عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 107
قاسم کے لیے یہ صورتحال توقع کے بالکل ہی برعکس تھی۔ سفید ریش بزرگ نے مسکرا کر قاسم کا استقبال کیا اور انتہائی حلیم آواز میں قاسم سے کہا۔
’’آؤ بیٹا آؤ!۔۔۔اندر آجاؤ!۔۔۔تم بہت تیزی سے سیڑھیاں چڑھے ہو۔ اندر آکر اپنی سانسیں درست کر لو۔ باہر سردی ہے۔‘‘
قاسم کو سردی کا کیااحساس؟ اتنے زیادہ زینے چڑھنے سے اس کا جسم پسینے میں غرق ہو چکا تھا۔ اس نے بوڑھے شخص کی بات کو حیرت سے سنا لیکن اس پر مطلق اعتبار نہ کیا۔ یہ کسی جال میں پھانسنے کی چال بھی ہو سکتی تھی۔ قاسم کا ہاتھ فورا اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا وہ یہی سوچ کر آیا تھا کہ بوڑھے روحانی پیشوا بطلیموس کا خاتمہ کرکے مقدس نقشہ حاصل کرلے گا لیکن یہاں تو صورتحال ہی یکسر مختلف تھی۔ آٹھویں منزل پر مقیم بوڑھا بطلیموس قاسم سے کوئی سوال کئے بغیر اسے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ حالانکہ قاسم کا رات کی تاریکی میں اس طرح برج غلاطہ میں داخل ہونا بجائے خود ایک پوچھنے کی بات تھی۔ بوڑھے بطلیموس نے قاسم کو تلوار نکالتے ہوئے دیکھا تو مسکرا دیا۔
’’نہیں بیٹا نہیں۔ اس کی ضرورت نہیں میں تو تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ آج سے نہیں بیٹا! میں گزشتہ بیس سال سے تمہارا منتظر ہوں۔ ہر رات اسی طرح مشعل ہاتھ میں لے کر دروازہ کھولے تمہارا انتظار کرتا رہتا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ تم آؤ گئے۔ ایک دن ضرور آؤ گے۔۔۔آؤ اندر آجاؤ۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 106پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یکایک قاسم کا سر چکرانے لگا۔ اسے ایسے لگا کہ جیسے مقدس بطلیموس نے اس پر سحر کر دیا ہو۔ قاسم کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑا تھا۔ بری طرح چکرایا اور اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ ۔۔۔بوڑھا بطلیموس ایک دم گھبرایا۔ اس نے تیزی سے مشعل دیوار میں اٹکائی اور آگے بڑھ کر قاسم کو سہارا دیا۔ بوڑھے بطلیموس نے قاسم کو اٹھانے کے لیے اپنے دانوں ہاتھ اس کے شانوں پر رکھے تو یکلخت قاسم کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ اندھیرا چھٹ گیا اور وہ مستعد ہوگیا۔ قاسم تیزی سے اپنے سہارے پر اٹھا اور بوڑھے بطلیموس کے ساتھ چلتا ہوا کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ کمرے کے اندر ایک بڑی چٹائی بچھی تھی جس کے ایک کونے میں تارک الدنیا بطلیموس کا بوریا بستر رکھا تھا اور دوسرے کونے میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا صندوق دھرا تھا۔ چٹائی پر پتھر کے ایک شمع دان میں شمع روشن تھی جس کے ساتھ کچھ مقدس کتابیں دھری تھیں۔ قاسم بطلیموس کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اب قاسم کے دل میں کوئی خوف نہ تھا۔ نہ جانے کیوں وہ اس سفید ریش شخص کو دیکھ کر اپنا اپنا محسوس کر رہا تھا۔ بوڑھے بطلیموس نے قاسم سے پھر کہا۔
’’بیٹا! اچھا ہوا تم آگئے۔ اب میں زیادہ ہی بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میں نے طویل عرصہ تمہارا انتظار کیا ہے میرے پاس تمہاری امانت ہے۔ اسے حفاظت کے ساتھ اپنے امیر کے پاس پہنچانا تمہارا کام ہے۔۔۔یہ قسطنطنیہ کی ہزار سال پرانی چابیاں ہیں میرے لئے اب ان کی حفاظت مشکل تھی۔ شکر ہے کہ تم آگئے۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارا سلطان قسطنطنیہ کو فتح کر لے گا۔ کیونکہ تمہارا امیر بہتر امیر ہے اور تمہارا لشکر سب سے بہتر لشکر ہے۔‘‘
مقدس بطلیموس کی زبان سے آخری الفاظ سنتے ہی قاسم کے بدن کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوگیا۔ یہ تو حدیث مبارکہ کے الفاظ تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔۔۔’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کر لو گے۔ اور اس لشکر کا امیر بہتر امیر ہوگا اور وہ لشکر بہتر لشکر ہوگا۔‘‘۔۔۔قاسم پر وجد طاری ہونے لگا۔ وہ اس کرشماتی بوڑھے کی باتیں سن کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ پرنور چہرے کا مالک یہ بوڑھا شخص یقیناًکوئی پہنچا ہوا بزرگ تھا۔ یہ بزرگ سات سو سال پرانی چابیوں کی بات کر رہا تھا۔ قاسم کے لیے یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ وہ اپنے ذہن پر زور دینے لگا کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟ وہ بولنا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان گنگ تھی۔ بوڑھا بطلیموس پھر بولا۔
’’بیٹا! فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں قسطنطنیہ کا انجام آسمانوں میں لکھ دیا گیا ہے۔ اب اس شہر پر پروردگار کی رحمت برسنے والی ہے۔ تم اپنی امانت لے جاؤ گے تو میں پورے اطمینان کے ساتھ اپنے مالک کے پاس جا سکوں گا۔‘‘
پہلی بار قاسم میں بولنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ اب وہ سنبھل چکا تھا۔ وہ بولا۔
’’مقدس بزرگ ! آج یہ سب کچھ میرے لئے نا قابل یقین ہے۔ میرا دل کہتا ہے آپ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انسان ہیں۔ میں آپ کی امانت اپنے سلطان تک پہنچانے میں ایک پل کی دیر بھی نہ کروں گا۔۔۔لیکن میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں بیا بے شک۔۔۔تم بات کرو۔۔۔تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’مقدس بزرگ! میں یہاں قدیم چابیاں لینے کے لیے نہیں مقدس نقشہ حاصل کرنے کے لیے آیا تھا۔‘‘
قاسم کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ مقدس بزرگ مسکرایا اور بولا’’مقدس نقشہ میرے پاس پہنچ چکا ہے میں وہ بھی تمہارے حوالے کر دوں گا۔۔۔تم اب زیادہ دیر نہ کرو اور جانے کی تیاری کر لو لیکن روانہ ہونے سے پہلے میں اپنے چند الفاظ کا تمہیں گواہ بنانا چاہتا ہوں۔‘‘
قاسم کے لیے مقدس بزرگ کی ہر بات ششدر کر دینے والی ثابت ہو رہی تھی۔ وہ ہمہ تن گوش ہوگیا اور مقدس بزرگ کے مخصوص الفاظ سننے لگا۔ مقدس بطلیموس کہہ رہا تھا
’’اے میرے پروردگار! ۔۔۔میں گواہی دیتا ہوں کہ میں تیرے سوا کسی اور کو اللہ نہیں سمجھتا اور محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بندہ اور رسول سمجھتا ہوں۔‘‘
قاسم کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں۔ مقدس بطلیموس ایک طرح سے کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا۔ یہ اس کے مسلمان ہونے کا ثبوت تھا۔ مقدس بزرگ گواہی کے الفاط مکمل کرنے کے بعد منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ اس کا چہرہ قبلہ رخ تھا اور آنکھیں بند تھیں ۔ کئی لمحات گزر گئے ۔ قاسم اپنی جگہ پر بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اور پھر کافی دیر بعد مقدس بطلیموس نے آنکھیں کھولیں اور قاسم کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ قاسم نے کچھ کہنا چاہا لیکن مقدس بطلیموس نے اسے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اشارے سے منع کر دیا اور پھر اپنی جگہ سے اٹھا۔ بطلیموس نے لکڑی کا صندوق کھول کر اس میں ایک بھاری بھرکم پوٹلی نکالی اور قاسم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ قسطنطنیہ کی چابیاں ہیں۔ گزشتہ ساڑھے آٹھ سو سال سے یہ چابیاں ایک حجازی عرب نوجوان کے انتظار میں اس صندوق کے اندر رکھی ہیں۔ انہیں قیصر روم’’ہرقل‘‘ نے اپنی موقت سے پہلے اس صندوق میں منتقل کیا تھا۔ اس بات سے سب بے خبر ہیں۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ کا کوئی شہنشاہ ان کا راز نہیں پا سکا۔ ان میں فصیل شہر کے قدیم تہہ خانوں کے علاوہ شاہی محل کے گمنام تہہ خانوں کی چابیاں بھی ہیں۔ ان مقامات پر قدیم روما کے دیو مالائی خزانے رکھے ہیں جن کے اصل مالک تم اور تمہارا اصل لشکر ہے۔‘‘
قاسم گم سم مقدس بطلیموس کی ایک ایک بات سن رہا تھا۔ قصیر روم ’’ہرقل ‘‘ کا ذکر سن کر وہ چونکا۔ یہ روم کا وہی شہنشاہ تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مکتوب مبارک ارسال فرمایا تھا ’’ہرقل‘‘ نے ایران کے شہنشاہ کسریٰ ’’خسرو پرویز‘‘ کے مقابلے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب اور ایلچی کا احترام کیا تھا۔ جبکہ خسرو پرویز ناہنجار نے خبث باطن کا ثبوت دیا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب مبارک بے دردی سے چاک کر دیا تھا۔ بوڑھا بطلیموس اس وقت ’’ہرقل‘‘ کی بات کر رہا تھا۔ قاسم وجد کے عالم میں مقدس بطلیموس کی باتیں سنتا ہرا۔ مقدس بطلیموس نے قاسم کو شیر کی کھال پر بنا مقدس نقشہ بھی دے دیا۔ یہ نقشہ قدم فصیل شہر کے مضبوط قلعوں اور خشکی کے راستے پر بنی تین قدیم فصیلوں کا نقشہ تھا۔ اس نقشے میں ان برجوں اور دروازوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو ہزار سال پرانے تھے۔ قدیم فصیل جواب باہر سے پتھر کی بنی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ بعض جگہوں سے ابھی تک ہزار سال پرانی تھی اور اندر سے کچی مٹی سے بنی ہوئی تھی۔ نقشے میں ’’سینٹ رومانس‘‘ کا دروازہ اور اس کے برج بھی دکھائے گئے تھے اس دروازے کے ایک برج کی عمر بھی پانچ سو سال سے زیاہ تھی۔
شہنشاہ قسطنطین نے اگرچہ فصیل کی مرمت کا کام خاص تسلی بخش کر لیا تھا لیکن بہت سی جگہیں ایسی تھیں جن کے خستہ ہونے کی اسے خبر نہ تھی اور یہ وہی جگہیں تھیں جو باہر سے بھاری پتھروں لیکن اندر سے بھربھری مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ خشکی کی جانب جہاں ’’سینٹ رومانس‘‘ کا دروازہ تھا، شہر کی فصیل صرف ایک نہ تھی بلکہ یکے بعد دیگرے تین فصیلیں مختلف فاصلوں پر واقع تھیں۔ اندر کی دو فصیلیں بہت موٹی تھیں اور ان میں 170فٹ کے فاصلے سے مضبوط برج بنے ہوئے تھے۔ ہر دو فصیلوں کے درمیان ساٹھ فٹ کا فاصلہ تھا۔ باہر کی جانب دوسری اور تیسری فصیل کے بیچوں بیچ ساٹھ فٹ چوڑی ایک خندق تھی اور اس خندق کی گہرائی پورے سو فٹ تھی۔ اس قدر گہری خندق کو عبور کرنا کسی عام فاتح کے بس کا کام نہ تھا۔ یہ تینوں فصیلیں نو سو سال پہلے شہنشاہ ’’تھیوڈوسیس ثانی‘‘ نے تعمیر کرائی تھیں اور اب تک 21محاصروں میں قسطنطنیہ کو دشمن کے قدموں سے محفوظ رکھ چکی تھیںَ پورے قسطنطنیہ کے گرد مکمل فصیل کا قطاع دائرہ چودہ میل سے زیادہ لمبا تھا۔(جاری ہے)