حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر60
دس ہزار کا لشکر، عرب کی تاریخ کا ایک عظیم الشان فوجی اجتماع، پیدل، گھڑ سوار، ہر شخص سر سے پاؤں تک کیل کانٹے سے لیس، سازو سامان سے لدے ہوئے سینکڑوں اونٹ، عربستان کے بے شمار قبائل کے دستے جو مدینے سے آتے ہوئے راستے میں ہمارے ساتھ شامل ہوتے گئے، ہر سپاہی کا دل نورِ ایمان سے منور، جذبۂ جہاد سے سرشار۔ یہ کاروان جب مرالظہرّان پہنچا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالنے کا حکم دے دیا۔
مراظہران سے مکہ ایک منزل یعنی چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے۔ یہاں سے ہوازن کے قبیلوں کو بھی راستہ جاتا تھا۔ نجد کے جنوبی حصے میں پہاڑیوں پر آباد لات کے پجاریوں کا یہ قبیلہ اسلام دشمنی میں قریشِ مکہ سے بھی بڑھا ہوا تھا۔ ایک اور راستہ یہاں سے طائف کی طرف نکلتا تھا جو لات کے مندر کے محافظوں کا نہایت سر سبز و شاداب شہر تھا مگر ہمار ی منزل کیا تھی، کسی کو علم نہیں تھا۔ اللہ جانتا تھا یا اُس کا رسولؐ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک اپنا عندیہ کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضورؐ کے حکم کے مطابق ہر شخص نے اپنا الگ الاؤ جلا رکھا تھا۔ گویا مرالظہرّان کی پہاڑیوں پر اُس شام دس ہزار الاؤ روشن تھے۔ عشاء کے بعد لوگ الاؤوں کے گرد بیٹھ گئے اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ منزل کون سی ہے۔ مکہ، طائف یا ہوازن۔ میرے پاس بیٹھے ابوذرؓ نے کہا:
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میرے خیال میں ہم مکےّ جا رہے ہیں‘‘۔
یہیں سے بات چل پڑی۔ ہر ایک نے اپنا خیال ظاہر کیا:
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ قریش سے ہمارا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے۔‘‘
’’مگر بنو کعب پر حملے کے بعد اب کیا رہ گیا حدیبیہ کے معاہدے میں‘‘۔
’’سوچنے کی بات ہے کہ کعبے کی پناہ میں آ جانے کے باوجود بنو کعب پر حملہ ہوا‘‘۔
’’میرا تو خیال ہے ہمارا رُخ ہوازن کی طرف ہے۔ یہی راستہ جاتا ہے اُن کے علاقے کو۔‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ ہوازن نے ہمیں بہت نقصان پہنچائے ہیں‘‘۔
’’شاید اُن کی سرکوبی کا فیصلہ ہو گیا ہے۔‘‘
’’ہوازن ہمارے سخت دشمن ہیں مگر حال میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی کہ اُن سے جنگ چھیڑی جائے‘‘۔
’’ہو سکتا ہے ہمارا ارادہ طائف فتح کرنے کا ہو‘‘۔
’’طائف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی سختیاں ہوئی ہیں، اُن کا حساب چکانا ضروری ہے۔‘‘
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا‘‘۔
’’لیکن طائف میں لات کا مندر کفر کا بہت بڑا مرکز ہے۔ شاید اُسے ختم کرنے کا ارادہ ہو۔‘‘
’’سب سے زیادہ کفر تو اس وقت مکےّ میں ہے۔ لات تو صرف ایک بُت ہے مکہ تو بُتوں سے بھرا پڑا ہے‘‘۔
’’ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارادہ ہو کہ شمالی حجاز کے سب سے خوب صورت باغوں والے شہر یثرب پر قابض ہونے کے بعد اب مشرقی حجاز کے باغات کا سب سے خوب صورت شہر حاصل کیا جائے۔‘‘
’’میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ ہم قریشِ مکہ سے لڑنے جا رہے ہیں۔ اُن سے بڑا کون ہو گا دشمن ہمارا۔ ہمارا اصل جھگڑا ہے ہی اُن سے۔‘‘
کعب بن مالکؓ میرے سامنے بیٹھے خاموشی سے سب کی باتیں سُن رہے تھے۔ یکایک وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
’’میں ابھی پتہ کر کے آتا ہوں‘‘
دو تین نے یک زباں ہو کر کہا:
’’کس سے۔ کسی کو معلوم نہیں‘‘۔
کعبؓ بولے:
’میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر آتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور ہم لوگ اُن کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد کعبؓ لوٹے تو کہنے لگے:
’’جب آپ لوگ اپنی اپنی قیاس آرائیاں کر رہے تھے، میں شعر کہہ رہا تھا۔ سنئے
تلواریں میان سے نکل پڑی ہیں
اور شمشیر زن اُن سے پوچھ رہے ہیں
کہ اُن کی تیز دھاریں کس کے لئے ہیں
اگر تلواروں کی بھی زبان ہوتی
تو وہ بھی یہی سوال کرتیں
کہ بتاؤ ہمارا دشمن کون ہے؟
یہ شعر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائے۔ میرا خیال تھا وہ سُن کر ضرور کوئی جواب دیں گے مگر وہ صرف مسکرا دئیے۔ زبان سے کچھ نہ کہا۔‘‘
یہ تدبیر بھی نہ چلی تو گفتگو کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا پھر وہیں سے شروع ہو گیا:
’’طائف کے بارے میں تو یہ خبر ہے کہ بنو ثقیف نے ہوازن کے دیگر حلیف قبیلوں سے مدد بھی مانگ لی ہے بلکہ کئی شاخوں کے لوگ اُن کے دفاع کے لئے طائف پہنچ بھی گئے ہیں‘‘۔
’’سُنا ہے بنو ثقیف نے شہر کے شمال میں ایک پہاڑی پر مورچہ قائم کیا ہے جہاں سے وہ دُور دُور تک دیکھ سکتے ہیں‘‘۔
’’مگر طائف سے جنگ کرنے کی بھی کوئی فوری وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہمارا اصل جھگڑا تو ۔۔۔‘‘
ابوذرؓ بات کرتے کرتے رُک گئے، اُن کی آنکھیں حیرت زدہ ہو گئیں۔ میں نے فوراً پلٹ کر دیکھا تو سامنے ابوسفیان کھڑا تھا۔ ہر شخص ہکا بکا ہو گیا۔ اتنی رات گئے ابوسفیان ہمارے خیموں میں۔ وہی رکھ رکھاؤ، وہی پہلا سا وقار، وہی طمطراق۔ غور سے دیکھا تو اُس سے چند قدم کے فاصلے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ تھے اور اُن کے ساتھ حکیم بن حزام جنہوں نے بدر کی لڑائی رکوانے کی بڑی کوشش کی تھی مگر ابوجہل نے اُن کی ایک نہ چلنے دی تھی۔ حکیم کے ساتھ بنو خزاعہ کے بدیل بن ورقہ تھے جنہوں نے حدیبیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تھی کہ قریش کسی قیمت پر مسلمانوں کو مکےّ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
ابو سفیان اب اطراف کی پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا جہاں دُور دُور تک الاؤ روشن تھے۔ معلوم ہوتا تھا آسمان سے ستارے اُتر آئے ہیں۔ ابوسفیان نے یہ منظر دیکھ کر قدرے حیرت سے کہا:
’’محمدؐ کی سلطنت بہت پھیل گئی ہے۔‘‘
مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں بول اُٹھا:
’’محمدؐ سلطان نہیں رسول ہیں‘‘۔
ابوسفیان نے کچھ جواب نہیں دیا۔ کچھ سوچتے سوچتے اثبات میں گردن ہلا دی اور مجھے پہچان کر کہا:
’’یہ تم ہو بلال!‘‘
اور بغیر میرے جواب کا انتظار کئے باہر روشنیوں کو دیکھنے لگا۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں