اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 167
رات بھر وادی میں طوفان بادوباراں برپا رہا۔
اگرچہ اسلام دشمن فرانسیسی تخریب کاروں کے پہاڑی غار کا منہ بند کردیا گیا تھا۔ پھر بھی سرد برفیلی ہوائیں اندر فراٹے بھرتی رہیں اور میری کوٹھڑی میں ٹمٹماتا دیا کئی بار بجھ گیا۔ میری زبردستی کی بیوی لوسی، کمبل میں دبکی خراٹے لے رہی تھی۔میں جاگ رہا تھا۔ نہ مجھے سردی لگ رہی تھی اور نہ نیند کی حالت طاری تھی۔ تخریب کاروں کے سالار شارلیان کی زبانی مجھے جس قسم کے حالات سے آگاہی ہوئی وہ کچھ یوں تھے۔ اندلس کی مسلم مملکت کی شمالی اور مغربی سرحدوں پر فتنے نمودار ہورہے تھے۔ ملک میں طبقاتی تقسیم اور دولت کے غلط بٹوارے اور شاہی خاندان کی غلط پالیسی نے ملکی حالات کو ابتر کردیا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کے آہنی پنجے نے معاشرے کو جکڑ لیا تھا۔ کاشت کاروں اورکسانوں کوجاگیردار اپنا غلام سمجھنے لگے تھے۔ تن آسانی اور تعیش پسندی عام تھی۔ یورپ کے عیسائی حکمران ان حالات کا پوری طرح فائدہ اٹھارہے تھے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 166 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عیسائی حکمرانوں کو یہ خطرہ بھی تھا کہ مسلمان فرنس پر حملہ آور ہوسکتے ہیں اور یوں یورپ کے دوسرے علاقوں کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اندلس اور فرانس کی سرحدی پہاڑیوں میں عیسائی سالار شارلیان کی زیر قیادت ایک زبردست تخریب کار اڈہ قائم کررکھا تھا، جہاں سے یہ لوگ اندلس کے غدار مسلمانوں کو دولت اور اقتدار کا لالچ دے کر اندلسی حکومت کے خلاف بغاوت اور فتنہ و فساد کا بازارگرم کرنے کی فکرم یں تھے۔ ان سب کارروائیوں کا مقصد اندلس میںمسلمانوں کی حکومت کو ہمیشہ کےلئے ختم کرنا تھا۔ تاکہ ان کی زدسے یورپ محفوظ ہوجائے۔ فرانس کے بادشاہ لوئی نے ہسپانیہ کے حکمران خلیفہ مسترشد کے ایک چچا سلیمان کو یہ لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا کہ اگر خلیفہ کو شکست دے دی گئی تو وہ سلیمان کو ہسپانیہ کا بادشاہ بنادے گا۔ پہاڑی غار کے اڈے میں بیٹھا شارلیان شاہ فرانس کا خاصہ آلہ کار تھا اور یہ ساری بات چیت اور غداری کی سازش اسی کی وساطت سے ہورہی تھی۔ سوڈانی غلام لیوگی یعنی میں شارلیان کا دست راست تھا۔ میری وفاداریاور بہادری کی ان فرانسیسی تخریب کاروں میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور اس بار بھی تیر کھا کر دریامیں چھلانگ لگانے کے بعد بچ کر اپنے اڈے پر پہنچ جانے سے میری دھاک میں اضافہ ہوا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اصلی سوڈانی غلام لیوگی(جس کا میں یہاں ہم شکل تھا) تیر کھانے کے بعد دریا میں گرنے سے مر چکا ہوگا۔ ورنہ وہ اب تک یہاں پہنچ چکاہوتا کیونکہ اس واقعے کو دو باہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ سالار شارلیان کی زبانی مجھے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ اس تک خلیفہ اندلس کے چچا سلیمان کا بھیجا ہوا پیغام اس عیسائی کے ہاتھوں پہنچ گیا تھا۔ جو جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ خلیفہ کے غدار چچا سلیمان کا پیغام یہ تھا کہ وہ شارلیان سے بہ نفس نفیس ملاقات کرنے پیری نیسن کی خفیہ کمین گاہ میں پہنچ رہا ہے اور وہ قرطبہ سے ایک تاجر کے بھیس میں روانہ بھی ہوچکا تھا۔ جس وقت میں لیوگی کی شکل میں ان عیسائی فرانسیسیوں سے ملا تو غدار سلیمان کے آنے میں ایک ہفتے کی مدت باقی تھی۔ شارلیان نے اپنے خاص آدمی اندلس کی سرحد پر بھجوا دئیے تھے تاکہ غدار سلیمان کا خیر مقدم کیا جاسکے۔
تاریخ کا یہ ایک تاریک باب ہے کہ خاص طور پر مسلمانوں کی حکومتوں کے چراغ اغیا کی بجائے خود مسلمانوں ہی کی پھونکوں سے بجھے۔ میں نے بنو امریہ کے عہد میں دیکھا۔ عباسیوں کی سلطنتوں کے ٹکڑے ہوتے دیکھے۔ ہر دور میں مسلمانوں کی تاریخ کے اسی بے رحمانہ اصول کو سرگرم عمل پایا۔ اگر مسلمانوں کے پندار کو کسی نے زمین بوس کیا تو وہ کوئی مسلمان غدار ہی تھا جس کا خفیہ ہاتھ چنگیز وہلا کو کے ہاتھوں تقویت دے رہا تھا۔ اب یہی کھیل ہسپانیہ کی مسلم مملکت میں بھی کھیلا جارہا تھا۔ شاہی محلات خونی سازشوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ علماءاور فقہاءکے گروہ نظریاتی بحث اور عقائد کے اختلافات میں الجھے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں تھے۔ بادشاہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے پوری جدوجہد کی جاتی تھی۔ علاقائی خود مختاری کا بیج بویا جاچکا تھا۔ یورپ کی عیسائی حکومتیں ان حالات سے نہ صرف پوری طرح باخبر تھیںبلکہ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے جتن کررہی تھیں۔ ایک نومسلم ہونے کے ناطے ایسی اندوہناک صورتحال سے میں ناخوش تھا اور دل سے چاہتا تھا کہ اندلس میں مسلمانوں کی یکجہتی اور استحکام کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے مگر میں تاریخ کے دھارے کا رخ نہیں موڑسکتا تھا۔ دشمن سامنے آجائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن بغل میں چھپی ہوئی چھری کسی کو نہیں دکھائی دیتی اور اس کا وار بڑا کاری ہوتا ہے۔
ہسپانیہ کا سلطان خلیفہ مسترشد ریاستوں کی بغاوتیںفرد کرنے میں لگا ہوا تھا اور اسکا ضمیر فروش اقتدار کا بھوکا، اسلام دشمن چچا، سلیمان اس کی حکومت کا تختہ الٹ کر خو دبادشاہ بننے کی سازش میں مصروف تھا اور ہوس اقتدار کے اس ناپاک کھیل میں عیسائیوںکا آلہ کار بن چکا تھا۔ جس رات وادی میں طوفان بادوباراں آیا اس کے دو روز بعد خلیفہ اندلس کا غدار چچا سلیمان، عیسائی سوداگر کے بھیس میں ہماری کمین گاہ میں پہنچ گیا۔ شارلیمان کا محافظ دستہ اسے بڑے احترام و عزت کے ساتھ اپنے ساتھ لایا۔ میں بھی اس وقت کمین گاہ میں موجود تھا اور شارلیان کا خاص الخاص غلام اور جانثار ہونے کی وجہ سے اس کے پہلو میں کھڑا تھا۔ میں نے تیز عقابی آنکھوں اور تیکھی سازشی ناک والے غدار سلیمان کو آگے بڑھ کر شارلیان سے بغل گیر ہوتے دیکھا تو مجھے ہسپانیہ کی عظیم الشان مسلم سلطنت کے انجام پر رونا آگیا۔ شارلیان نے غدار سلیمان کے اعزاز میں غار کے اندر ایک زبردست محفل رقص و سرور برپا کی اور اسے تحفے تحائف سے لاد دیا جو فرانس کے حکمران عیسائی بادشاہ لوئی نے خاص طور پر بھجوائے تھے۔
جب رات ڈھل گئی تو شارلیان اور غدار سلیمان کی خفیہ مجلس کا آغاز ہوا۔ شارلیان نے مجھے اپنے پاس ہی رکھا۔ ہمارے سوا وہاں کوئی چوتھا آدمی نہیں تھا۔ شارلیان نے سلیمان سے کہا کہ جنبی صوبوں میں بغاوتوں کا سلسلہ مانند نہیں پڑنا چاہیے۔ ”شاہ فرانس نے آپ کے لئے سونے او رجواہرات کا بہت بڑا خزانہ روانہ کردیا ہے۔“ غدار سلیمان کی ترچھی آنکھیں مزید ترچھی ہوگئیں، بھنچے ہوئے باریک ہوٹنوں پر عیارانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی او ربولا
”شارلیمان! صوبوں میں بغاوتیں ہوتی ہیں اور سلطان کی فوجیں انہیں فرد کردیتی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے مگر یہ سلسلہ جاری نہیں رہنا چاہیے۔ میں زیادہ دیر تک اندلس کے تخت و تاج سے دور نہیں رہ سکتا۔ اس وقت میرے ساتھی اپنی جانیں قربان کرنے پر تیار ہیں۔“
شارلیان نے غدار سلیمان کے پیالے میں مشروب انڈیلتے ہوئے استفسار کیا کہ اس سلسلے میں پھر اس کا مشورہ کیا ہے....؟ سلیمان ایک لمحے کے لئے خاموش ہوگیا۔ پھرمشروب کا پیالہ ہونٹوں سے لگا کر آنکھیں سکیڑ لیں اور بولا
”سلطان کا قتل اب لازم ہوگیا ہے۔“
شارلیمان نے قدرے تعجب سے سلیمان کی جانب دیکھا۔ عذرا سلیمان نے پیالہ لکڑی کی میز پر رکھ دیا اور اٹھ کر اپنی لمبی فرغل کاپلو کاندھے پر ڈالتے ہوئے ٹہلنے لگا۔ پھر رکا اور شارلیمان کی طرف دیکھا
”مگر سلطان کو قتل کرنا اتنا آسان کامنہیں ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنے فدائین کے حصار میں رہتا ہے۔ رات کو یہی فدائین اس کی خواب گاہ میں پہرہ دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس کے جانثار اور عقیدت مند ہیں۔ انہیں دنیا کا کوئی لالچ اپنے فرض سے غافل نہیں کرسکتا۔ میں نے آزما کر دیکھ لیا ہے۔“(جاری ہے)