اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 172

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 172

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے پہلے ہی سے جھوٹ موٹ کہانی گھڑ رکھی تھی۔ میں نے چہرے پر پریشانی کے تاثرات نمایاں کئے اور کہا ”حضور! میں نے جب سنا کہ بادشاہ کی حالت سنبھل گئی ہے تو سمجھ گیا کہ زہر نے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ حضور! ڈرپوک ہوں۔ جان بچا کر جنگل میں جاکر چھپ گیا۔ اب آپ کی محبت نے جوش مارا تو آپ کے پاس آگیا ہوں۔ حضور! کسی کو ہم پر شک تو نہیں ہوا؟“
سلیمان شاہ سینے پر ہاتھ مر کر بولا ”کسی کو جرأت ہے کہ مجھ پر شک کرے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ میرا وار خالی گیا ہے۔ مگر کیا تمہیں یقین ہے کہ جو زہر تم شاہ فران سے لائے تھے وہ اصلی تھا؟“
میں نے فوراً کہا ”سو فیصد اصلی تھا حضور! مجھے تو شک ہے کہ جو زہر آپ نے اس میں ملایاتھا وہ دھوکا دے گیا۔“سلیمان شاہ نے مسند پر زور سے ہاتھ مارا اور بولا
”وہ روم کے ایک ایسے طبیب کا تیار کیا ہوا زہر تھا جس کا خاندان بادشاہوں کی ہلاکت کے لئے ہمیشہ سے زہر فراہم کرتا رہا ہے۔“
میں نے جلدی سے کہا ”تو حضور! پھر ان دونوں زہروں کے امتزاج کے باعث وہ تریاق بن گیا ہوگا۔“
”کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟“ سلیمان شاہ نے تعجب سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میں نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا
”کبھی کبھی ایسا ہوجایا کرتا ہے حضور کہ بعض زہر کے اجزا دوسرے زہر کے اجزا سے مل کر اپنی تاثر بدل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ کی جان بچ گئی۔“
سلیمان شاہ نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
”لیوگی! تم نے اگر آئندہ اتنی اونچی آواز میں بات کی تو میں تمہاری گردن اڑادوں گا۔“

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 171 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے خاموش ہوکر سر جھکالیا۔ سلیمان شاہ اٹھ کر بے چینی سے ٹہلنے لگا۔ کھچ دیر ٹہلتے رہنے کے بعد وہ دوبارہ مسند پر آکر متفکر انداز میں بیٹھ گیا اور اپنے آپ بڑ بڑایا۔
”فرانس کا بادشاہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس میں ان کا بھی نقصان ہے۔ زہر میری آنکھوں کے سامنے حبشن والی دعوت میں خلیفہ کے مشروب میں ڈالا گیا تھا۔ تمہارا اندازہ درست لگتا ہے۔ دو زہروں کے اج زا نے مل کر تریاق کی شکل اختیار کرلی ہوگی۔“
پھر وہ گاﺅ تکیے میں کہنی دھنسا کر نیم دراز ہوگیا۔ میں نے جان بوجھ کر اس شاعر معاملے میں عدم دلچسپی کے اظہار کی خاطر کہا ”حضور! اگر برا نہ مانیں تو مجھے واپس جانے کی اجازت دیں۔“
سلیمان شاہ نے میری طرف گھور کر دیکھا۔ ذرا سا مسکرایا اوربولا
”تم عقل مند نوجوان ہو۔ شارلیان نے شاید تمہاری اسی صفت کی وجہ سے تمہیں اپنا خاص رفیق بنایا ہے اور تم میرے پاس رہو۔ کچھ وقت کے لئے ہی سہی۔ مجھے تمہاری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اب تم اپنے کمرے میں جاکر آرام کرو۔“
میں نے جھک کر تین بار سلام کیا اور وہاں سے اٹھ آیا۔
خلیفہ مسترشد مکمل طور پر صحت مند ہو کر امور سلطنت کی انجام دہی میں مصروف ہوگیا۔ میری ہدایت کے مطابق اور طبیب شاہی کی نگرانی میں خود خلیفہ اندلس اور اس کے شہزادے شہزادیاں اور ملکہ میرے تریاق تیل کے چند قطرے ہفتے میں ایک بار ضرور نوش کر لیتے تھے تاکہ اگر انہیں انجانے میں کوئی زہر کھلادے تو وہ اس کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ سلطان اندلس کی دی ہوئی مرجان کی خاص انگوٹھی میں نے اپنی خواب گاہ کے بستر کے نیچے چھپا کر رکھ دی تھی۔ شارلیان نے مجھے زمرد کی انگوٹھی بھی دی تھی تاکہ وقت پڑنے پر میں قرطبہ کے جنوب والی عیسائی درگاہ کے متوالی لیوپارڈی کو انگوٹھی دکھا کر مدد حاصل کرسکوں۔ یہ انگوٹھی میری انگلی میں تھی۔ متولی لیوپارڈی تخریب کاروں کے سرخنہ شارلیان کا ساتھی تھا۔
شارلیان کو جب معلوم ہوا کہ خلیفہ مسترشد پر زہر نے اثر نہیں کیا اور وہ زندہ ہے تو اس نے اپنا ایک خاص آدمی مسلمان سیاح کے بھیس میں سلیمان شاہ کے پاس بھیجا۔ سلیمان شاہ نے اسے کہلوا بھیجا کہ زہر بے اثر ہوگیا تھا۔ ہر چند کہ میں اس میں شاہ فرانس اور اس کے دست راست شارلیمان کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا پھر بھی میں نے اپنے طور پر خلیفہ کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اس وقت سلیمان شاہ کے پہلو میں موجود تھا۔ شارلیان کا آدمی پیغام لے کر واپس چلا گیا۔ اب میں اس ٹوہ میں تھا کہ سلیمان شاہ خلیفہ کو ہلاک کرنے کا کیا منصوبہ بناتا ہے۔ یہ شخص انتہائی مکار اور موقع شناس تھا۔ وہ کیا سوچ رہا تھا؟ اس کی وہ مجھے بھی خبر تک نہیں ہونے دے رہا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ اندر ہی اندر کوئی سکیم تیار کررہا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری بے خبریم یں بادشاہ کو موت کے گھاٹ اتاردے۔ وہ اب خلیفہ اندلس کے زیادہ قریب رہنے لگا تھا اور اپنے طرز عمل سے اسے یقین دلانے کی کوشش میں تھا کہ وہ اس کا وفادار ہے۔ اگرچہ خلیفہ خوب جانتا تھا کہ اس کا چچا اس کے ساتھ مکاری کررہا ہے۔ پھر بھی سلیمان شاہ کے خفیہ منصوبے سے میرا آگاہ ہونا ضروری تھا۔ بادشاہ کو بے خبری میں نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ ایک رات محفل سرور میں سلیمان شاہ بڑے موڈ میں تھا۔ جب وہ اکیلا ہوا تو میں نے اسے کریدنے کی کوشش کی۔ سلیمان شاہ نے میری طرف جھک کر اپنی چھوٹی چھوٹی مکارانہ آنکھوں سے دیکھا اور کہا
”لیوگی! اندلس کا تخت بہت جلد اوندھا ہونے والا ہے۔ جب میں نے یہ سراغ لگانے کی کوشش کی کہ وہ اندلس کے تحت شاہی پر قبضہ کرنے کا کون سا خانیں منصوبہ بنارہا ہے تو اس نے بات کو ٹال دیا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ مجھے اس بارے میں ہم راز نہیں بنانا چاہتا تھا۔ میں ںے بھی اس خیال سے کہ اسے شک نہ ہوجائے مزید اشتیاق کا اظہار نہ کیا لیکن اندر ہی اندر چوکس ہوگیا اور اس کے معمولات پر کڑی نظر رکھنے لگا۔
ابھی تک میں قصر خلافت میں نہیں گیا تھا۔ نہ ہی میں نے طبیب شاہی یا خلیفہ مسترشد سے ملاقات کی تھی۔ اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ ویسے بھی میں خواہ مخواہ غدار سلیمان شاہ کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب کہ سلیمان شاہ خلیفہ اندلس کو ہلاک کرنے کے لئے کسی منصوبے پر جلد عمل کرنے وال اتھا۔سلیمان شاہ کی ایک چہیتی کنیز تھی جو اس کی جلوت و خلوت کی راز دار تھی۔ اس کا نام طرسومہ تھا۔ اس حسین و جمیل اور نوجوان کنیز کا تعلق ملک شام سے تھا۔ اسے شام کے ایک امیر نے تحفے کے طور پر سلیمان شاہ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ سلیمان شاہ اس کا گرویدہ تھا۔ طرسومہ مجھے بھی اپنے آقا کا ایک غلام سمجھتی تھی اور مجھ پر کبھی اس نے نگاہ غلط انداز بھی نہیں ڈالی تھی۔ میں اپنی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک روز عجیب حادثہ ہوگیا۔ ایک چاندنی رات کو میں سلیمان شاہ کے محل کے عقبی باغ میں چہل قدمی کررہا تھا کہ ایک سوڈانی کنیز پریشان حال دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ طرسومہ کو باغ میں سانپ نے ڈس لیا ہے۔ میں اس کے ساتھ باغ کے آخری تختے کی طرف بھاگا۔ یہاں تیونس کے سیاہ گلابوں کی جھاڑیاں کثرت سے تھیں اور ان جھاڑیوں میں اکثر زہرےلے سانپ پائے جاتے تھے۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 173 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں