میں خادمِ رسول، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستے میں شامل تھا۔ انہوں نے اپنے خود پر سیاہ عمامہ باندھا ہوا تھا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی چند قدم بعد حضورؐ نے اپنے دستے کو رُکنے کا اشارہ کیا۔ سب رُک گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں سورہ الفتح اور سورہ النصر کی تلاوت فرمائی اور پھر آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
یہ دستہ شہر کے بالائی درے اذاخر سے حجون اور مفلات کے قریب سے مکے میں داخل ہوا۔ جہاں سے سارا شہر نظر آتا ہے۔ ہماری پہلی خواہش یہ تھی کہ ہم خانہء کعبہ کو دیکھیں، کعبے پر نظر پڑتے ہی ہم سب کی عجیب حالت ہو گئی۔ آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر شکر کے کلمات، خانہء کعبہ کو جی بھر کے دیکھنے کے بعد میں نے باقی شہر کی طرف نظر دوڑائی۔ سارا شہر سنسان پڑا تھا۔ معلوم ہوتا تھا ہمارے لئے خالی کر دیا گیا ہے۔ لوگ دو دو چار چار کی ٹولیوں میں پناہ لینے کے لئے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ باقی پہلے ہی اپنے گھروں میں پہنچ چکے تھے۔ خانہء کعبہ کے گرد بھی بہت تھوڑے سے لوگ تھے۔ ایک سال پہلے بھی یہ شہر ہمارے لئے خالی ہوا تھا مگر اُس مرتبہ صرف تین دن کے لئے جو بہت جلد ختم ہو گئے تھے۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ذرا آگے بڑھے تو حجون اور مفلات کے علاقے سامنے تھے جہاں میں اکثر اُمیہ کے کاموں کے سلسلے میں آیا جایا کرتا تھا، سارا راستہ بھاگتے ہوئے کہ دیر ہو گئی تو کہیں آقا ناراض نہ ہو جائے۔
سامنے مکے کا بازار نظر آ رہا تھا جہاں میرا کئی بار سودا ہوا تھا۔ بازار کے ایک طرف نظر پڑی تو وہاں تلواریں چمک رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تردّد سے پوچھا:
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے ہتھیاروں کے استعمال سے منع کیا تھا‘‘۔
پھر عثمانؓ نے آگے بڑھ کر خبر دی کہ خالدؓ کے رسالے پر عکرمہ، سہیل اور صفوان کے ایک دستے نے حملہ کر دیا تھا۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔‘‘
حجون کے محلے میں جنت المعلی کے پاس، جہاں خدیجہؓ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے قاسم دفن ہیں، سُرخ چمڑے کاایک خیمہ نصب تھا جو ابو رافعؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لگایا تھا۔ خانہء کعبہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر۔ یہ ابورافعؓ وہی تھے جن کو جنگ بدر کے بعد ابولہب کے ہاتھوں پٹتا دیکھ کر اُمّ الفضل نے ابولہب کے سر پر ڈنڈا دے مارا تھا۔ اسی ڈنڈے کا زخم بگڑ کر بالآخر اُس کی موت کا سبب بنا۔ ابو رافعؓ کا قصور یہ تھا کہ ابولہب نے اُن سے جب جنگ بدر کی تفصیل پوچھی تو انہوں نے صاف صاف سارے واقعات بیان کر دئیے جو ابولہب کو بہت توہین آمیز معلوم ہوئے۔ تفصیل برداشت سے باہر ہوگئی تو ابولہب نے غصے میں ابو رافعؓ کو مارنا شروع کر دیا۔ اب رافعؓ کبھی عباسؓ کے غلام تھے جنہیں انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد فرما دیا تھا مگر آزاد ہونے کے بعد بھی وہ میری طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت میں رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر خیمے پر پڑی تو انہوں نے سامنے کھڑے جابرؓ کو پاس بلا کر اشارے سے وہ خیمہ دکھایا اور ساتھ ہی شکر و ثنا میں مشغول ہو گئے۔ اُن کا سر تشکر سے اتنا جھک گیا کہ ریشِ مبارک قصواء کی گردن کو چھونے لگی۔
ابو قبیس کی پہاڑیوں پر بھی کچھ لوگ جمع تھے جن میں ابوبکرؓ کے بے حد ضعیف اور نابینا والد عثمان بن عامر جنہیں ہم ابو قحافہ کے نام سے جانتے ہیں اور ابوبکرؓ کی ہمشیرہ قریبہ بھی تھیں۔ یہ دونوں ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ ابوقحافہ کو میں نے ایک مدت کے بعد دیکھا تھا۔ اتنے بزرگ ہو چکے تھے کہ پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ قحافہ اُن کی صاحب زادی، جن کے نام سے اُن کی کنیت ہے، اُن کی سب سے چھوٹی اولاد تھیں۔
ابوسفیانؓ نے ہماری فوج کی آمد سے پہلے ہی مکے پہنچ کر داعئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کر دیا تھا کہ جو اُن کے گھر میں یا خانہء کعبہ میں یا اپنے گھر کے اندر دروازے بند کئے بیٹھا ہو گا، اُسے امان دی جائے گی۔ پہلے پہل تو لوگوں کو یقین نہیں آیا لیکن جب یہی اعلان اسلامی لشکر کے مختلف دستوں سے بار بار ہوا تو لوگوں کو اطمینان ہوا اور وہ ایک ایک دو دو کر کے حرمِ کعبہ میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔
اُمّ سلمہؓ، میمونہؓ، اور فاطمۃ الزہراؓ خیمے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہی تھیں۔ اُمّ ہانیؓ بھی کچھ دیر پہلے اپنے گھر سے چل کر وہیں آ گئی تھیں۔ قصواء آہستہ آہستہ چلتی سرخ خیمے کے پاس پہنچی تو ابو رافعؓ نے بڑھ کر ان کی مہار تھام لی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اُترے اور خیمے میں داخل ہو گئے۔ سب سے پہلے انہوں نے غسل فرمایا۔ جب میں اُن کے غسل سے بچا ہوا پانی لے کر خیمے سے باہر آیا تو ایک ہجوم اُس پانی کا منتظر تھا۔ سب مجھ پر ٹوٹ پڑے اور قریب تھا کہ پانی کا برتن میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتا کہ ابو جحیفہؓ نے آگے بڑھ کر لوگوں کو نظم و ضبط کی تاکید کی۔ پھر بھی ہر شخص بے تاب تھا کہ وہ اِس سعادت سے محروم نہ رہ جائے۔ جس کے پاس کوئی کاسہ تھا، اُس نے بھر لیا۔ جس کے پاس کچھ نہیں تھا اُس نے چلوؤں میں لے کر چہرے اور سینے پر مل لیا۔ جن کو اتنا بھی نہ مل سکا انہوں نے صرف چھینٹوں پر اکتفا کی اور جنہیں چھینٹے بھی میسر نہیں آئے انہوں نے دوسروں کے ہاتھوں سے اُس پانی کی نمی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
میں برتن رکھنے اندر گیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم شکرانے کے نفل پڑھ رہے تھے۔ آٹھویں رکعت ختم کر کے سلام پھیرا تو اُنہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ وہ صحنِ کعبہ میں بھی شکرانے کے دو نفل سب کے ساتھ مل کر ادا کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک چھڑی اُٹھائی اور باہر لے جا کر اسے خانہء کعبہ کی دیوار کے سامنے زمین پر گاڑ دیا۔ اس کے فوراً بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم خیمے سے باہر تشریف لائے۔ سر پر وہی سیاہ عمامہ تھا مگر اب زرہ بکتر نہیں، روزمرہ کے کپڑے پہن رکھے تھے جن میں انہوں نے خیمے کے اندر شکرانے کے نفل پڑھے تھے۔ صفیں درست ہوئیں اور سب نے حضورؐ کی قیادت میں چھڑی کی سمت رُخ کر کے شکرانے کے دو دو نفل ادا کئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمے میں تشریف لے گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ پھر فوجی لباس میں خود اور زرہ بکتر پہنے، تلوار لگائے، باہر آئے اور قصواء پر سوار ہو گئے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اور خود کا مِغَفر اوپر اُٹھایا ہوا تھا۔ وہ لوگ جو صبح کے سفر میں اُن کے ہم رکاب تھے خیمے سے باہر اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ قصواء چلی تو وہ بھی ساتھ ساتھ ہو لئے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں