حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر61
میں فوراً سب کو وہیں چھوڑ کر سیدھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے میں پہنچا۔ عمرؓ ان کے پاس بیٹھے تھے اور شاید پہلے ہی انہیں ابوسفیان کی آمد کی اطلاع دے چکے تھے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ ابوسفیان آیا ہے، عباسؓ کے ساتھ تو انہوں نے نہایت اطمینان سے فرمایا: ’’اللہ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔‘‘
اتنے میں عباسؓ خیمے کا پردہ اُٹھا کر اندر داخل ہوئے۔ اُن کے پیچھے ابوسفیان، پھر حکیم اور سب سے آخر میں بدیل۔
ابوسفیان چند روز پہلے مدینے بھی آیا تھا۔ بنو کعب کے خلاف قریش کی زیادتی کے بعد حدیبیہ کے معاہدے کی دوبارہ توثیق کے لئے مگر وہاں اُس کی کوئی پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو چٹائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابوسفیان نے بیٹھتے ہی کہا:
’’محمدؐ آپ نے تو پتہ نہیں کہاں کہاں کے لوگ اکٹھے کر لئے ہیں۔ اتنی بڑی فوج اپنے ہی اعزّا کے خلاف نامناسب۔۔۔‘‘
حضورؐ کو میں نے کبھی کسی کی بات کاٹتے نہیں دیکھا تھا مگر اُس وقت انہوں نے ابوسفیان کا قطع کلام کرتے ہوئے فرمایا:
’’زیادتی آپ لوگوں کی طرف سے ہوئی ہے۔ آپ نے حدیبیہ کا معاہدہ توڑا ہے۔ بنو کعب کے خلاف حملے میں آپ نے بنوبکر کا ساتھ دیا اور خانہء کعبہ کی حدود کی بھی بے حرمتی کی‘‘۔
ابوسفیان نے موضوع بدلنے کی کوشش کی:
’’کاش! آپ کے غصے کا رُخ ہوازن کی طرف ہوتا جو آپ کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور اُن سے آپ کی عزیز داری بھی دُور کی ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’مکے کی فتح کے بعد اگر اللہ نے چاہا تو وہ اہلِ اسلام کو اُن پر بھی اقتدار دلا دے گا‘‘۔
مکے کا نام سُن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ تو گویا یہ تھی ہماری منزل اور ہم جانے کیا کیا سوچتے رہے۔ یہ کہہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مہمانوں سے کہا کہ وہ اللہ کی وحدت اور اُن کی رسالت کی شہادت دیں۔ حکیمؓ اور بدیلؓ نے فوراً کلمہ پڑھ دیا۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،
مگر ابوسفیان نے صرف اتنا کہا:
’’لا الہ الا اللہ،‘‘
اور چپ ہو گیا۔ جب اُسے رسالت کی شہادت کے لئے کہا گیا تو اُس نے چٹائی پر نظریں گاڑ لیں اور چٹائی ہی کی طرف دیکھتے دیکھتے بولا:
’’محمدؐ میرے دل میں اب بھی شک ہے، مجھے کچھ وقت چاہئے۔‘‘
ابوسفیان کے جواب میں عمرؓ کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر حضورؐ نے انہیں اشارے سے خاموش کرا دیا اور عباسؓ سے کہا کہ وہ اپنے خیمے میں مہمانوں کے رات ٹھہرنے کا انتظام کریں۔
ابوسُفیان
اگلے دن جب علی الصبح میں نے فجر کی اذان دی تو پہاڑوں کے سناٹے میں میری آواز میری توقع سے زیادہ گونجی۔ دیکھتے دیکھتے سب خیموں سے باہر نکل آئے۔ ہر شخص وضو کے لئے دوڑ پڑا۔ سارا لشکر جاگ اُٹھا۔ ابوسفیان بھی ہڑبڑا کر اُٹھا اور آنکھیں ملتا ہوا عباسؓ سے پوچھنے لگا:
’’کیا ہو گیا ہے، کیا ماجرا ہے؟‘‘
’’عباسؓ نے اُسے بتایا: ’’نماز کا وقت ہے‘‘۔
’’ابوسفیان نے پوچھا: ’’کتنی مرتبہ ہوتی ہے یہ نماز؟‘‘
عباسؓ نے کہا: ’’دن رات میں پانچ مرتبہ‘‘۔
’’ابوسفیان نے حیرت سے کہا: ’’پانچ مرتبہ تو بہت زیادہ ہے۔‘‘
یہ کہہ کہ ابوسفیان خیمے سے باہر آ گیا۔ باہر آ کر اُس نے دیکھا کہ فدائیانِ اسلام کس طرح نبی کریمؐ کے گرد پروانہ وار جمع ہیں۔ ایک دوسرے پر گرے پڑ رہے ہیں، اس کوشش میں کہ حضورؐ کے وضو کے پانی کی ایک چھینٹ اُن پر پڑ جائے۔ اُن کے وضو سے بچے ہوئے پانی کا ایک قطرہ انہیں میسر آ جائے۔ ابوسفیان یہ دیکھ مبہوت ہو گیا۔ کہنے لگا:
’’ابوالفضل میں نے آج تک ایسی عقیدت کہیں نہیں دیکھی۔‘‘
عباسؓ نے جواب میں صرف اتنا کہا:
’’ابوسفیان اب تمہیں کس کا انتظار ہے۔ تم بھی رسالت کی شہادت دو۔‘‘
ابوسفیان نے بہت دھیمے لہجے میں کہا:
’’مجھے اُن کے پاس لے چلو۔‘‘
فجر کی نماز کے بعد عباسؓ، ابوسفیان کو لے کر رسولِ کریمؐ کی خدمت میں پہنچے جہاں ابوسفیان نے اُن کی رسالت کی شہادت دی اور پورا کلمہ پڑھ کر دائرہِ اسلام میں داخل ہو گیا۔ حضورؐ نے ابوسفیانؓ کو گلے لگایا اور مبارک باد دی۔ میں نے بڑھ کر مصافحہ کیا اور رسولِ کریمؐ کے الفاظ دہرائے:
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ ایمان بندے کی اپنی صفت نہیں، اللہ کا عطیہ ہے‘‘۔
’’ابوسفیانؓ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا:
’’ارے حبشی، تُو تو بڑا معلم بن گیا ہے‘‘۔
یہ لقب مجھے موقع بے موقع کئی بار ملا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہمیں کوچ کا حکم ملا۔ مکے کی طرف، جو ہمارے سفرِ شوق کی آخری منزل تھا۔ مرالظہران سے مکہ!
فتحِ مکہّ
مرالظہران سے دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت طے کر کے ہم ذوطویٰ پہنچے۔ وہاں حضورؐ نے لشکر کو رُکنے کا حکم دیا۔ ذوطویٰ مکے سے اتنا قریب ہے کہ وہاں سے مکے کا شہر نظر آتا ہے۔ قصواء پر بیٹھے بیٹھے حضورؐ نے فوج کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ میمنہ کی قیادت خالد بن ولیدؓ کو دی اور میسرہ کی زبیر بن العوامؓ کو۔ خالدؓ کے ساتھ بنو سلیم کا رسالہ تھا اور زبیرؓ کے دستے میں پانچ سو مہاجر اور کچھ دیگر لوگ تھے۔ اُس دن زبیرؓ نے پیلے رنگ کا عمامہ باندھ رکھا تھا۔ فوج کا تیسرا حصہ، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے، صرف مہاجرین اور انصار پر مشتمل تھا۔ اس کا ہر سپاہی پوری طرح مسلح، سر سے پاؤں تک فولاد سے ڈھکا ہوا تھا۔ صرف اُن کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ مرالظہران سے روانگی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستے کا پرچم سعد بن عبادہؓ کو دیا تھا۔ میمنہ میسرہ مقرر کرنے کے بعد انہوں نے اپنے دستے کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک کا پرچم سعدؓ کے بیٹے قیسؓ کے حوالے کیا اور دوسرے کا جس میں وہ خود تھے، ابوعبیدہؓ کو عطا فرمایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ احکام دے رہے تھے، ابوبکرؓ اور اُسَید بن حضیرؓ ان کے آگے پیچھے تھے اور عثمانؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ دائیں بائیں۔ لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ خالدؓ شہر کے زیریں حصے سے اور باقی تین دستے مکے کے تین درّوں سے الگ الگ لیکن بہ یک وقت شہر میں داخل ہوں گے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں