکھوں گا ..... ‘‘
میں چلا تو ایک مجمع میرے ساتھ چلا ..... میں نے ممتاز سے کہا کہ ان سب کو روکے اور خود اس عورت کے شوہر کے ساتھ اس کے گھر آیا ..... عورت اپنی چار پائی پر اوندھی لیٹی تھی ..... پشت کھلی تھی اور دو جگہ گہرے زخم تھے ..... ایک زخم بائیں جانب..... میں شانے کے نیچے ..... جو زخم تھا وہ مجھے تشویشناک معلوم ہوا ..... اسی میں سے خون بھی رس رہا تھا لیکن بہت کم .....
میں نے ان سے پانی خوب گرم کرایا ..... اس سے زخم صاف کئے ..... جو زخم ٹانگوں پر تھے ان کے بارے میں میرا خیال تھا کانٹوں میں گرنے یا گھسٹے جانے سے آئے ..... باقی زخم دانتوں اور پنجوں کے تھے ..... اور ..... یہ کام ..... شیر یا چیتے کا تھا ..... !
گویا یہ تھا بھوت ..... دیہاتی اس طرح رسی کو سانپ بنا دیتے ہیں ..... ایسا نہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اکثردیہاتی سچ بولتے ہیں بجز اس کے کہ وہ دیہاتی جو عبدالقیوم خاں جیسے ہوں ..... عبدالقیوم خاں ..... ایک کوتاہ قامت ..... دبلا پتلا دیہاتی تھا ..... جو نجانے کس حیلے سے شارجہ آکر ایک تیل کے کمپنی میں کلرک ٹائپسٹ لگ گیا اور انتہائی عیار ثابت ہوا ..... پہلے تو اس نے لکڑی کے فوٹو فریم بنایا شروع کیے اس پارٹ ٹائم کام سے کچھ پیسے پیدا کرنے لگا ..... اس کے بعد ایک مقامی عرب بنام خانم سے مل کر کچھ تجارت کرنے لگا ..... اور اس میں بھی کامیاب ثابت ہوا ..... انتہائی چالاک ..... بہت ہوشیار ..... لیکن ایک چھوٹے دیہات کا رہنے والا بہت ہی بیوقوف آدمی تھا ..... لیکن اس دیہاتی عبدالقیوم خاں سے بڑا جھوٹا ‘ عیار اور مکار شخص اس روئے زمین پر شاید ابلیس ہو تو ہو ..... !
لیکن ..... دیہاتی عام طور سے سادہ لوح اور ایماندار ہوتے ہیں ..... فرشتوں میں شیطان بھی پیدا ہو سکتا ہے ..... بلکہ ہوچکا ہے .....!
بہر حال ..... میں نے اس کے زخم اچھی طرح صاف کر کے ان پر وہی پیلی دوا لگا دی ..... جو زخم گہرے تھے ان کو پیلی دوا سے خوب تر رکھنے اور پھر روئی سے خشک کرنے کے بعد مرہم لگا کر پتی باندھ دی ..... جس زخم سے خون نکل رہا تھا اس کو خوب صاف کرنے کے بعد ذرا دیر روئی سے دبائی رکھنے پر خون بند ہوگیا ..... اس پر میں نے مرہم لگا کر روئی رکھی اور پٹی باندھ دی .....
میرے پاس ایسپرین کی گولیاں بھی تھیں ..... جو ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں ..... میں نے دو گولیاں دودھ کے ایک کٹورے کے ساتھ اس کو کھلائیں ..... میں یہی کچھ کر سکتا تھا .....
لیکن میری اس امداد نے ان کو خاصا متاثر کیا .....
اس کے بعد میں نے قیام اور طعام کے مسئلے کی طرف توجہ دی ..... قیام کے بارے میں تو ممتاز اور لالن نے معاملہ کر لیا تھا ..... اور میرے لیے ایک مناسب کوٹھا (کمرہ ) صاف کر کے اس میں چارپائی ڈلوادی اور میرا بستر جو ساتھ آیا تھا لگوادیا .....
کھانے کے لیے میں نے ان کو سو روپے دیئے کہ ضرورت کی جو اشیاء مناسب ہوں وہ ان لوگوں سے خریدیں ..... سو روپیہ 1964ء میں ایک مناسب رقم ہوا کرتی تھی ..... گو آج کل سو روپیہ بے حقیقت ہے ..... اور روپیہ ہی کیا ..... پاکستان میں تو آج کل انسانی جان کی قدرو قیمت نہیں ہے ..... اب بات نکل ہی آئی ہے تو میں ماہنامہ ’’منشور ‘‘ کراچی کے مئی 1990ء کے شمارے کا اقتباس لکھ کر دیتا ہوں ..... جو خو کلام ہے اور موجودہ حالات کا شارح بھی .....
’مہنگائی ‘ افراط زر اور سکہ رائج الوقت کی بے قدری نے الگ خون پی رکھا ہے ..... ڈاکہ زنی اور دہشت گردی نے ذہنی سکون چھین لیا ہے ..... سفارش اور رشوت نے جڑیں کھود ڈالی ہیں ..... عدلیہ اور انتظامیہ غیر موثر کردی گئی ہیں ..... برسراقتدار اور محروم اقتدار سیاسی ، مذہبی اور لسانی پارٹیوں کے جھگڑوں نے معاشرتی امن برباد کر ڈالا ہے ..... کشمیر کے لٹنے کی وجہ سے بھی قومی بجٹ کا برا حصہ دفاعی کوششوں اور جنگی تیاریوں کے لیے وقف ہوگیا ہے ..... باقی ماندہ حصہ بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی پر بھینٹ چڑھ جاتا ہے .....
مجھے اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ..... !
دوسرے دن صبح معلوم ہوا کہ وہ عور ت بات چیت کرنے لگی ..... اور اس کے شوہر کو بلا کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے گلدار کی تصدیق کی ..... اس نے بتایا کہ وہ کھانا کھلا کر اور برتن لے کر واپس جنگل سے گزری توجھاڑی میں سے چیتا نکل کر لپٹ گیا ..... پھر اس کو ہوش نہیں رہا ..... خوف کی وجہ سے اس کی بس ایک دبی دبی چیخ سی نکل سکی ..... !

(جاری ہے۔۔۔اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزیدخبریں