اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 171
بادشاہ نے ایک بھرپور نگاہ مجھ پر ڈالی۔
شاہی طبیب نے میری طرف گھو رکر دیکھا اور بولا
”تم سلطان ذی وقار کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہو۔ اپنے آپ کو حد ادب میں رکھو۔“
میں نے کہا ”میں سلطان معظم کا مجرم نہیں بلکہ خیرخواہ ہوں۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو میں آپ کی وساطت سے سلطان کی جان بچانے کے لئے تریاقی روغن نہ بھیجتا۔“
شاہی طبیب بولا ”اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر تم ان سازشیوں کے ساتھی ہو جنہوں نے سلطان معظم کی جان لینے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ تمہیں اس لئے یہاں بلایا گیا ہے کہ ہمیں ان کے نام بتاﺅ۔“
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 170 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے کہا کہ سب سے پہلے میرے ہاتھ کھول دئیے جائیں کیونکہ میں کسی قسم کے گھناﺅنے جرم میں ملوث نہیں ہوں۔ بادشاہ کے اشارے پر شاہی طبیب نے خود اٹھ کر میرے ہاتھ کھول دئیے۔ اس کے بعد میں نے ساری کہانی سناڈالی۔ طبیب شاہی اور خلیفہ مسترشد نےمیری زبان سے اپنے چچا سلیمان شاہ کے بارے میں سنگین انکشاف سنا تو سکتے میں آگئے۔ خلیفہ مسترشد نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کے چچا پر بہتان تراشی ہے۔ وہ غداری کا مرتکب کبھی نہیں ہوسکتا۔ شاہی طبیب کو بھی یقین نہٰں آرہا تھا کہ بادشاہ کو اس کے چچا سلیمان شاہ نے زہر دیا تھا۔ میں نے بڑے ادب سے کہا
”سلطان ذی شان! یہ زہر فرانس اور اندلس کی سرحدی کمین گاہ سے میں خود لے کر چلا تھا اور میں نے دل میں چلتے وقت ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ میں آپ کی جان بچالوں گا۔ چنانچہ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں۔ میں نے اصلی زہر کی جگہ ایک بے ضرر نقلی سفوف تھیلی میں ڈال کر آپ کے چچا سلیمان شاہ کے حوالے کردیا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے تریاق بھی تیار کرلیا تھا او راسے آپ کی خدمت میں پہنچانے کا متمنی تھا تاکہ آئندہ اگر کوئی عذرا آپ کو زہر دینے کی ناپاک جسارت کرے تو آپ پر اس کے اثر نہ ہو لیکن بدقسمتی سے سلیمان شاہ نے آپ کی نصیب دشمناں موت کو فوری بنانے کے لئے میرے بے ضرر سفوف میں ایک مہلک زہر کی آمیزش کردی۔ جب مجھے اس سانحے کی خبر ملی تو میں بھاگتا ہوا آپ کے محل میں آیا اور تریاق تیل طبیب شاہی کے حوالے کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس تیل کے چند قطرے پانی میں ملا کر فوراً آپ کو پلادئیے جائیں کیونکہ جڑی بوٹیوں کا ماہر ہونے کی وجہ سے میں جانتا تھا کہ میرا بنایا ہوا تیل آپ کے معدے میں پہنچتے ہی زہر کے مہلک اثرات کو فوراً ختم کردے گا اور خدا کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہوا۔“
خلیفہ اندلس پر میری گفتگو کا خاطر خواہ اثر ہورہا ت ھا۔ طبیب شاہی بھی متاثر ہوچکا تھا۔ بادشاہ نے سوال کیا
”مگر تم اندلس سے فرانس کی سرحد پر کس لئے گئے تھے اور پھر تم ہمارے دشمن فرانسیسیوں کے ساتھ کس لئے مل گئے؟“
میں نے عرض کی ”سلطان معظم! جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، میں عیسائی غلا م نہیں ہوں بلکہ مسلمان ہوں اور میرا نام عبداللہ ہے اور میں ایک سیاح ہوں اور جڑی بوٹیوں کا دھندا بھی کرتاہوں۔ فرانس کی سرحدی کمین گاہ کے جنگل میں جڑی بوٹیوں کی تلا ش میں ہی گیا تھا کہ ان لوگوں نے مجھے پکڑلیا کیونکہ میری شکل شارلیان کے خاص محافظ اور جانثار غلام لیوگی سے بہت زیادہ ملتی جلتی تھی جو سلیمان شاہ کو ایک خفیہ پیغام پہنچا کر واپس آتے ہوئے مارا گیا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ شارلیان مسلمانوں کا دشمن ہے اور آپ کے چچا سے مل کر آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے اور مجھے اس نے اپنا محافظ سمجھ لیا ہے تو میں اسی وقت ان کے ساتھ مل گیا تاکہ اندلس پہنچ کر آپ کو آپ کے دشمنوں سے خبردار کرسکوں۔ اس سلسلے میں پہلا اہم کام میں نے یہ کیا کہ آپ کو دیا جانے والا زہر بے اثر کردیا۔“خلیفہ مسترشد کے چہرے پر ابھی تک گہری سنجیدگی تھی۔ طبیب شاہی بھی خاموش تھا۔ خلیفہ ایک دو ثانے کے سکوت کے بعد بولا
”ہم اپنے چچا کی غداری کا کوئی ٹھوس ثبوت چاہتے ہیں کیا تم ہمیں کوئی ایسا ثبوت مہیا کرسکتے ہو؟“
میں نے کہا ”سلطان معظم! مجھے موقع دیا جائے۔ اس ضامن میں مکمل رازداری سے کام لینا نہایت ضروری ہے۔ میری گرفتار اور حضور کے روبروپیشی کو محل کے باہر اور محل کے اند رمکمل رازداری میں رکھا جائے۔ شاہی محافظ دستے کے جوانوں کو ہدایت کردی ج ائے کہ وہ میری گرفتاری کا ہرگز کسی سے ذکر نہ کریں۔ میں عیسائی غلام لیوگی کی حیثیت سے ہی آپ کے چچا کے پاس واپس چلا جاﺅں گا ظاہر ہے وہ اس بار ناکام ہونے کی وجہ سے کو ئی دوسر امنصوبہ تیار کرے گا۔ میں نہ صرف آپ کو اس منصوبے سے آگاہ کروں گا بلکہ آپ اپنے چچا کو رنگے ہاتھوں پکڑ بھی سکیں گے۔“
خلیفہ اندلس کو میری یہ تجویز پسند آگئی۔ اس نے فوراًطبیب شاہی کو حکم دیا کہ جو محافظ مجھے پکڑ کر قصر خلافت میں لائے تھے انہیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر حکم ثانی تک قید تنہائی میں ڈال دیا جائے۔ طبیب شاہی فوراً اپنے دیوان سے اٹھا اور کورنش بجا لاکر تیزی سے دوسری طرف نکل گیا۔ خلیفہ مسترشد نے مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کے قریب گیا تو ارشاد ہوا۔
”عبداللہ! ہم تمہاری اسلام دوستی اور سلطان اندلس کی جانب بچانے کے اقدام سے بہت خوش ہیں۔ ہم ہر طرح سے مکمل رازداری سے کام لیں گے۔ تمہیں محل کے خفیہ راستے سے سلیمان شاہ کے محل کے پائیں باغ میں پہنچادیا جائے گا۔“
پھر خلیفہ نے اپنی انگلی سے ایک خاص انگوٹھی اتار کر مجھے دی جس پر مرجان لگا ہوا تھا اور خلیفہ کا نام کندہ تھا۔
”یہ انگوٹھی دکھا کر تم جب اور جس وقت چاہو ہمارے پاس پہنچ سکتے ہو۔ اور ہاں، ہم تم سے بھی ایک وعدہ لینا چاہیں گے۔ کاروبار خلافت میں اس قسم کے حالات پیدا ہوجانا بعید ازقیاس بات نہیں ہوتی۔ ہم چاہیں گے کہ تم بھی ان باتوں کا ذکر کسی سے مت کرنا۔“
میں نے سلطان اندلس کو یقین دلایا کہ میں اس بارے میں مہربہ لب رہوں گا۔ بادشاہ نے اپنی مسہری کے سرہانے کی طرف لٹکی ہوئی ایک ریشمی پٹی کو تھوڑا سا کھینچا۔ اس کے کھینچتے ہی بائیں جانب دیوار کا پردہ ہٹا اور ایک ہٹا کٹا حبشی غلام ہاتھ میں ننگی تلوار لئے خونخوار شیر کی طرح نکل کر مجھ پر جھپٹا۔ خلیفہ نے اشارہ کیا۔ وہ وہیں رک گیا۔ خلیفہ نے اسے حکم دیا کہ مجھے محل کے خفیہ راستے سے سلیمان شاہ کے پائیں باغ میں پہنچادیا جائے۔ حبشی غلام نے خلیفہ کے آگے تین بار سر جھکایا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر ایک محراب کی طرف بڑھا۔ جس کے آگے سبز کمخواب کا بھاری پردہ گرا ہوا تھا۔ اس نے پردہ اٹھایا تو آگے سیڑھیاں نیچے جاتی تھیں۔ یہ سیڑھیاں ایک تاریک غار میں اتر گئیں۔ یہاں چند قدم چلنے پر شمع کی روشنی ہوگئی۔ چھ سات موڑ گھومنے کے بعد آگے پھر ایک زینہ آگیا جو اوپر جاتا تھا۔ حبشی غلام نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا اور خود جدھر سے آیا تھا ادھر کو چلا گیا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر آخری زینے پر پہنچا تو پتھر پر میرے ہاﺅں کے دباﺅ کی وجہ سے سامنے والا پتھر اپنی جگہ سے اندر کی طرف کھسک آیا اور دن کی تیز روشنی نے میری آنکھیں چکا چوند کردیں۔ میں باہر نکل آیا۔ میرے نکلنے ہی پتھر دوبارہ اپنی جگہ پر چلا گیا اور اب وہاں میرے سامنے ایک ایسی دیوار تھی جس پر زند لگا تھا اور جنگلی بیلوں نے اسے آدھے سے زیادہ ڈھانپ رکھا تھا۔
میرے سامنے بھی جھاڑیاں تھیں۔ جھاڑیوں سے نکلا تو میں خلیفہ کے چچا سلمان کے پائیں باغ میں تھا۔ میں نے خلیفہ اندلس کی دی ہوئی انگوٹھی کو چھپا کر رکھ لیا تھا۔ اپنے ذہن میں جو منصوبہ میں نے تیار کیا ہوا تھا اس پر عمل کرتے ہوئے پائیں باغ سے ہوتا ہوا سلیمان شاہ کے محل کے دروازے پر آگیا۔ محل کے محافظ میری صورت سے شناسا تھا اور جانتے تھے کہ میں ان کے آقا کا غلام خاص ہوں۔ انہوں نے محل کا دروازہ کھول دیا۔ میں سلیمان شاہ کی خلوت گاہ میں پہنچا تو دیکھا کہ محفل رقص و سرور گرم ہے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے ہاتھ بلند کیا۔ رقص تھم گیا۔ سلیمان شاہ نے دوسرا ہاتھ بلند کیا تو ایک لمحے کے اندر اندر مجلس خالی ہوگئی۔ جب سب چلے گئے تو سلیمان شاہ نے مجھے مسند پر بٹھاتے ہوئے کہا ”تم غائب ہوگئے تھے، کم بخت! ایک تو میرا منصوبہ ناکام ہوگیا دوسرے مجھے تمہاری فکر کھائے جارہی تھی کہ کہیں شاہی جاسوسوں کے ہاتھ نہ لگ گئے ہو۔“(جاری ہے)