دوسری طرف خلیفہ کا غدار چچا سلیمان شاہ اپنی ناپاک ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا۔ قرطبہ میں مجھے تیسرا روز تھا کہ سلیمان شاہ نے مجھے آکر بتایا کہ اس نے ایک خفیہ طریق کار پر عمل کرتے ہوئے خلیفہ کو زہر کھلادیا ہے۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے دیوا رپر لگے سونے کے عقاب کے مجسمے پر نظریں گاڑ دیں اور بولا
”کل صبح خلیفہ اس دنیا میں نہیں ہوگا اس کے بعد اندلس کا تاج و تخت میرے قبضے میں ہوگا۔“ میں مطمئن تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس نے جو زہر خلیفہ مسترشد کو جس طریقے سے بھی کھلایا ہے وہ اصلی زہر نہیں ہے لیکن جب اس نے یہ کہا کہ خلیفہ کل اس دنیا میں نہیں ہوگا تو میرا ماتھا ٹھنکا کیونکہ حسا ب کے مطابق یہ بات اسے بھی معلوم تھی کہ زہر کا اثر دو دن کے بعد ہونا چاہیے۔ میں نے بڑے ادب سے سوال کیاکہ زہر کو تو دو روز کے بعد اثر دکھانا ہے۔ آپ نے آج ہی زہر دیا ہے پھر رات تک اس کا نتیجہ کیسے سامنے آئے گا؟
اس پر مکار سلیمان شاہ نے اپنی بند مٹھی ہوا میں لہراتے ہوئے کہا
”میں نے زہر کے مہلک اثر کو سہ چند کردیا ہے۔“
”وہ کیسے؟“ میں نے حیرت سے چونکتے ہوئے پوچھا۔ سلیمان شاہ بولا
”لیوگی! میں دو روز تک زہ رکے اثرکا انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ میرے پاس ایک دوسرا زہر محفوظ پڑا تھا۔ میں نے اسے تمہارے لائے ہوئے زہر میں ملا کر بادشاہ کو ایک ساقی کی ساز باز سے مشروب میں ملا کرپلادیا ہے۔ مجھے میرے مخبر نے ابھی ابھی خبر دی ہے کہ بادشاہ بستر مرگ پر پڑا ہے۔ وہ نصف شب سے پہلے ہی مرجائے گا۔“
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 169 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ”لیوگی! تم نے بھی بہت بڑا کام کیا ہے۔ میں تمہیں فراموش نہیں کروں گا۔ تخت نشین ہونے کے بعد تم میرے مقرب خاص ہوگئے۔“ یہ کہہ کر وہ میرے کمرے سے نکل گیا۔ میرے ہوش اُڑگئے تھے۔ تقدیر نے میرے خلاف پانسہ الٹ دیا تھا۔ میں کچھ اور سوچ کے بیٹھا تھا اور نتیجہ کچھ اور نکلنے والا تھا لیکن میں نے خلیفہ کی جان بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ سوال یہ تھا کہ میں کس طرح بادشاہ کی خلوت گاہ میں جاﺅں؟ سلیمان شاہ کو علم ہوجانے کی صورت میں معاملہ گڑ بڑ ہونے کا اندیشہ تھا۔ مگر یہ وقت ان مصلحتوں کے سوچنے کا نہیں تھا۔ میں مہمان خانے سے نکل کر شاہی محل کی طرف بھاگا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ بجائے خلیفہ اندلس سے ملنے کے مجھے شاہی طبیب سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ یہ بڑا مازوں اور مناسب خیال تھا۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو یہ علم ہو کہ میں نے شاہی طبیب سے ملاقات کی ہے۔ میں نے گھوڑے کی باگ شاہی علاج گاہ کی طرف موڑدی۔ جو شاہی محل کے عقب میں تھی۔ یہاں میں نے ایک اہلکار سے رجوع کیا اور اسے بتایا کہ میں شاہی طبیب کے لئے ایک ضروری پیغام لایا ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ طبیب شاہی اس وقت بادشاہ کی خواب گاہ میں ہیں اور بادشاہ کا علاج کررہے ہیں۔ میں نے کہا میں اسی سلسلے میں انہیں ایک اہم پیغام دینے آیا ہوں۔ اہلکار نے میری بیتابی دیکھ کر طبیب خاص کو پیغام بھجوادیا۔ چند لمحوں کے بعد ایک سفید ریش بزرگ شاہی عبادہ پہنے میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں اسے خلوت میں لے گیا اور جیب سے تریاقی تیل کی بوتل نکال کر اسے دی اور کہا
”اس تیل کے چند قطرے پانی میں ملا کر بادشاہ کو پلادیں۔ انہیں شفا ہوجائے گی۔“
طبیب خاص نے مجھے سر سے پاﺅں تک دیکھا اور مشتبہ انداز میں پوچھا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں؟
میں نے ہاتھ باندھ کر کہا ”یہ ساری باتیں میں آپ کو بعد میں عرض کروں گا۔ اس وقت بادشاہ کی جان بچانے کی ضرورت ہے۔ مجھ پر اعتبار کریں۔ یہ تریاق ہے۔ بادشاہ کو مشروب میں زہر دیا گیا ہے۔ یہ تریاق زہر کے اثرات کو ختم کردے گا۔“
طبیب خاص نے بوتل کھول کر تیل سونگھا اور بولا ”اس میں سنگ اصحاک کی بوٹی شامل ہے۔“
وہ میرے تریاق کے اجزائے ترکیبی کو بہت حد تک پہچان گیا تھا۔ میں نے جلدی سے عرض کی کہ وہاں سنگ اضحاک کی آمیزش سے یہ تریاق بنایا گیا ہے اور میرا خاندانی نسخہ ہے۔ طبیب خاص کے دل پر میری سچائی کا اثر ہوگیا۔ کچھ اس لئے ھی کہ ایک اعلیٰ طبیب ہونے کی وجہ سے وہ جان گیا تھا کہ سنگ اضحاک کی بوٹی بے ضرر ہوتی ہے۔ اس نے مجھے وہیں بیٹھنے کو کہا اور خود تریاقی تیل کی بوتل لئے بادشاہ کی خواب گاہ کی طرف چل دیا۔ میں بے چینی کے عالم میں ایک دیوان پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد طبیب خاص دوبارہ آیا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے میرے کاندھے کو تھپتھپایا اور بولا
”میرے بچے! تمہارے خاندانی نسخے نے بادشاہ وقت کی جان بچالی ہے۔ زہر کا اثر ختم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اب یہ بتاﺅ کہ تم کون ہو اور تمہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ بادشاہ کو زہر دیا گیا ہے؟“
اس کے ساتھ ہی طبیب خاص نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجائی اور چار مسلح حبشی محافظ شاہی تلواریں کھینچے اندر گھس آئے اور انہوں نے آتے ہی مجھے دبوچ لیا۔ طبیب خاص بولا ”یہ شخص بادشاہ کے قاتلوں کا ساتھی ہے۔ اسے لے جاکر قید میں ڈال دو اور اس کی کڑی نگرانی کی جائے۔“
میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے بہت کہا کہ میرا کسی سازش یا شاہ کے قاتلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر میں کہہ چکا تھا کہ بادشاہ کو زہر دیا گیا ہے۔ اور یہ بات اس امر کا اظہار کرتی تھی کہ میں سازشیوں کا آدمی ہوں ورنہ مجھے ان کے ناپاک عزائم کا کس طرح علم ہوتا۔ تنومند مسلح حبشی مجھے کھینچتے ہوئے قید خانے میں لے گئے اور ایک کوٹھری میں دھکا دے کر بند کرکے باہر سے تالا لگادیا۔ اس اعتبار سے میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ میرے اس اقدام سے خلیفہ اندلس کی جان بچ گئی تھی۔ اب خطرہ اس بات کا تھا کہ اگر میں قید خانے میں ہی پڑا رہا تو غدار سلیمان شاہ بادشاہ کے بچ جانے کی صورت میں اسے دوبارہ زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ اس بار زہر کی بجائے بادشاہ کو قتل کروادے۔ چنانچہ میرا قید خانے سے باہر نکل کر خلیفہ اندلس کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنا بہت ضروری تھا۔ اب مجھے ا س امر کی پروا نہیں تھی کہ سلیمان شاہ کو میری نیت سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ میں اس کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں اس ۔۔۔ گروہ سے وابستہ سمجھا گیا ہوں۔ جس نے بادشاہ کی جان لینے کی کوشش کی ہے اور مجھ سے بہت جلد پوچھ گچھ کی جائے گی۔ اس کے باوجود میں نے طے کرلیا اگر کل تک مجھے قید خانے سے باہر نہیں نکالا گیا تو میں دروازہ توڑ کر خود بادشاہ کے روبرو پیش ہونے کی کوشش کروں گا۔
وہ رات میں نے قید خانے کی کال کوٹھری میں گزاردی۔ دوسرے روز مجھے قید خانے کا دروازہ توڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ شاہی محافظ دستہ آیا اور مجھے قید خانے سے نکال کر اپنے ساتھ لے گیا۔ مجھے لے جانے سے پہلے انہوں نے میرے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ دئیے۔ میں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ میر امقصد تو کسی شاہی اہلکار کے روبرو جاکر سنگین حقائق کی نقاب کشائی تھا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے کوتوال خاص کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ محافظ دستہ مجھے پوشیدہ طور پر شاہی محل کے عقبی دروازے سے نکال کر خلیفہ مسترشد کے قصر خلافت میں لے گیا۔ وہاں خلیفہ مسترشد بہ نفس نفیس اپنے طبیب خاص کے ساتھ موجود تھا۔ اگرچہ وہ ایک آرام دہ عالی مسہری پر نیم دراز تھا لیکن اس کی حالت بہتر تھی اور وہ صحت مند محسوس ہورہا تھا۔ طبیب خاص، جس کے حکم سے میں گرفتار ہوا تھا خلیفہ کے پلنگ کے قریب دیوان پر دو زانون ہوکر بڑے ادب سے بیٹھا تھا۔ شاہی محافظوں کو طبیب خاص نے اشارہ کیا۔ وہ واپس چلے گئے۔ اب قصر خلافت کے اس ذی شان کمرے میں اکیلا بادشاہ اور اس کے شاہی طبیب کے رو برو کھڑا تھا۔ میں سلطان اندلس کی اموی خلیفہ مسترشد کو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک بار رعب اور وجیہہ، ادھیڑ عمر بادشاہ تھا۔(جاری ہے)