مقدس نقشے میں قدیم بازنطینی زبان استعمال کی گئی تھی۔ لہٰذابوڑھے بطلیموس نے قاسم کو مقدس نقشہ تفصیل کے ساتھ سمجھا دیا۔ قاسم نے چرمی نقشہ تہہ کرکے ایک مضبوط ڈوری کے ذریعے اپنے سینے کے ساتھ باندھ دیا اوپر اپنا بھاری فوجی لباس پہن لیا۔ خزانے کی چابیوں والی پوٹلی جسے مقدس بطلیموس نے قسطنطنیہ کی چابیاں قرار دیا تھا قاسم نے اپنے لباس کے اندر کمر کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لی۔ اب قاسم جانے کے لیے تیار تھا۔ بوڑھے بطلیموس نے اسے انتہائی شفقت بھری دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
قاسم تیزی سے غلاطہ کے مینار کی سیڑھیاں اترنے لگا۔ جس وقت قاسم ’’برج غلاطہ‘‘ کی سب سے نچلی منزل سے باہر آیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سپیدۂ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ قاسم کا گھوڑا قاسم کو دیکھ کر ہنہنانے لگا۔ یہ صبح کا وقت تھا اور پرندے بیدار ہو چکے تھے۔ اب قاسم کی منزل سلطانی لشکر تھا اور قاسم کے راستے کی کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہ تھی۔۔۔!
**
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 107 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فاتح کی یلغار
بالآخر 6اپریل1453ء بمطابق 26ربیع الاول857ھ کے روز سلطان محمد خان اپنی بہادر افواج کے ہمراہ خشکی کی جانب سے قسطنطنیہ کی فصیل کے سامنے نمودار ہوا۔ شہر کے سب دروازے بند تھے اور قسطنطنیہ کا پورا شہر فصیل پر چڑھ کر دور سے دھول اڑاتے ہوئے سلطانی لشکر کو دیکھ رہا تھا۔
قاسم گزشتہ پندرہ روز سے اسی لشکر کے ہمراہ تھا اور وہ اب اپنے عزیز دوست سپہ سالار ’’آغا حسن‘‘ کی ماتحتی میں اپنے سابقہ عہدے پر برقرار ہو چکا تھا۔ قاسم کے ماتحت لڑنے والے مسلمان سپاہیوں کو اپنے سابق سالار کے واپس آجانے کی بے پناہ خوشی ہوئی اور وہ تمام قاسم کے ساتھ بغلگیر ہو کر ملے۔ اس مرتبہ عثمانی فوج کا ہر سپاہی فتح یا شہادت کے جذبے سے سرشار تھا۔ خصوصاً آغا حسن کے وجیہہ چہرے پر ولولہ جہاد کی دلفریب لہر دیکھی جا سکتی تھی۔
قاسم جب سلطان کے پاس پہنچا تو سلطان قاسم کی آمد کا سن کر بیتابانہ اپنے خیمے سے باہر نکل آیا تھا اور اس نے قاسم کو یوں والہانہ انداز میں گلے سے لگایا تھا جیسے مدتوں کے بچھڑے دوست اچانک سر راہ مل جائیں۔ قاسم نے سلطان کو اپنی تمام کارکردگی سنائی اور مقس بطلیموس کی فراہم کردہ قسطنطنیہ کی چابیان سلطان کے حوالے کیں۔ بعدازاں قاسم نے سلطان کو مقدس نقشہ پیش کیا تو سلطان خوشی سے اچھل کھڑا ہوا اور قاسم کو ایک بار پھر گلے لگا لیا۔قاسم نے سلطان کو نقشے کی تفصیلات سمجھائیں۔ اور چودہ میل لمبی فصیل کے کمزور مقامات کی خصوصی طور پر نشاندہی کی۔ اس روز قاسم سلطان کے ہمراہ رات بھر بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ لشکر کے موذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ اگلے روز قاسم اپنے اہل خانہ سے ملا۔ اس کی بیوی شہزادی حمیرا رضا کار عورتوں کی سالار تھی۔ قاسم کو حمیرا کے اس اقدام سے بے حد خوشی ہوئی اور اس نے حمیرا کو محبت سے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ لشکر کے ننھے رضا کار عمر اور علی اپنے بچھڑے ہوئے چاچو کے ساتھ لپٹ گئے۔ قاسم نے بھتیجوں کو دیکھا تو ایک دم اسے اپنی بچی غزالہ کا خیال آیا۔ وہ چونک کر حمیرا کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی بیوی سے پوچھا۔
’’اری حمیرا!۔۔۔غزالہ کو’’ادرنہ‘‘ میں کس کے پاس چھوڑ آئی ہو؟‘‘
حمیرا مسکرائی اور شرارت آمیز لہجے میں خاوند سے پوچھا’’آپ کا کیا خیال ہے، بھلا اندازہ لگا کر بتائیے کہ ہماری بچی ’’ادرنہ‘‘ میں کس کے پاس ہوگی؟‘‘
حمیرا کے تجسس آمیز لہجے سے قاسم سوچ میں پڑ گیا۔ وہ حیران ہو رہا تھا کہ آخر چھ سالہ معصوم غزالہ ’’ادرنہ‘‘ میں اکیلی کس کے پاس رہ سکے گی۔ قاسم کو سوچوں میں گم دیکھ کر حمیرا کھلکھلا کر ہنس دی اور کہنے لگی۔
’’ارے! آپ تو پریشان ہوگئے۔ ہماری بچی بہت محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ رہنے سے زیادہ وہاں خوش ہے۔ میں آپ کو بتاؤں غزالہ کہاں ہے؟۔۔۔وہ غمزدہ ملکہ اور سلطان معظم کی دوسری ماں ’’ملکہ سروین‘‘ کی خصوصی پرورش میں ہے۔‘‘
قاسم کے سینے سے ایک طویل سانس نکلی اور اسے یاد آیا کہ مرحوم سلطان مراد خان ثانی کی نوجوان بیوی ملکہ سروین جو اب تاجدار ملکہ تو نہ رہی تھی۔ لیکن قصر سلطانی میں مقیم تھی، واقعتاً ایک دکھی دل خاتون تھی۔ کیونکہ عین اس روز جس دن سلطان محمد خان کی تاجپوشی تھی ملکہ سروین کے شیر خوار شہزادے کو ایک سالار نے قتل کر دیا تھا۔۔۔قاسم کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس کی بچی ملکہ سروین کی زیر تربیت تھی۔۔۔وہ مطمئن ہوگیا۔
قاسم اپنے بھائی طاہر سے بھی ملا اور دونوں بھائی دیر تک ایک دوسرے کو اپنا حال و احوال سناتے رہے۔ بوڑھے عباس کی بیٹی مریم بھی جو اب قاسم کے بھائی طاہر کی بیوی تھی رضا کار خواتین کے دستہ میں شامل تھی۔ قاسم آہن گر ’’اربان‘‘ سے بھی ملا۔ یہ وہی شخص تھا جسے ’’ادرنہ‘‘ میں سب سے پہلے قاسم ہی کے ساتھ واسطہ پڑا تھا۔ گزشتہ پندرہ روز سے قاسم لشکر کے ہمراہ چل رہا تھا اور آج 6اپریل 1453ء کے دن قاسم عثمانی لشکر کے ہمراہ ایک بار پھر قسطنطنیہ کے سامنے پہنچ چکا تھا۔
ادھر سلطان کے امیر البحر ’’بلوط اغلن‘‘ کے جنگی جہاز جب آبنائے باسفورس میں داخل ہوئے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے پرجوش بوڑھا ’’عباس‘‘ اپنے جہازوں سمیت موجود تھا۔ ’’بلوط اغلن‘‘ نے آتے ہی ’’نارمن‘‘ کے بحری بیڑے کو دور تک پیچھے دھکیل دیا اور پوری کی پوری آبنائے باسفورس پر مکمل قبضہ حاصل کر لیا۔ اب شہر کے عقبی سمندر میں بھی عثمانی بحریہ کا قبضہ ہو چکا تھا اور یورپی جہاز آبنائے باسفورس کو خالی کرکے بحر مار مورا کے وسط تک پیچھے ہٹ گئے تھے۔ رومیوں کے لیے صرف در دانیال کا راستہ کھلا تھا اور وہ بھی ایسی صورت میں جب عثمانی بحریہ کی کشتیاں دردانیال کے پانیوں میں گشت پر موجود نہ ہوتیں البتہ گولڈن ہارن میں بھاری اسلحہ بردار مسیحی جہاز ابھی تک موجود تھے اور ’’گولڈن ہارن‘‘ کے دہانے پر لوہے کی بھاری بھر کم زنجیر تنی ہوئی تھی۔ رومی بحریہ کے جاہز دن بھر ’’بلوط اغلن‘‘ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے۔ وہ بحر مارمورا سے کبھی کبھار آبنائے میں داخل ہو جاتے اور عثمانی بحریہ کا اچھا خاصا نقصان کرکے واپس بھاگ جاتے۔
’’گولڈن ہارن‘‘ کے افسران بھی وقتا فوقتا ترکی بحریہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کی کوشش کرتے رہتے تھے اور یوں گویا قسطنطنیہ کے دو اطراف میں ترکوں اور رومیوں کے درمیان باقاعدہ بحری جنگ شروع ہو چکی تھی۔قسطنطنیہ کی تیسری سمت میں گولڈن ہارن واقع تھی جس کا راستہ فی الحال بند تھا۔
شہر کے سامنے پہنچ کر سلطان نے اپان شاہی خیمہ ’’سینٹ رومانس‘‘ کے دروازے کے عین سامنے نصب کروایا تھا۔ سلطان نے لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا اور قسطنطنیہ کے محاصرے کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ سلطان ے سپاہیوں کو خیمے نصب کرنے کا حکم دیا اور کود اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہو کر فصیل شہر کے سامنے تمام علاقے کا گشت کرنے لگا۔ سلطان کے نامور سپہ سالار اس کے دائیں بائیں گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور سلطان محمد خان آل عثمان کے مخصوص جاہ و جلال کے ساتھ محاصرے کے مختلف مقامات کا جائزہ لینے لگا۔ سلطان نے جا بجا بہادر دستوں کو متعین کیا اور فصیل کی مختلف کمزوریوں کو ذہن نشین کرکے اپنی خطرناک توپیں نصب کرنیکا حکم دیا۔ سلطان نے بیلداروں کے سردار کو بلوا کر ساباط اور سرنگیں بنانے کی ہدایت کی۔ بیلدار سلطان کا حکم پاتے ہی دھڑا دھڑا انجیر کے درختوں کو گرا کر ساباط اور سرنگیں بنانے میں مصروف ہوگئے۔ یہ ساباط دراصل لکڑی کے قد آدم کیبن تھے جن کے نیچے پیئے لگائے گئے تاکہ سپاہی ان کے عقب میں خود کو چھپا کر ان چھجوں کو آگے سے آگے دھکیلتے ہوئے شہر کی طرف بڑھ سکیں۔ لکڑی کے یہ ساباط تیر اندازی اور سنگ باری سے سپاہیوں کو محفوظ رکھ سکتے تھے اور سپاہی ان چھجوں کے رخنوں میں سے آسانی کے ساتھ فصیل شہر پر تیر اندازی کر سکتے تھے۔
سلطانی لشکر خیمہ زن ہوگیا۔ 6اپریل کے روز صبح سے لے کر شام تک تمام عیسائی فصیل شہر پر کھڑے ہو کر عثمانی لشکر کی کارروائی دیکھتے رہے۔ شہر کے اندر قسطنطین کے جانباز سپاہی پوری طرح مستعد تھے۔ جنیوا کا سپہ سالار ’’جان جسٹینانی‘‘ اور قسطنطنیہ کا سپہ سالار ڈیوک نوٹاراس شہر کے بڑے دروازے سے نکل کر دو بدو جنگ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور پھر اسی روز سے ترکوں اور رومیوں کے درمیان آسمان کی آنکھوں نے ہلال و صلیب کی ایک اور جنگ کا نظارہ کرنا شروع کیا۔ سلطان نے پڑاؤ کے وقت حیرت انگیز قابلیت کا ثبوت دیا اور محاصرین نے انتہائی تیزی کے ساتھ محاصرہ کے حلقہ کو تنگ یعنی فصیل شہر کے متصل پہنچنے کی کوشش کی۔ منجنیقوں اور توپوں کو مناسب موقعوں پر نصب کر کے جابجا بارود کے گولوں اور بھاری پتھروں کی بارش کا آغاز کر دیا گیا۔
قسطنطنیہ کے اندر ’’پوپ جان نکلسن پنجنم‘‘ کا نائب ’’کارڈنیل اسیڈور‘‘ موجود تھا۔ محاصرہ شروع ہوتے ہی ’’کارڈنیل اسیڈور‘‘ اور بطریق اعظم نے ایک دوسرے سے بڑھ کر باشندگان شہر اور عیسائی فوجوں میں مذہبی جوش و جذبہ پیدا کرنا شروع کر دیا۔ لڑائی کی ترغیب دینے اور شہید ہونے کے فضائل بیان کرنے کے لیے بڑے بڑے پادری اور بشپ وعظ و نصیحت کرتے اور لوگوں کو بڑھ چڑھ کر جان دینے پر آمادہ کرنے لگے۔ قسطنطنیہ کی عوام میں بے پناہ ولولہ اور جوش و جذبہ محاصرے کے ابتدائی دنوں میں دکھائی دینے لگا۔ کارڈنیل اسیڈور خود سپاہیانہ لباس پہن کر بہت سے بہترین سواروں کی کمان اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا۔ سپہ سالاروں اور تمام افواج کی مجموعی طور پر نگرانی کا کام قیصر قسطنطنین نے براہ راست سنبھالا ہوا تھا۔(جاری ہے )