اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 169

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 169

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے طلیطلہ کے بوڑھے دکاندار طبیب سے اس خاص بوٹی کے بارے میں استفسار کیا جو زہ رکے اثرات کو معدے میں پہنچتے ہی بے اثر کردیتی تھی۔ طبیب نے بتایا کہ یہ بوٹی قرطبہ کے پہاڑی کے جنگل میںمل جائے گی۔ طلیطلہ میں وہ ناپید تھی۔ میں ایک بار پھر انے سفر پر روانہ ہوگیا۔ یونہی سفر کرتے طلیطلہ سے مجریط اور مجریط سے قرطبہ پہنچ گیا۔ یہ شہر اندلس میں عربی طرز کا ایک دلکش شہر تھا۔ جگہ جگہ کشادہ سڑکوں میں فوارے اچھل رہے تھے۔ دور سے قصر زہر اور قصر خلافت کے عطلا گنبد غروب ہوتے ہوئے سورج کی سنہری روشنی میں جھلملاتے دکھائی دیتے تھے۔ ایک جانب پہاڑیوں کے دامن میں ایک بلند ٹیلے پر مسجد قرطبہ کی چھت کے ان گنت گنبدوں کو ڈھلتے سورج کی شعاعیں چوم رہی تھیں۔ میں اس مسجد کی بھی زیارت کرنا چاہتا تھا۔ جسے عبدالرحمان نے تعمیر کروایا تھا اور جس کی دھوم اس عہد کے مشرق و مغرب میں تھی۔ قرطبہ شہر کے لوگوں کے چہروں سے خوش حالی اور بے فکری ٹپکتی تھی۔ میں نے ایسے سرداروں کو بھی گھوڑوں پر سوار بازاروں میں گھومتے دیکھا۔ جن کی تلواروں کے دستوں پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 168 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کارواں سرائے میں اترنے کے ساتھ ہی میں نے ایک بزرگ سے خلیفہ وقت کے چچا کے محل کا حدود اربعہ معلوم کرلیا اور رات گہری ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ یہاں میں نے اپنے آپ کو ایک سیاح ظاہر کیا تھا اور کارواں سرائے کے مالک کو اپنا نام عبداللہ ہی بتایا۔ جب رات کے اندھیرے اور خاموشی سے قرطبہ کے کشادہ بازاروں اور پر اسرار اونچی اونچی پختہ گلیوں کو اپنے طلسم میں جکڑلیا تو میں نے اپنے جسم کے گرد لبادے کو لپیٹا اور تاریکی میں کارواں سرائے سے نکل کر سلیمان شاہ کے محل کی طرف چل پڑا۔
میں گھوڑے کو آگے بڑھائے چلا جارہا تھا۔ ایک جگہ مجھے دو پہرے داروں نے گھیر لیا اور پوچھا کہ میں آدھی رات کو کہاں جارہا ہوں۔ میں نے انہیں بڑی شستہ اور خالص عربی میں بتایا کہ میں خلیفہ کے چچا سلیمان شاہ کا غلام خاص ہوں اور اشبیلہ سے اس کی بڑی ہمشیرہ کا ایک خاص پیغام لے کر آرہا ہوں۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور سلیمان شاہ کے محل کے دروازے پر لاکر چھوڑ دیا۔
سلیمان شاہ کا محل سہ منزلہ تھا اور اس کے دروازے پر سونے چاندی کے بڑے بڑے نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ جو دونوں جانب روشن شمع دانوں کی روشنی میں جھلملا رہے تھے۔ چار مسلح حبشی پہرہ دے رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں شاہ صاحب عالی لقب کی ہمشیرہ صاحبہ کا غلام ہوں اور ان کے لئے اشبیلہ سے ایک خاص پیغام لے کر آیا ہوں۔ پہرے داروں نے سلیمان شاہ کو خبر کردی اور مجھے فوراً محل میں بلوالیا گیا۔ خلیفہ کا غدار چچا سلیمان اپنے شب خوابی کے کمرے سے نکل کر مہمان سرا میں آیا اور مجھے فوراً پہچان کر بولا
”میری امانت اپنے ساتھ لائے ہو؟“
میں نے نقلی زہر کے بے ضرر سفوف والی چمڑے کی تھیلی اس کے حوالے کردی۔ اس نے اسے کھول کر غور سے دیکھا۔ پھر اس کے تسمے کس کر باندھے۔ اسے اپنے بالائی پاجامے کی اندرونی جیب میں سنبھال کر رکھا اور بولا
”لیوگی! تم اب آرام کرو۔ کل باتیں ہوں گی۔“ یہ کہہ کر سلیمان شاہ واپس اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔
خلیفہ مسترشد کی زندگی محفوظ تھی۔ غدار چچا سلیمان شاہ اپنے بھتیجے کو اس زہرسے ہلاک نہیں کرسکتا تھا۔ جو میں نے فرانس کے بادشاہ کی طرف سے لاکر اسے دیا تھا۔ اب میں ہسپانیہ کے مسلمان بادشاہ اور اس کے اہلخانہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کسی بھی مہلک زہر کے اثرات سے محفوظ کردینا چاہتا تھا۔ اس کے لئے خاص بوٹی کا حصول ضروری تھا۔ چنانچہ میں صبح صبح سلیمان شاہ کے محل سے سیر کے بہانے قریبی جنگل میں نکل گیا۔ میں ہر جڑی بوٹی کی شکل سے واقف تھا۔ ایک پہر دن تک میں اس خاص بوٹی کو ڈھونڈتا رہا جو قاتل سے قاتل زہر کا تریاق تھی مگر مجھے وہ کہیں نہ ملی۔ میں محل میں واپس آیا تو سلیمان شاہ میرا انتظار کررہا تھا۔
”تم کہاں چلے گئے تھے لیوگی؟ اس نے مجھے دیکھتے ہی سوال کیا۔ میں نے قرطبہ کی حسین وادی اور دریائے دارالکبیر کی سیر کا بہانہ کرکے بات ٹال دی۔ وہ مجھے اپنے کمرہ خاص میں لے گیا اور مخملیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ کو زہر دینے سے پہلے زہر کی آزمائش کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ زہر خالص ہے اور تیر بہدف قسم کا ہے اس کے آزمانے کی حاجت نہیں۔ وہ کہنے لگا
”لیوگی! اندلس کا تاج و تخت حاصل کرنے کا یہ میرا آخری موقع ہے۔ میں نے نہیں چاہتا کہ ہم سے کوئی کوتاہی ہو۔“ میں نے اسے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ اس زہر کا دنیا میں کوئی توڑ نہیں ہے۔ اور وہ ضرور اثر کرے گا۔ اس نے مجھے بتایا کہ بادشاہ کے مطنج میں کھانے کی شاہی دیگ تک پہنچنا آسان کام نہیں ہے۔ اور اگر کوئی پہنچ بھی جائے تو کھانے میں زہر ملانے کا رے وارد ہے۔ وہاں ہر لمحے چارمسلح ترک جوان پہرے پر رہتے ہیں اور سوائے داروغہ مطنج کے دوسرا کوئی شخص دیگ کو ہاتھ نہیں لگاسکتا۔ وہ اٹھ کر قالین پر ٹہلنے لگا۔ پھر بولا
”میں نے تمہارا تعارف یہاں اس حیثیت سے کرایا ہے کہ میرا ایک جانثار خادم، ابو ظریف سوڈان سے آیا ہے۔ کاش میں تمہارا تعارف ایک بہترین باورچی کی حیثیت سے کرواتا۔ یوں میں تمہیں شاہی مطنج میں بھجوا کر شاہی دیگ میں زہر ملا نے کا کام تم سے لے سکتا تھا۔ مگر خیر کوئی بات نہیں کوئی دوسری ترکیب سوچتا ہوں یہ کام مجھے بہرحال کرنا ہے اور بطریق احسن کرنا ہے۔“
میں مطمئن تھا کہ چاہے وہ کسی سے زہر ملا سفوف شاہی کھانے میں ڈلوادے بادشاہ کو کچھ نہیں ہوگا۔ دوپہر کے وقت میں دریائے دارالکبیر کے دوسرے کنارے ویران علاقے میں نکل گیا۔ یہاں خوش قسمتی سے مجھے وہ خاص بوٹی مل گئی جس کی مجھے تلاش تھی۔ یہ لال بیر جتنی بوٹی تھی جس کی گول سطح پر چھوٹے چھوٹے کانٹے ابھرے ہوئے تھے۔ میں اس بوٹی کو توڑ کر محل میں لے آیا۔ میں نے بوٹی کو کچل کر اس میں نمک کی ایک خاص مقدار ملائی اور اسے دوبارہ کوٹ کر سفوف بنالیا۔ پھر اس میں زیتون کے تیل کی آمیزش کرکے اس تریاق کو چمڑے کی ایک بوتل میں ڈال کر محفوظ کرلیا۔ تریاق تیا رہوچکا تھا۔ اس تریاقی تیل کی دو تین بوندیں پانی میں ڈال کر پی لی جائیں او راس کے سات روز کے اندر اندر مہلک سے مہلک زہر بھی اگر پیا جائے تو وہ بے اثر ہوکر جسم سے خارج ہوجاتا تھا۔ میں نے اس تریاق کی بوتل کو اپنی شاہی خواب گاہ میں چھپا کر رکھ لیا۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ کسی طرح سے بادشاہ مسترشد کی بارگاہ تک رسائی حاصل کرکے یہ تریاق اسے سونپ دوں اور کہوں کہ ہفتے میں ایک بار وہ اور اس کے اہلخانہ اس تریاق کے دو قطرے پانی میں حل کرکے پی لیا کریں تاکہ ہمیشہ کے لئے دشمن کی زہریلی سازش سے محفوظ ہوجائیں۔ یہ تیل خلیفہ اور اس کے شاہی اہلخانہ کے لئے کم از کم ایک برس کے لئے کافی تھا۔ میر اارادہ یہ بھی تھا کہ میں خلیفہ کو اس کے چچا کی سنگین سازش سے بھی آگاہ کردوں اور اگر ضروری ہو تو اس پر اپنی اصلیت بھی ظاہر کردوں۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 170 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں