عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 86

Oct 09, 2018 | 02:03 PM

ادریس آزاد

قاسم تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا۔۔۔ڈیوڈ ابھی تک اس کے ذہن سے نہیں اترا تھا۔ قاسم کے آنے سے کچھ دیر بعد دیوانی لڑکی پھر ٹپک پڑی۔ قاسم نے آتے ہی اس سے پوچھا۔
’’ڈیوڈ کہاں ہے؟‘‘
’’معلوم نہیں صبح ایک بار میں نے اسے بطریق شاگال کے ساتھ دیکھا تھا۔ وہ دونوں آیا صوفیاء سے باہر جا رہے تھے۔
قاسم کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ وہ کسی خطرے سے ڈرتا نہیں تھا۔ اسے تو صرف یہ بات پریشان کر رہی تھی کہ کہیں کام مکمل ہونے سے پہلے ہی بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔ قاسم نے سونیا کو جانے کی اجازت دی اور خود بطریق اعظم کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ اس نے بوڑھے بطریق اعظم کو نوٹاراس کے تعاون کا یقین دلایا تھا۔ لیکن اس نے بطریق کو بے حد فکر مند اور پریشان دیکھ کر احتیاط کے ساتھ سوال کی۔
’’مقدس باپ! آپ متفکر ہیں میں آپ کی فکر دورکرنے کے لیے ہر خدمت بجا لانے کو حاضر ہوں۔‘‘
بوڑھے بطریق اعظم نے قاسم کی جانب غور سے دیکھا۔ اور پھر کسی قدر پریشان لہجے میں کہا’’ہاں! سچ مچ میں پریشان ہوں۔ کل دونون کلیساؤں کی مجلس منعقدہونے والی ہے اور شہنشاہ نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ ہر صورت میں رومی کلیسا کے ساتھ اتحاد کرکے رہے گا۔ میں سوچتا ہوں رومی کلیسا کے اقتدار کے بعد میں ملک کے کس کونے میں منہ چھپاؤں گا؟‘‘
قاسم نے ذرا سی دیر کے بعد عرض کی’’’مقدس باپ! آپ بالکل فکر مند نہ ہوں۔ قسطنطنیہ کی تمام افواج کے سپہ سالار نوٹاراس نے اسے یقین دلایا ہے کہ وہ کسی قیمت پر شہنشاہ کو یہ اتحاد نہ کرنے دیں گے۔‘‘

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 85پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم کے تسلی دلانے سے بطریق کو کچھ حوصلہ ہوا اور اس نے قاسم کو اپنے پاس بٹھا کر دیرتک بہت سی باتیں کیں۔ آج بطریق اعظم بہت مضطرب تھا۔ اسنے قاسم کو قسطنطنیہ اور آیا صوفیاء سے متعلق بہت سی راز کی باتیں بتائیں جنہیں سلطان کے پاس بھیجنا قاسم کے لئے بہت ضروری تھا۔
سہ پہر کے قریب سسٹر میری نے اپنی ایک خادمہ کے ذریعے سونیا کو بلوا بھیجا ۔ سونیاسسٹر میری کے کمرے میں آئی تو سسٹر میری نے مسکرا کر اس کا استقبال کیا اور مصنوعی ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے کہا۔
’’سونیا! تم بڑی مطلب پرست ہو۔۔۔کل میں نے تمہیں جو نسخہ بتایا تھا اس کا نتیجہ بتانے کے لیے تم نہ آئیں۔‘‘
سونیا کو کسی قدر سسٹر میری جیسی عابدہ اورزاہدہ عورت کے روئیے پر حیرت ہوئی۔ وہ سسٹر میری کے چہرے پر ایک نیا رنگ دیکھ رہی تھی۔ یہ فرشتوں جیسی پاکیزگی سے مختلف کوئی اور رنگ تھا لیکن سسٹر میری کی بات پر سونیا شرمندہ سی ہوگئی اور ہنستے ہوئے کہا۔
’’سسٹر!۔۔۔آپ کا نسخہ بڑا کامیاب رہا۔ نوجوان راہب اب مکمل طور پر میری مٹھی میں ہے۔ میں جب چاہوں آیا صوفیاء سے اسے لے کر پھر ہو جاؤں۔‘‘ سونیا نے اپنی مٹھی ہوا میں کھولتے ہوئے کہا۔ مارسی کسی قدر خفیف سی ہوگئی۔ وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ سونیا پھر بول اٹھی۔’’لیکن سسٹر! آج تو مجھے آپ کو دیکھ کر بھی ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ میں خشک مناجات اور عبادت کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ سسٹر! آج آپ ایک راہبہ کی بجائے ایک عورت لگ رہی ہیں۔‘‘
سونیا شرارت بھرے لہجے میں بہت بری بات کہہ گئی تھی۔ اب مارسی کو اپنی جذباتی حالات کا خیال آیا اور اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو تمہیں خوش دیکھنے کے لئے یہ سب باتیں کر رہی تھی۔‘‘
ابھی شاید مارسی اور سونیا کے درمیان اور بھی باتیں ہوتیں کہ اتنے میں ڈیوڈ، سونیا کو ڈھونڈتا ہوا مارسی کے دروازے پر آپہنچا اور مارسی اپنی ملاقات ادھوری چھوڑ کر ڈیوڈ کے ہمراہ چلی گئی۔
قاسم رات دیر تک بطریق اعظم کے پاس مختلف معاملات پر بات چیت میں مصروف رہا۔ اور بالآخر تمام معاملات طے کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آکر سو گیا۔
دوسرے دن کا سورج طلوع ہوا تو ’’آیا صوفیاء‘‘ کے سامنے قسطنطنیہ کے امراء وزراء، عمائدین سلطنت، شاہی خاندان کے افراد، فوجی افسروں اور کلیسائے رومہ کے مذہبی پیشواؤں کی بگھیاں رکنا شروع ہوگئیں۔ کانفرنس دوپہر کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ جو جو شرکاء آتے گئے۔ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھتے گئے۔ دوپہر سے پہلے ’’آیا صوفیاء‘‘ کا ہال کانفرنس کے شرکاء سے بھرچکا تھا۔ اور پھر چوبدار نے ہال کے دروازے پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ کچھ دیر میں ہی شہنشاہ معظم کی سواری پہنچنے والی ہے۔ ’’آیا صوفیاء‘‘ کا بطریق اعظم اور سلطنت کے دوسرے بہت سے عہدے دار قسطنطین کے استقبال کے لئے اپنی نشستوں سے اٹھ کر ہال سے باہر نکل آئے۔ قاسم بھی بطریق اعظم کے ہمراہ تھا۔ شہنشاہ کے محافظ دستے کے ایک نمائندے نے ’’آیا صوفیاء‘‘ کے سامنے استقبال کے لئے موجود اراکین سلطنت کو شاہی سواری کے لے دو رویہ کھڑے ہونے کی ہدایت کی۔
سب سے پہلے قاسم کو سوسواروں کا ایک دستہ نظر آیا جو انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ سواروں کے گھوڑے اپنی گردنیں اکڑائے اور ہنہناتے ہوئے گویا شاہی سواری کی آمد کا اعلان کررہے تھے۔ ان سواروں کے عقب میں ایک اکیلا گھڑ سوار جس کے گھوڑے کی پشت پر بازنطینی سلطنت کا علم تھا ، زرنگار لباس میں ملبوس اپنی برہنہ شمشیر میں لہراتا، اٹھلاتا آرہا تھا۔ اس سوار کے عقب میں ’’قسطنطین‘‘ کی شاہی بگھی تھی۔ لکڑی کی اس بگھی پر سونے کی پتریاں چڑھی ہوئی تھیں۔ یکے کے بانس یوں دکھائی دیتے تھے گویا سونے سے بنے ہوئے ہوں۔ سونے کی ان پتریوں پر دونوں طرف پیش قیمت یاقوت جڑے ہوئے تھے۔ بگھی کا عقبی حصہ جہاں شہنشاہ کے بیٹھنے کے لئے اکلوتی نشست تھی ، حریر و کمخواب کے گراں قیمت پردوں سے آراستہ تھا۔ دونوں طرف کے پردے لپیٹ کر اوپر اٹھا دیئے گئے تھے اور شہنشاہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔
قاسم کی نظر قسطنطنین کے چہرے پر پڑی تو اسے پھر بے ساختہ حدیث رسول ﷺ یاد آگئی۔۔۔ ۔۔۔جب قیصر ہلاک ہو جائے گا۔ تو پھر اور کوئی قیصر نہیں آئے گا۔۔۔قاسم سوچ رہا تھا، یہی وہ آخری قیصر ہے جس کے ہلاک ہونے کے بعد پھر کوئی قیصر پیدا نہ ہوگا۔ قاسم کی نظریں قیصر کے چہرے پر ٹک گئیں۔ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ شیروں کی طرح بھرپور اور آنکھوں میں چیتے جیسی پھرتی تھی۔
شہنشاہ بگھی سے اترا تو قاسم اس کا تنومندجسم دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ یہ یقیناً کسی آرام پسند شہنشاہ کا جسم نہ تھا۔ قسطنطین کے سر پر بازنطینی سلطنت کا گیارہ سو سال پرانا تاج رکھا تھا۔ یہی تاج پہن کر بازنطینی سلطنت کا بانی قسطنطین اول تخت نشین ہوا تھا۔ اور آج ’’قسطنطین‘‘ نام کے بارھویں نوجوان شہنشاہ کے سر پر بھی اسلاف کی وارثت رکھی ہوئی تھی۔ قسطنطین تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ’’آیا صوفیاء‘‘ میں داخل ہوگیا۔ شاہی سواری کے عقب میں برابر چلتی ہوئی تین بگھیاں تھیں جن میں شاہی خاندان کی خواتین سوار تھیں۔ درمیان کی بگھی سے ملکہ اور دائیں بائیں کی بگھیوں سے شہزادیاں اتر کر ’’آیا صوفیاء‘‘ کی جانب بڑھیں۔ شاہی خاندان کے مرد وقت سے پہلے ہی ’’آیا صوفیاء‘‘ پہنچ چکے تھے۔شہنشاہ کے پہنچتے ہی مجلس شروع کر دی گئی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزیدخبریں