اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 166
ہمیں اس سفر میں چار ماہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔فرانس کی سرحد پر اندلس کا آخری شہر گیروند اب زیادہ دور نہیں رہ گیا۔ ایک ہفتہ ہم نے اندلس کے سرحدی شہر گیروند کی کارواں سرائے میں آرام کرتے ہوئے بر کیا۔
گیروند کی کارواں سرائے سے کوئی قافلہ فرانس کی سرحد تک نہیں جاتا تھا۔ ان دنوں فرانس میں اندلس کی مسلمان حکومت کے خلاف ریشہ دوانیاں اور سازشیں اپنے عروج پر تھیں۔ اندلس میں یہ افواہ بھی عام تھی کہ فرانس کے عیسائیوں نے سرحدی پہاڑیوں میں ایک جگہ اندلسی خلیفہ کی حکومت کےخلاف خفیہ مستقر قائم کررکھا ہے۔ جہاں دن رات تخریبی کارروائیوں پر غور و فکر ہوتا ہے اور اندلس میں خلیفہ کی حکومت سے برگشتہ جاگیردار مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی سازشیں تیا رہوتی ہیں۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 165 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرامقصد صرف عذرا اور اس کے خاوند عبداللہ بن علی کو فرانس کی سرحد میں کسی محفوظ مقام پر پہنچانا تھا۔ اس کے بعد نہ تو مجھے عذرا اور اس کے خاوند سے اور نہ ہی اندلس کے اندرونی خلفشار سے کوئی راسطہ تھا۔ میں قرطبہ کی سیر و سیاحت کے بعد کسی دوسرے ملک کی طرف نکل جانا چاہتا تھا لیکن حالات اور واقعات کس طرح مجھے اپنی گرفت میں جکڑنے کی ریشہ دوانیاں کررہے تھے۔ اس کا مجھے علم ہی نہیں تھا۔ گیروند کی کارواں سرائے میں ایک ہفتے کے قیام کے بعد ہم نے زاد راہ ساتھ لیا اور تازہ دم ہو کر گھوڑوں پر سوار فرانس کی سرحدی پہاڑیوں کی طرف چل پڑے۔
ہم نے پیری نیس کی پہاڑیوں میں ایک مقام پر اندلس کے ملک کو چھوڑ کر فرانس کی سرحد پار کرلی۔ سرحد پار کرنے کا ثبوت ہمیں اس وقت ملا جب ہم ایک فرانسیسی گاﺅں میں داخل ہوئے۔ یہ عیسائی قصابوں کا گاﺅں تھا۔ ہم نے عیسائی راہبوں کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا اوربتایا کہ اندلس میں ہم پر ظلم و ستم ہوتا تھا اس لئے وہاں سے فرار ہوکر فرانس میں پناہ لینے آئے ہیں۔ گاﺅں والوں نے ہمیں راہبوں کے لباس میں دیکھ کر ہمارے بیان پر اعتبار کیا اور ہماری خوب آﺅ بھگت کی۔ ایک ہفتہ ہم نے گاﺅں میں آرام کیا۔ اس کے بعد عذرا اور عبداللہ بن علی ایک قافلے میں شامل ہوکر فرانس کے بڑے شہر تلوز کی طرف روانہ ہوگئے اور انہیں ہنسی خوشی رخصت کرنے کے بعد واپس اندلس کی سرحد کی جانب چل پڑا۔ میں آدھی رات کو راستے میں ان سے جدا ہوا تاکہ گاﺅں والوں کو مجھ پر شک نہ پڑسکے۔
اس رات کے پچھلے پہر طوفان بادوباراں نے آلیا اور میں وادی کے پہاڑی جنگل میں راستہ بھول کر مغرب کی طرف ایک پرشو ردریا کی طرف جانکلا۔ جو چٹانوں کے درمیان جھاگ اڑاتا تیزی سے بہہ رہا تھا دن کی روشنی ہوئی تو میں نے گھوڑے کو ایک طرف کھڑا کیا اور خود ایک چٹان پر چڑھ کر جائزہ لینے لگا۔ میری دونوں جانب پہاڑی ٹیکریوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ آخر میں چٹان سے اتر آیا۔ گھوڑے پر سوار ہوا اور اندازے سے جنوب کی طرف چل پڑا۔ اندلس کی سرحد جنوب کی جانب ہی تھی۔ رات کے طوفان بادوباراں کی وجہ سے کئی درخت ٹوٹ کر جگہ جگہ گرے پڑے تھے۔ ایک ویران راستہ جنگل کے درختوں میں سے ہوکر جنوب کی طرف جارہا تھا۔ میں اسی راستے پر گھوڑے کو قدم قدم چلاتا رواں تھا کہ اچانک درختوں میں سے کچھ گھڑ سوار تلواریں لٹکائے ہاتھوں میں نیزے تھامے نکل آئے، ان کے لباس عیسائی سپاہیوں جیسے تھے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ انہوں نے مجھ پر حملہ کرنے کی بجائے مجھے گھیرلیا اور حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر ان میں سے ایک سپاہی جوان کا سالار لگتا تھا۔ میرے قریب گھوڑا لاکر بولا
”لیوگو! کیا تم زندہ ہو؟ ہم تو تمہیں مردہ سمجھے ہوئے تھے۔ جلدی سے ہمارے ساتھ چلو۔ شارلیان تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔ مگر تم اندلسی مسلمانوں کے نرغے سے زندہ کیسے نکل آئے۔؟“
میں ایک لمحے کے اندر اندر سمجھ گیا کہ میں کسی دوسرے کا ہم شکل ہوکر یہاں نمودار ہوا ہوں۔ کوئی لیوگو نام کا عیسائی ہے جو یقینا مرچکا ہے اور میں اس کی شکل میں یہاں ظاہر ہوگیا ہوں۔ اس قسم کے تجربے سے میں پہلے بھی گزرچکا تھا مگر شخصیت کے بدلنے کے ساتھ ہی میرے شعور میں اس آدمی کی یادیں اور حافظہ بھی محفوظ ہوجاتا تھا جس کے روپ میں مَیں ظاہر ہوتا تھا لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا تھا۔ مجھے ا بھی تک معلوم نہیں تھا کہ لیوگو کون ہے؟ وہ کس مشن پر اندلس گیا تھا اور شارلیان کون ہے جس نے لیوگو کو یعنی مجھے اس مشن پر بھیجا تھا۔ ایک خیال میرے دل میں ضرور آیا کہ یہ فرانسیسی عیسائی تخریب کار ہیں جو اندلس اور فرانس کی سرحد پر اندلسی حکومت کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور جن کے بارے میں اندلس ہی میں سن چکا تھا۔ میں نے بھی اب کسی قسم کے تعجب کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا اور خود کو لیوگی ہی ظاہر کرتے ہوئے ان عیسائیوں کے ہمراہ چل پڑا۔ وہ راستے میں مجھ سے یہی پوچھتے رہے کہ میں کیسے بچ کر آگیا ہوں۔
”تمہارے ساتھ جو آدمی گیا تھا اس نے شارلیاں کو آکر بتایا تھا کہ اس نے تمہیں خود مسلمان سپاہی کا تیر کھا کر چٹان سے دریا میں گرتے دیکھا ہے۔“
میں نے ان ہی کی زبان میں کہا کہ تیر مجھے نہیں لگا تھا اور میں نے خود دریا میں چھلانگ لگادی اور پھر دریا میں تیرتا ہوا دور نکل گیا اور بڑی مشکل سے سرحد پار کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ باتوں ہی باتوں میں مَیں بڑی ہوشیاری کے ساتھ میں نے ان سے اتنا ضرور معلوم کرلیا کہ لیوگو ایک سوڈانی غلام تھا جو ان پہاڑیوں میں فرانسیسی تخریب کاروں کے سالار شارلیاں کا دست راست تھا اور خلیفہ اندلس کے ایک عذرا چچا سلیمان کے نام اس کا ایک خاص پیغام لے کر قرطبہ گیا تھا کہ واپسی پر اندلسی سپاہیوں سے مڈ بھیڑ ہوگئی۔ لیوگو کے ساتھ تین فرانسی بھی تھے۔ جنہوں نے بھیس بدل رکھا تھا۔ ان میں سے دو مارے گئے۔ ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے لیو گو کو تیر کھا کر دریامیں گرتے دیکھا تھا۔ میں اب اپنے آپ کو شارلیاں کا وفادار سوڈانی غلام لیوگو ہی ظاہر کررہا تھا۔ یہ سپاہی مجھے جنگل کے ایک خفیہ اڈے پر لے گئے جو ایک پہاڑ غار کے اندر تھا۔ یہاں میں نے پہلی بار فرانسیسی تخریب کاروں کے سالار شارلیاں کو دیکھا۔ وہ سرخ و سپید تنو مند جوان تھا جس نے چمڑے کی لمبی تخریب کاروں کے سالار شارلیاں کو دیکھا۔ وہ سرخ و سپید تنو مند جوان تھا جس نے چمڑے کی لمبی جیکٹ پر تلوار لگا رکھی تھی۔ سر پر ایک ترچھی ٹوپی تھی جس میں باز کا پر لگا تھا۔ اس کے اردگرد چھ سات فرانسیسی فدائی تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنی بانہیں پھیلا دیں اور مجھے گلے لگالیا۔
”لیوگو.... لیوگو! خدا کا شکر ہے کہ تم زندہ بچ گئے میرا دل کہتا تھا کہ تم زندہ ہو۔ ان کمبختوں نے مجھے تمہاری موت کی خبر سنا کر میرا دل توڑ دیا تھا۔ ہم ایسے وفادار عیسائی دوستوں سے ہم ہاتھ نہیں دھوسکتے۔“
اس نے میرے آگے پھل اور دودھ رکھا میں نے اسے بھی وہی کہانی سناڈالی جو اس سے پہلے فرانسیسی سپاہیوں کو سنا چکا تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان عورت غار کی کوٹھری میں سے ہاتھ پھیلائے میرا نام بار بار پکارتی میری طرف بڑھی۔ شارلیاں نے مسکرا کر کہا
”تمہاری بیوی لوسی بھی تمہاری موت کا سن کر نڈھال ہوگئی، میں چونک پڑا۔ میری بیوی لوسی کے، مارے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے اور وہ بار بار کہہ رہی تھی
”میرے پیارے لیوگو.... تم زندہ ہو، تم زندہ ہو۔“
اور میں سوچنے لگا کہ یہ میں کس جھنجٹ میں پھنس گیا ہوں۔(جاری ہے)