اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 173
کنیز طرسومہ گلاب کی جھاڑیوں کے پاس نیم بیہوشی کے عالم میں گھاس پر پڑی تھی۔ سانپ نے اسے پنڈلی پر ڈسا تھا۔ میں نے خنجر نکال کر جہاں سانپ نے ڈسا تھا وہاں ہلکا سا زخم لگایا او راپنے ہونٹوں سے زہر چوس کر تھوکنے لگا۔ چار پانچ مرتبہ ایسا کرنے سے طرسومہ کے خون سے سانپ کا زہر نکل گیا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میں اسے اٹھا کر اس کی شاہی قیام گاہ میں لے آیا۔ میں نے اسے ضروری طبی امداد دی۔ اسے گرم اور تلخ مشروب پلایا تاکہ وہ سو نہ سکے۔ میں صبح تک اس کے پاس بیٹھا اس کی خبرگیری کرتا رہا۔ دن چڑھا تو وہ پوری طرح تندرست ہوچکی تھی۔ اس کی نگاہیں میری ممنونیت سے لبریز تھیں۔ اس کے خیال میں مَیں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس کی جان بچالی تھی حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ سانپ کا زہر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ سلیمان شاہ کو اپنی چہیتی کنیز کو سانپ کے ڈسنے کی اطلاع ملی تو وہ شب خوابی کے لباس میں ہی طرسومہ کی شاہی قیام گاہ میں پہنچ گیا۔ جب اسے پتہ چلا کہ میں نے سانپ کا زہر چوس کر نکال دیا تو اس نے مجھے گلے لگا لیا۔
”لیوگی! تم نے اپنی جانثاری کی ایک اعلیٰ مثال پیش کی ہے۔“ اس حادثے کے بعد طرسومہ کا جھکاﺅ میری طرف ہوگیا۔ وہ مجھ سے بڑی محبت سے پیش آنے لگی۔ ایک بار اس نے اپنی ایک حبشن نوکرانی کے ہاتھ خشک میوہ جات کا ایک طشت میرے ہاں بطور تحفہ بھجوایا۔ مگر میں اس کے زیادہ قریب ہونے سے کتراتا تھا۔ اس خیال سے کہ اگر سلیمان شاہ کا جذبہ رقابت بیدار ہوگیا تو وہ مجھے زبردستی اندلس سے واپس شارلیان کے پاس بھجوادے گا اور میرا سارا کام دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ سلیمان شاہ کے قریب رہتے ہوئے مجھے بہت سے فوائد حاصل تھے اور میں انہیں ہاتھ سے نہیں کھونا چاہتا تھا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 172 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دیک دن میں صبح کے وقت اپنی خواب گاہ سے نکل کر چمن زار میں آیا تو وہاں کی جنت افزا فضا نے مجھے مسحور کردیا۔ ہر تختہ پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں کچھ دیر وہاں ٹہلتا رہا۔ جب واپس اپنی قیام گاہ میں گیا تو یہ دیکھ کر کچھ پریشان ہوگیا کہ میری مسہری کا بستر تبدیل کیا جاچکا تھا۔ میں جلدی سے سموری گدے کو الٹا کر پلنگ پر وہ انگوٹھی تلاش کرنے لگا جو مجھے خلیفہ اندلس نے خاص طو رپر مرحمت فرمائی تھی۔ میرے ہوش اُڑگئے۔ انگوٹھی غائب ہوچکی تھی۔ میں نے کئی بار پلنگ کی تلاشی لی مگر انگوٹھی نہ ملی۔ دل میں خیال آیاکہ خادمہ نے بستر بدلتے وقت اسے دیکھا ہوگا اور ضرور اس کے پاس ہوگی۔ میں خادمہ کی تلاش میں دوڑا۔ وہ مشنج میں بھی نہیں تھی۔ میں اس راہ داری میں آگیا جو سلیمان شاہ کے محل کو جاتی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ خادمہ چلی آرہی ہے۔ میں نے اس سے انگوٹھی کے بارے میں پوچھا تو وہ بولی
”آقا! مجھے آپ کے پلنگ پر انگوٹھی ملی تو اس پر سلطان عالی کا نام کندہ تھا۔ میں ڈر گئی۔“
”وہ انگوٹھی کہاں ہے؟“
اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ وہ انگوٹھی اس نے اپنے آقا سلیمان شاہ کے حوالے کردی ہے۔ میرے پاﺅں تلے کی زمین نکل گئی۔ میں نے اسے کچھ نہ کہا اور لپیک کر اپنی خواب گاہ میں آگیا۔ میرے پلنگ میں سے سلطان اندلس کی انگوٹھی کا بآمد ہونا اس بات کا بین ثبوت تھا کہ میرا رابطہ براہ راست بادشاہ سلامت سے ہے اور میں ان کا آدمی ہوں۔ یہ بات سلیمان شاہ کے لئے ایک دھماکے سے کم نہیں ہوسکتی تھی۔ ظاہر ہے وہ ایک زیرک اور عیار شخص تھا۔ اسے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ میں اندر سے بادشاہ کے ساتھ ملا ہوا ہوں اور تخت شاہی کے مفادات کی حفاظت کررہا ہوں۔
مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا۔ گھوڑے پر بیٹھا۔ اور سیدھا قرطبہ شہر کے جنوب میں تلاش کرتا عیسائی متولی لیوپارڈی کی درگاہ پر پہنچ گیا۔ یہ شخص شارلیان کا خاص آدمی تھا اور وہاں شاہ فرانس کی اسلام دشمن سازشوں کی نگرانی کرتا تھا۔ شارلیان نے مجھے زمرد کی انگوٹھی اسی شخص سے تعارف کے لئے دی تھی۔ لیوپارڈی ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا جس نے راہبوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے پوچھا کہ کیا میں درگاہ میں چڑھاوا چڑھانے آیا ہوں؟ جب میں نے اسے شارلیان کی دی ہوئی زمرد کی انگوٹھی دکھائی تو وہ مجھے کوٹھری میں لے گیا اور میری طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا
”تم کس لئے میرے پاس آئے ہو؟“
میں نے اسے بتایا کہ خلیفہ مسترشد کا چچا سلیمان شاہ اپنے وعدے سے پھررہا ہے اور لگتا ہے کہ اس نے بادشاہ کو ہلاک کرنے کا منصوبہ تر کردیا ہے۔ لیوپارڈی نے کہا کہ ایسا کیونکر ہوسکتا ہے؟ کیا اسے اندلس کا تخت و تاج حاصل کرنے کی خواہش نہیں ہے؟ میں نے جواب میں یہ کہا کہ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ خلیفہ مسترشد نے اسے کوئی بہت بڑا لالچ دیا ہے جس کے بعد اب وہ ہمارے منصوبے کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔
”مجھے شارلیان نے خاص طور پر فرانسیسی مفادات کی تکمیل کے لئے اس کے پاس بھیجا ہوا ہے۔ اب حالات کے نیا رخ اختیار کرنے سے سلیمان شاہ میری جان لینے کے درپے ہے۔“
لیوپارڈی کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی۔ وہ اپنی داڑھی کو انگلیوں سے کریدنے لگا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا
”وہاں رہ کر حالات کا جائزہ لو۔ اگر سلیمان شاہ واقعی بادشاہ کے ساتھ مل گیا ہے تو ہم اسے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے تم ایک ایک پل کی مجھے خبر دو۔ اگر تمہاری جان کو زیادہ خطرہ ہو تو چھپ کر میرے پاس چلے آنا۔“
میں نے لیوپارڈی سے ہاتھ ملایا اور واپس روانہ ہوگیا۔ اپنی قیام گاہ پر آیا تو کادمہ نے مجھے اطلاع دی کہ آقا سلیمان شاہ نے مجھے اپنے محل میں بلایا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ سارا شاخسانہ اسی شاہی انگوٹھی کا ہے جو اس کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ بہرحال میں نے گھبرانے کی بجائے اپنے حواس قابو میں کئے اور سلیمان شاہ کے محل میں پہنچ گیا۔ وہ اپنے حجلہ خاص میں مسجد پر اکیلا بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور مجھے اپنے قریب دیوان پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس سے پہلے کہ میں استفسار کرتا کہ مجھے کس لئے طلب کیا گیا ہے اس نے خود ہی بات شروع کردی اور کہا
”لیوگی! کبھی تمہیں سلطان معظم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے؟“
میں تھوڑا ٹھٹکا۔ عیار شخص نے براہ راست حملہ کردیا تھا۔
مگر میں اس جیسے کئی عیاروں کو اپنی ہزاروں سالہ زندگی میں بھگت چکا تھا۔ میں نے بڑے تعجب سے کہا
”آقا! آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ کہاں میں ایک ادنیٰ غلام اور کہاں خلیفہ اندلس کی بارگاہ!“(جاری ہے)