عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 87
’’آیا صوفیاء‘‘ کے بطریق اعظم نے ایک میزبان کی حیثیت سے مجلس کا آغاز کیا۔ہال میں تمام نشستیں دائرے کی صورت بچھی تھیں۔ جگہ جگہ کرسیوں کے بیچ میں سے گزرنے کے لئے راستے بنے ہوئے تھے۔ اس طرح خود بخود دو سو افراد کا یہ دائرہ حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ اس تقسیم کا ایک لحاظ اس طرح رکھا گیا کہ دونوں کلیساؤں کے مذہبی پیشواؤں کو الگ الگ حصوں میں بٹھایا گیا۔ راہباؤں اور نتوں کے لئے دائرے کے ایک سرے پر ایک حصہ مخصوص تھا۔راہباؤں اور ننوں کے لئے دائرے کے ایک سرے پر ایک حصہ مخصوص تھا۔
شہنشاہ بطریق اعظم اور کارڈنیل اسیڈور کی اونچی پشت والی کرسیاں چبوترے پر بچھی تھیں۔ شاہی خاندان کی خواتین بھی راہباؤں اور ننوں کے حصے میں پہلی رو کے اندر بیٹھی اجلاس کی کارروائی دیکھ رہی تھیں۔ دائرے میں موجود تمام نشستوں پر زیادہ تک راہب اور پادری براجمان تھے۔ چاروں طرف کی غلام گردشوں اور محرابوں میں بھی بعض امراء اور فوجی افسران اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ کلیساؤں کی تقسیم کی وجہ سے دائرے کا ایک ایک بازو ایک ایک فرقے میں بٹ گیا تھا۔ چبوترے کے بالکل سامنے اور دائرے کے بالکل وسط میں سب سے اگلی نشست پر تمام افواج کا سپہ سالار گرانڈ ڈیوک نوٹاراس موجود تھا۔ اس دائرے کے بیچوں بیچ فرش کا ایک چھوٹا سا گول ٹکڑا کسی شفاف تالاب کی مانند دکھائی دیتا تھا۔
سب سے پہلے بطریق اعظم نے کھڑے ہو کر ’’کتاب مقدس انجیل‘‘ کی تلاوت کی۔ اور پھر اپنی افتتاحی تقریر سے مجلس کا آغاز کردیا۔ بطریق نے اپنی تقریر میں کہا۔
’’شہنشاہ معظم و شرکائے مجلس!
آپ پر خداوند اپنی رحمت کا سایہ کرے۔
آج یہ مجلس شہنشاہ قسطنطنیہ، وارث تخت بازنطینی، بہادر، شاہ قسطنطین یاذ دہم موسوم و ملقب بہ قیصر روم۔۔۔کے حکم پر یہاں طلب کی گئی ہے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 86پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس میٹنگ کا مرکزی نقطہ ہے، رومن کیتھولک چرچ اور دی ہولی آرتھوڈکش چرچ کے مابین اتحاد، شہنشاہ معظم کی یہ آرزو ہے کہ دونوں کلیساؤں کے درمیان اتحاد ہو جائے تاکہ مذہبی منافرت اور تفرقہ بازی کاخاتمہ ہوسکے۔ جہاں تک اس اختلاف کا تعلق ہے تو دونوں فرقوں کے درمیان یہ تصادم گزشتہ نو سو سال سے موجود ہے۔ شہنشاہ معظم کے عالی نصب آباؤ اجداد دی ہولی آرتھوڈکس چرچ کے راسخ العقیدہ پیروکار تھے۔ عطیم قیصر آنجہانی ’’جسٹینین‘‘ نے ایک خطیر رقم صرف کرکے ’’آیا صوفیاء‘‘ کی عمارت تعمیر کی تھی، جس میں اس وقت ہم سب موجود ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ قسطنطنیہ نے خداوند یسوع مسیح کی دعوت پر ’’رومہ‘‘ سے پہلے لبیک کہی تھی۔ اور اس بنیاد پر قسطنطنیہ کا چرچ خداوند یسوع مسیح کے اولین ماننے والوں میں سے ہے۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ گیارھویں صدی کی صیلبی جنگوں میں قسطنطنیہ نے اپنے لاکھوں مجاہدوں کی جانیں قربان کروا کے اپنے سچے عیسائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ یسوع کا سب سے پہلا کلیسا جو یورپ میں بنا وہ یہیں تھا جسے شہنشاہ قسطنطین اول نے اعلیٰ قسم کی لکڑی سے تعمیر کروایا تھا۔ اور پھر صدیوں پہلے ’’آیا صوفیاء‘‘ کے ایک عظیم بطریق اور ہمارے مقدس باپ نے قسطنطنیہ کو ایک بشارت دی تھی جسے آپ سب لوگ جانتے ہیں۔ لیکن میں پھر بھی ا س بات کو دوہرانا ضروری سمجھتا ہوں۔
ہمارے مقدس باپ نے بشارت دی تھی کہ ایک دن ترک قوم کے لوگ قسطنطنیہ میں داخل ہو جائیں گے۔ اور رومیوں کا تعاقب کرتے کرتے سینٹ صوفیاء کے گرجا کے سامنے اس ستون تک پہنچ جائیں گے جو شاہ قسطنطین کے نام سے منسوب ہے۔ لیکن بس یہی ترکوں کی مصیبتوں کا نقطۂ آغاز ہوگیا۔ کیونکہ اس موقع پر آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا۔(گبن)
معزز مہانان گرامی! اس آسمانی الہام کا مطلب صاف ظاہر ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ’’آیا صوفیاء‘‘ کا کلیسا ہی اس شہر کی بقاء کا واحد محافظ ہے۔ آج مشرق و مغرب کے تمام عیسائی پیشوا ’’آیا صوفیاء‘‘ میں موجود ہیں۔ ہمیں سلطان محمد خان کے خلاف دونوں فرقوں کے اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہمیں خوشی ہے اگر ہمارے قدیم بھائی اہل رومہ بدعات کو ترک کرکے ہمارے ساتھ مل جائیں۔۔۔
دی ہولی آرتھوڈ کس چرچ حقیقی عیسائیت کا نمائندہ ہے۔ اس کے علاوہ میں شہنشاہ معظم کی خدمت میں اس میٹنگ کے آغاز پر ہی یہ درخواست کروں گا کہ اجلاس کی صدارت کا باقاعدہ اعلان فرماتے ہوئے یونانی کلیسا اور ’’آیا صوفیاء‘‘ کی حرمت اور تقدس کو بھی اپنی مبارک نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ شکریہ۔‘‘
بطریق اعظم اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ اب شہنشاہ نے مجلس کی صدارت کا اعلان کیا اور بطریق اعظم کی درخواست کو نظر انداز کرتے ہوئے کارڈنیل اسیڈور کو دونوں کلیساؤں کی متحدہ مجلس کا صدر بنا دیا۔ شہنشاہ کے اس حکم پریونانی کلیساؤں کے پادری اپنی کرسیوں پر جز بز ہو کر رہ گئے۔ اب اجلاس باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ سب سے پہلے شہنشاہ نے اجلاس کے مقصد پر روشنی ڈالی اور تمام شرکاء کو اس نقطے پر اعتماد میں لینے کے لیے ایک لمبی تقریر کی کہ کس طرح دونوں کلیساؤں کا اتحاد دفاع قسطنطنیہ کے لئے ضروری ہے۔ شہنشاہ نے اپنی تقریر میں آیا صوفیاء کے پادریوں اور بطریقوں کو ٹھنڈا رہنے کی ہدایت کی اور ان کو مختلف ذومعنی فقروں سے سمجھانے کی کوشش کی کہ پاپائے روم اور مغربی یورپ کی امداد قسطنطنیہ کے لیے ناگزیر ہے۔ شہنشاہ کو مذہبی اتحاد سے زیادہ مغربی یورپ کی امداد سے دلچسپی تھی۔ اس لئے وہ دونوں فرقوں کے درمیان ہر اختلاف کو نظر انداز کرکے تمام عیسائیوں کو یکجا کرنا چاہتا تھا۔ درحقیقت قسطنطین کی سوچ معقول تھی۔ یہ عیسائی دنیا کی بدنصیبی تھی کہ ان کے مرکز ملت پرحملہ ہونے والا تھا اور وہ ابھی تک تفرقہ بازی کے قصر مذلت میں گرے ہوئے تھے۔ تاریخ شاہد ہے وہ قومیں کبھی زندہ نہیں رہتیں جو اپنے مرکز کو بھول کو بھانت بھانت کے فرقے بنا لیں۔ قسطنطنیہ پر ایک بہت طاقتور دشمن حملہ آور ہونے والا تھا۔ اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ قسطنطنیہ یورپ میں عیسائیت کا رومہ سے بھی بڑا مرکز تھا۔ لیکن پھر بھی عیسائیوں کی تفرقہ بازی عین ایام جنگ میں عروج پر تھی۔ بطریق نے اپنی تقریر میں صاف کہہ دیا تھا کہ ۔۔۔رومن کیتھولک چرچ والے اپنی بدعات ترک کر دیں تو وہ انکے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے تیار ہیں۔۔۔شہنشاہ نے اس کے برخلاف سب کو مشترکہ دشمن کے خطرے کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ شہنشاہ کے اس خیال پر تمام افواج کا سپہ سالار گرانڈ ڈیوک نوٹاراس سب سے زیادہ برہم ہوا اور اس نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر ایک لحاظ سے شہنشاہ کی گستاخی کی تھی اور بھری مجلس میں ڈنکے کی چوٹ پر کہا۔
’’اگر شہنشاہ معظم کو یہ خطرہ ہے کہ قسطنطنیہ پر مسلمان قابض ہو جائیں گے۔ تو میری دانست میں یہ کوئی بڑی خطرہ نہیں۔ اس سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ قسطنطنیہ پر روم کے ظالم پوپ کا قبضہ ہو جائے۔۔۔مجھے قسطنطنیہ میں کارڈنیل کی ’’ٹوپی‘‘ کے مقابلہ میں ترکوں کے ’’عمامے‘‘ دیکھنا زیادہ گوارہ ہے۔‘‘ (دولت عثمانیہ)
نوٹاراس کے الفاظ ایوان مجلس پر برق کی طرح گرے۔ ایک لمحے کے لئے تو سارا ہال سہم گیا۔ سب کی نظریں یکلخت قسطنطین کے چہرے پر اٹھیں۔ شہنشاہ کا چہرہ انگارے کی طرح سرخ ہو رہا تھا۔ نوٹاراس نے گستاخی کی خد کر دی تھی۔ لیکن شہنشاہ اپنی کرسی پر پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ یہ اس کا دربار نہ تھا کہ جلاد کو حکم دے کر نوٹاراس کا سر قلم کروا دیتا۔ یہ تو مقدس کلیسا تھا اور یہاں کسی کا خون بہانا حرام تھا۔ ویسے بھی شہنشاہ جنگ کے اس نازک موقع پر نوٹاراس جیسے جرنیل کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے شہنشاہ نے کچھ نہ کہا۔ نوٹاراس کی گستاخی سے جہاں شہنشاہ اور بعض دیگر لوگوں کے علاوہ رومن کیتھولک پادریوں کو غصہ آیا وہان یونانی کلیسا کے پادری بہت مسرور ہوئے۔
نوٹاراس اب بھی شراب پئے ہوئے تھا اور نشے کی حالت میں اس کے منہ سے وہی الفاظ نکل رہے تھے جو قاسم نے محنت کرکے اس کے ذہن میں اتارے تھے۔ قاسم اپنی نشست پر مسکرا دیا۔
نوٹاراس بیٹھ گیا تو کارڈنیل اسیڈور نے پہلی مرتبہ کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہا۔
’’معزز حاضرین مجلس! میں پوپ جان نکلسن کا نمائندہ خصوصی ہوں۔ قسطنطنیہ صرف آپ کے لیے اہم نہیں ہمارے لئے بہت مقدس ہے۔ بطریق اعظم نے اپنی تقریر میں جس بشارت کا حوالہ دیاہے وہ بشارت مقدس بطریق نے نا مکمل سنائی ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ اس قدیمی بشارت کے بارے میں پوری طرح جانتے ہوں گے۔ لیکن پھر بھی میں ایک مرتبہ پھر اس مقدس باپ کی بشارت کو دہراتا ہوں۔
بشارت یہ تھی۔۔۔ایک دن ترک قوم کے لوگ قسطنطنیہ میں داخل ہو جائیں گے۔ اور رومیوں کا تعاقب کرتے کرتے ’’سینٹ صوفیاء‘‘ کے گرجا کے سامنے اس ستون تک پہنچ جائیں گے جو شاہ قسطنطین کے نام سے منسوب ہے۔ لیکن بس یہیں ان کے مصائب کا نقطۂ آغاز ہوگا۔ کیونکہ اس موقع پر آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے قسطنطنیہ کی سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ فرشتہ اس شخص سے کہے گا۔۔۔یہ تلوار پکڑو۔ اور اس سے خداوند یسوع مسیح کاانتقام لو۔بس اس حیات آیرں جملے کو سنتے ہی ترک فوراً بھاگ کھڑے ہوں گے اور رومی فتح یاب ہو کر ترکوں کو مغرب اور اناطولیہ سے ایران کی سرحدوں تک بھگا دیں گے۔۔۔
چنانچہ اس بشارت کی روشنی میں بطریق اعظم سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ غریب آدمی جو ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ قسطنطین کے خاندان سے نہ ہوگا؟ میں پوچھتا ہوں کہ خداوند نہ کرے ہمارے شہنشاہ معظم اس وقت نہ ہوں گے؟ بطریق اعظم اپنے بیان کی وضاحت کریں۔ وہ شہنشاہ معظم کی موجودگی میں اپنے قدیم پیشواؤں کی ایک کمزور حکایت پیش کرکے شہنشاہ معظم کی توہین کر رہے ہیں۔
اس کے بعد میں سپہ سالار ڈیوک نوٹاراس کو خبردار کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ جان لیں کہ مسلمان اگر قسطنطنیہ پر قابض ہوگئے تو تمہارے وطن کو پھر عیسائیوں کا مرکز کوئی نہ کہے گا۔ مسلمان ہمارے کلیساؤں میں اپنے عربی نسل کے گھوڑے باندھ کر ہماری عبادت گاہوں کی توہین کریں گے۔ وہ قسطنطنیہ میں کسی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے اور ہماری عورتوں کو بے آبرو کریں گے۔ لیکنا اس کے برعکس کارڈنیل کی وہ ٹوپی جس سے آپ کو نفرت ہے، قسطنطنیہ کے عیسائیوں کے لئے جائے پناہ ثابت ہوگی۔ اور اس وقت یونانی کلیسا کے پادری پچھتائیں گے کہ انہون نے اپنے رومی بھائیوں پر اعتماد کیوں نہ کیا۔‘‘
قاسم اس اجلاس میں موجود تھا۔ اس کی کرسی ’’آیا صوفیاء‘‘ کے خاص راہبوں اور بطریقوں کے ساتھ بچھی ہوئی تھی۔ وہ اجلاس کی ساری کارروائی بڑے غور سے سن رہا تھا۔ جس جگہ قاسم بیٹھا تھا یہ جگہ شرکاء کے دائرے کے دائیں بازو کا آخری سرا تھا۔ اس کے بالکل سامنے والا بازو جس میں ’’آیا صوفیاء‘‘ کی راہبائیں اور شہزادیاں بیٹھی تھیں۔ ایوان کے دائرے کا دوسرا سر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قاسم کی نشست خواتین کی نشستوں کے بالکل سامنے آگئی۔ درمیان میں صرف چند قدم کا وہی فاصلہ تھا جو چبوترے کی چوڑائی تھی۔ چبوترے پر شہنشاہ ، بطریق اعظم اور کارڈنیل براجمان تھے۔ قاسم نے اس نشست پر بیٹھتے وقت انتہائی بے تابی کے ساتھ ایک ایک راہبہ کا چہرہ دیکھا تھا کہ شاید مارسی بھی اس اجلاس میں شریک ہو۔ لیکن اسے مارسی کہیں نظر نہ آئی۔ سامنے کی نشستوں پر شاہی خاندان کی لڑکیاں اور زیادہ مقدس راہبائیں براجمان تھیں۔ کارڈنیل جس وقت مسلمانوں کے مظالم کا ذکر کررہا تھا قاسم کا خون کھول اٹھا۔(جاری ہے)