حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر59
ابوجندلؓ کے بارے میں حضورؐ کے فیصلے کے بعد سب لوگ پھر خیموں میں آ گئے۔ معاہدہ سامنے رکھا گیا اور حضورؐ نے مسلمانوں کی طرف سے ابوبکرؓ، عمرؓ، علیؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ اور محمد بن مسلمہؓ کے دستخط کروائے۔ ان کے علاوہ آپﷺ نے سہیل کے بیٹے عبداللہ بن سہیلؓ سے بھی معاہدے کی توثیق کروائی۔ اس سارے عرصے میں حضورؐ ایک سمت کھڑے رہے۔ جو جو دستخط کرتا جاتا تھا، حضورؐ کے پاس آ کر کھڑا ہوتا جاتا تھا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس تمام عرصے میں مَیں خیمے کے مدخل پر کھڑا سوچ میں گم تھا۔ خیمے کا پردہ اُٹھا ہوا تھا اور سامنے کچھ فاصلے پر مجھے وہ کیکر کا درخت نظر آ رہا تھا جس کے نیچے بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ درخت کی چھدری شاخوں کے پیچھے سورج نصف النہار سے نیچے آ چکا تھا اور اس کی اُفقی روشنی میں درخت کی نوخیز، نازک پتیوں کے کنارے زردی مائل نظر آ رہے تھے جیسے ہر پتی پر سونے کی باریک سی جھالر لگی ہوئی ہو۔ درخت کی شاخیں ہلکی ہلکی ہوا میں ہلکورے لیتیں تو پتیاں یوں لرزتیں کہ سارا درخت جھلملا اُٹھتا۔ کبھی میں خیمے کے اندر دیکھتا تھا کبھی باہر۔ مجھے کوئی اندر سے پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔ بلال دیکھ تیری آنکھوں کے سامنے تاریخ عالم کا ایک عظیم باب رقم ہو رہا ہے۔ گواہ رہنا کہ مسلمانوں نے کس جذبہء ایمانی سے اپنے ہادئ برحقؐ کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔
کیکر کی یہ باریک باریک پتیاں رُت بدلتے ہی پیوندِ خاک ہو جائیں گی۔ یہ درخت بھی نہیں رہے گا اور بلال تُو بھی نہیں لیکن جو کچھ اس درخت اور اس کی پتیوں نے دیکھا اور بلال جو کچھ تُونے دیکھا اور دیکھ رہا ہے وہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔
معاہدہ ضبطِ تحریر میں آ گیا۔ سہیل بن عمرو اور ابوجندلؓ واپس چلے گئے تو رسالت مآبؐ نے قربانی کے لئے سب سے پہلے اپنا اونٹ منگوا کر ذبح فرمایا اور خرِاشؓ کو بلوایا کر اپنے سر کا حلق کرایا۔ پھر کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب نے اپنے اپنے قربانی کے جانور ذبح کر دئیے کسی نے حلق کروایا، کسی نے محض قینچی سے بال ترشوائے۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف بال ہی بال بکھر گئے۔ سرورِ عالمؐ نے زمین سے اپنے بالوں کی لٹیں اُٹھائیں اور پاس اُگی ہوئی ایک خودرو جھاڑی پر پھینک دیں جس پر چھوٹے چھوٹے پھول کھل رہے تھے۔ یہ دیکھتے ہی سب اُس جھاڑی پر ٹوٹ پڑے اور ہر شخص نے تبرک کے طور پر جتنے بال ہاتھ لگے سمیٹ لئے۔ نُسیَبہ بنتِ کعبؓ بھی اس دوڑ میں شریک تھیں۔ وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ آ گے بڑھیں اور موئے مبارک کی ایک لٹ اُٹھالی جو مرتے دم تک اُن کے پاس رہی۔ یہ تگ و دو جاری تھی کہ ہوا کا ایک نہایت تیز جھونکا آیا اور چاروں طرف بکھرے ہوئے بالوں کو ایک آن میں اُڑا کر مکے کی طرف حدودِ حرم میں لے گیا۔ یہ بشارت تھی ہمارے سفرِ عمرہ کی قبولیت کی۔لوگ سوال کئے کرتے تھے کہ سرکار دوجہاں ﷺ کے موئے مبارک دنیا بھر میں کیسے اور کہاں کہاں پہنچ گئے،اس واقعہ سے کسی کو کوئی شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ صحابہؓ موئے مبارک ﷺ کے حصول کے لئے کتنے بے تاب رہا کرتے تھے۔وہ جہاں گئے اپنے ساتھ یہ مبارک تبرک ساتھ لے گئے ۔
حدیبیہ سے واپسی پر مدینے کے راستے میں سورہ فتح نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو فتحِ مبین قرار دیا انا فتحنالک فتحاً مبین۔ جیسے ہی یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فوراً گھڑ سواروں کو بھیج کر اپنے جلیل القدر صحابہؓ کو اپنے پاس بلوایا اور اُنہیں یہ آیاتِ مقدسہ سنائیں۔ اُن کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کائنات میں مجھے اس سورۃ سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ صلح حدیبیہ بے شک فتح مبین ہی تھی۔ آنے والے وقت میں ثابت ہو گیا کہ صلح حدیبیہ کی سیاسی حکمت اور دور اندیشی کس طرح ہماری تاریخ پر اثر انداز ہوئی۔ اس سے پہلے قریش حضورؐ کو محض ایک سرکش ناقابلِ اعتنا باغی سمجھتے تھے۔ اب انہیں مجبوراً اُنہیں اپنا مدمقابل اور برابر کا حریف تسلیم کرنا پڑا اور ساتھ ہی ساتھ مدینے کی نوزائیدہ مملکتِ اسلامیہ کو بھی۔ مسلمانوں کا حقِ زیارتِ کعبہ تسلیم کرنے کا یہ مطلب تھا کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک مسلمہ مذہب ہے۔ دس سال تک لڑائی بند رکھنا طے پایا تو جنوب سے خطرہ ٹل گیا اور بھرپور تبلیغ کا موقعہ ملا۔ مختصراً صلحِ حدیبیہ تاریخِ اسلام کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے ہماری تاریخ کا دورِ اول ختم ہوا اور ایک نئے درخشاں مستقبل کا آغاز ہوا۔ یہ چھٹی ہجری کے موسمِ بہار کا وہ تحفہ تھا جس کے بعد ہم نے کبھی خزاں نہیں دیکھی۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں