اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 168

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 168

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے دل میں کہا۔ کاش جان نثاری اور عقیدت مندی کا یہ جذبہ سلیمان کے دل میں بھی موجزن ہوتا۔ شارلیان نے بھنے ہوئے ہرن کی ٹانگ پر سے گوشت کا ٹکڑا کاٹتے ہوئے کہا
”سلطان کو کھانے میں بھی زہر دیا جاسکتا ہے۔ یہ زہر ہم فراہم کریں گے جو بے ذائقہ ہوگا۔“
سلیمان کرسی پر بیٹھ گیا ”سلطان کو جو چیز بھی کھانے کو دی جاتی ہے اسے اس کے جانثار پہلے خود چکھ کر اطمینان کرتے ہیں کہ کہیں اس میں زہر کی آمیزش تو نہیں ہے۔“
شارلیان مسکرایا

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 167 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”ہم تنہیں ایسا زہر مہیا کریں گے جس کا اثر فوری نہیں ہوتا۔ اس زہر کا اثر دو روز بعد ظاہر ہوگا۔ بادشاہ کے پیٹ میں زہر کی معمولی سی مقدار کھانے کے دو روز بعد، درد اٹھے گا اور وہ مر جائے گا۔ اسے دنیا کا لائق ترین طبیب بھی موت کے منہ سے نہ بچا سکے گا۔ تم سلطان کے کھانے میں اس زہر کو کسی طرح ملادو گے۔ سلطان کے جانثار پہلے کھانے کو چکھیں گے۔ ان پر فوری طور پر کچھ اثر نہیں ہوگا۔ سلطان اطمینان سے کھانا تناول کرے گا اور پھر دو دن کے بعد اس کی لاش محل میں پڑی ہوگی۔“
غدار سلیمان کا چہرہ ہوس اقتدار سے چمک اٹھا۔ بولا
”ہاں یہ تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھے گا۔ بادشاہ کے مرتے ہی میرے آدمی بغاوت کردیں گے۔ محل کو آگ لگادی جائے گی۔ شاہی خاندان کے تمام افرا دکو یرغمال بنالیا جائے گا۔ سپہ سالاروں کو میں پہلے ہی اپنے ساتھ ملا چکا ہوں۔ تم مجھے یہ زہر کب تک فراہم کرسکتے ہو؟“
شارلیان نے قدرے توقف سے کہا
”اس کے لئے مجھے خود شاہ فرانس کے دربار میں حاضر ہونا پڑے گا۔ میں یہ خاص الخاص زہر خود جاکر لاﺅں گا اور پھر۔۔۔“
شارلیان نے میری طرف دیکھ کر کہا ”اور پھر میرا یہ جانثار دوست لیوگی تمہیں یہ زہر قرطبہ پہنچ کر تمہارے حوالے کردے گا۔ اس میں ایک مہینہ لگ جائے گا۔“
غدار سلیمان نے شارلیان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گرمجوشی سے دبایا اور کہا ”میں لیوگی کا انتظار کروں گا۔“
اگلے روز سلطان اندلس کا غدار چچا سلیمان واپس قرطبہ کی طرف چل دیا۔ اس روز دوپہر کے بعد شارلیان فرانس کے بادشاہ سے ملنے فرانس کے دارالحکومت کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں اپنی زبردستی کی بیوی لوسی اور دوسرے عیسائی تخریب کاروں کے ساتھ وہیں کمین گاہ میں رہا۔ معلوم ہوا کہ شارلیان کی عدم موجودگی میں مَیں ہی ان لوگوں کی سربراہی کے فرائض ادا کیا کرتا تھا۔´ لوسی کو دن بھر کھانے پینے او رجنگل میں گھومنے پھرنے کے سوا او رکوئی کام نہیں تھا۔ بھاری مالیت کا سونا چاندی اور جواہرات کمیں گاہ کے خفیہ خانے میں موجود تھے۔ یہ زرو جواہرات غدار مسلمانوں کو رشوت دینے کے لئے تھے۔ میں نے اندلسی حکمران کو سازشی موت کے منہ سے بچانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس ضمن میں اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بھی تیار کرلیا تھا۔ اس سلسلے میں مجھے ایک خاص بوٹی کی تلاش تھی۔ میں نے فرانسیسی سرحد کے جنگل میں گھوم پھر کر اس بوٹی کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یورپ کے سرد علاقے میں یہ بوٹی ناپید تھی۔ اندلس کی گرم خشک فضا میں اس کا حصول قرین قیاس تھا۔
میں شارلیان کی واپسی کا بے تابی سے انتظار کررہا تھا۔ تین ہفتوں کے بعد ایک شام وہ آگیا۔ وہ اپنے ساتھ مہلک زہر لے آیا تھا۔ اس نے غار میں آکر مجھے خفیہ طور پر یہ زہر دکھایا۔ زہر سفید رنگ کا سفوف تھا جو چمڑے کے چھوٹے سے بٹوے میں بند تھا۔
”لیوگی! تم میرے جانثار دوست ہو۔ تمہارے سوا میں یہاں کسی پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ تم کل ہی یہ زہریلا سفوف لے کر قرطبہ کی طرف کوچ کرجاﺅ او ریہ امانت سلیمان شاہ کو جاکر دے دو۔ اس کے بعد تم وہیں اس کے پاس رہنا۔ وہ تمہیں زر خرید غلام ظاہر کرے گا وہاں جب تک سلیمان بادشاہ کو زہر نہیں کھلادیتا اور بادشاہ کی موت واقع نہیں ہوتی تم قرطبہ ہی میں رہنا۔ یہ میری طرف سے تمہیں تاکید ہے۔ قرطبہ کے جنوب میں عیسائیوں کی ایک درگاہ ہے۔ وہاں کا متولی لیوپارڈی ہمارا ساتھی ہے۔ تمہیں اگر کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو اس کے پاس چلے جانا اور یہ انگوٹھی اسے دکھادینا۔ وہ تمہاری ہر طرح کی مدد کرے گا۔“
شارلیان نے اپنی انگلی میں سے زمرد کی ایک انگوٹھی اتار کر میری انگلی میں پہنا دی۔ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا
”تم پیچھے کی فکر نہ کرنا۔ تمہاری بیوی کا ہم ہر طرح سے خیال رکھیں گے اور اگر تم دیکھو کہ سلیمان کی نیت بدل گئی ہے تو اسے وہیں ہلاک کرکے اس زہر کو ضائع کرکے واپس آجانا۔“
میں نے اندلس کے مسلمان سیلانیوں جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ شارلیان نے مجھے تاکید کی کہ میں رات کے اندھیرے میں قرطبہ میں داخل ہوکر سیدھا سلیمان شاہ کے محل کی طرف جاﺅں۔ اس نے خلیفہ کے چچا غدار سلیمان شاہ کے محل کا حدود اربعہ نہیں بتایا تھا۔اس لئے کہ وہ تو یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ میں اس سے کئی بار مل چکا ہوں۔ میں نے بھی اس سے پتہ دریافت نہ کیا او رگھوڑے پر بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ میرے لئے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا کہ میں اس زہر کو ضائع کرکے اپنی راہ لیتا۔ یا قرطبہ پہنچ کر خلیفہ مسترشد کو شارلیان اور اس کے چچا کے ناپاک عزائم سے آگاہ کردیتا لیکن ایک بار زہر کو ضائع کردینے یا خلیفہ کو سازشیوں کے عزائم سے آگاہ کردینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی دوسرا آدمی خلیفہ کو زہر دے سکتا تھا یا کسی دوسرے طریقے سے اسے ہلاک کیا جاسکتا تھا۔ میں جس منصوبے کو لے کر قرطبہ کی طرف سرگرم سفر تھا اس کا مقصد محض اتنا تھا کہ مسلمانوں کے اموی خلیفہ مسترشد کو نہ صرف یہ کہ اس کے چچا کی مذموم سازش سے آگاہ کیا جائے بلکہ اسے ایک ایسا مشروب پلا کر ہر روز نہار منہ پینے کی ہدایت کی جائے جو مہلک سے مہلک زہر کو بے اثر کردے۔ یہ مشروب ایک خاص بوٹی کی مدد سے تیار کیا جاتا تھا۔ جو فرانس کے سرحدی جنگل میں نہیں تھی اور جس کو میں قرطبہ کے قرب و جوار میں تلاش کرنے کا خواہش مند تھا۔ میں اس زہر کو بھی بے اثر بنانا چاہتا تھا۔ جسے میں اپنے ساتھ چمڑے کی تھیلی میں بند کرکے لے جارہا تھا۔
کارواں در کارواں قرطبہ کی طرف سفر کرتے ہوئے جب میں طلیطلہ کے خوبصورت شہر میں پہنچا تو میں نے اپنے منصوبے کے مطابق پہلا کام یہ کیا کہ شہر کے ایک پرانے طبیب کی دکان پر جاکر زہر کے سفید سفوف سے ملتا جلتا ایک بے ضرر سفید سفوف لے کر زہریلے سفوف کو چمڑے کی تھیلی سے نکال کر پھینک دیا اور اس کی جگہ بے ضرر سفوف ڈال کر رکھ لیا۔ اس طرح سے میں نے کم از کم وقتی طور پر اندلس کے مسلمان حکمران خلیفہ مسترشد کو ہلاکت کی سازش سے بچالیا تھا۔ مجھے شارلیان کے آگے جواب دہی کی فکر اس لئے نہیں تھی کہ میرا اس کے پاس واپس جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ یہاں میں نے ایک حمام میں غسل کیا اور آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ میری شکل عاطون کی شکل ہی تھی۔ میرا اندازہ صحیح نکلا تھا۔ یعنی میری شکل میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ فرق اتنا تھا کہ شارلیان کے جانثار مرحوم غلام لیوگی سے میری شکل حیرت انگیز حد تک مشابہہ تھی۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 169 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں