حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر58
فتحِ مبین
عثمانؓ کو قریش سے گفت و شنید میں توقع سے زیادہ وقت لگ گیا۔ ہم سب پریشان تھے۔ اُن کی طرف سے کوئی خبر نہیں آ رہی تھی۔ اسی پریشانی کے عالم میں افواہ پھیل گئی کہ عثمانؓ کو قریش نے شہید کر دیا ہے۔ اب اضطراب حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ ہر چہرہ پژمردہ، ہر پیشانی پر فکر کے آثار۔ چھوٹے چھوٹے حلقوں میں لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس معاملے پر گفتگو کرتے نظر آتے تھے۔ قریش نے اپنی دشمنی میں ماہ ذی قعد کی حرمت کا پاس بھی نہیں کیا۔ سب نے اپنی تلواروں کے قبضوں پر ہاتھ رکھ کر خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ آنحضرتؐ نے بھی فرمایا کہ میں انتقام لئے بغیر یہاں سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اسی اثنا میں آنحضرتؐ پر وحی کی سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ وہ ایک کیکر کے درخت سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور بیعتِ جہاد کی دعوت فرمائی۔ یہ وہی بیعت ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہوا ہے۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ترجمہ: (اے پیغمبرِ) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے اللہ اُن سے خوش ہوا۔ (18-48)
سب نے عہد کیا کہ مر جائیں گے مگر میدان سے نہیں ہٹیں گے۔ سب سے پہلے بیعتِ رضوان کی سعادت عکاشہ بن محصِن کے بڑے بھائی ابوسنان بن محصنؓ کے حصے میں آئی۔ یہ عکاشہ سے بیس برس بڑے تھے۔ ان کا نام وہب تھا۔ اس کے بعد تو تانتا بندھ گیا۔ سب حضورؐ کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ راست اپنے ہی بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے۔ صرف ایک منافق جَدا بن قیس ایک اونٹ کے پیچھے چھپا رہا اور اس بدبخت نے بیعت نہیں کی۔
بیعت کا سلسلہ ختم ہوتے ہی سب نے تلواریں میان سے نکال لیں۔ ہمیں اب یقین تھا کہ مقابلہ ہو کر رہے گا اور یہ بھی کہ فتح انشاء اللہ ہماری ہو گی یا جامِ شہادت نصیب ہو گا جس سے روح میں ایک فرحت و شادمانی کا احساس تھا۔
اتنے میں عثمانؓ کی خیریت کی اطلاع آ ئی۔ کہنے کو تو حدیبیہ کے ایک نوخیز ہلکے سبز رنگ کی پتیوں سے بھرے ہوئے درخت کے نیچے پیش آنے والا یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا مگر اس کی بازگشت رہتی دنیا تک سنائی دیتی رہے گی۔ اطاعت، یقین، حوصلہ مندی، جرأتِ کردار، تسلیم و رضا، استقامت، قربانی اور بے مثل فدا کاری کے ملے جلے جذبات کا یہ وہ اظہار تھا جس سے آج تک روح میں ایک گونہ سرور ہے۔ عثمانؓ واپس تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ قریش کو آپ کے اصل مقصد کا علم ہو گیا ہے۔ وہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ انہیں حرمت والے مہینوں میں کسی کو حج و عمرہ سے روکنے کا حق نہیں ہے لیکن وہ صرف اس بار اجازت دینے سے قاصر ہیں۔
پھر اہلِ مکہ نے سہیل بن عمرو کو بھیجا جو قریش کے آخری قاصد تھے۔ سہیل بن عمرو نے معاہدہ کی جو شرائط پیش کیں وہ ہم سب کو یک طرفہ محسوس ہوئیں، لیکن جب آنحضرتؐ نے اُنہیں قبول فرما لیا تو کسی کو معترض ہونے کی گنجائش نہ رہی۔ معاہدے کے متن پر بسم الرحمن الرحیم کی بجائے سہیل کے کہنے پر بِاسْمِک الّٰلْھمَّ لکھا گیا۔ محمد رسول اللہؐ کی بجائے سہیل کے اصرار پر محمدؐ ابن عبداللہ تحریر ہوا۔ ایک شرط یہ تھی کہ اگر قریش کا کوئی فرد مسلمان ہو کر آئے تو محمد اُسے واپس کر دیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہو کر قریش کے پاس پہنچ جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ میں سوچتا ہوں کتنی بدگمانی تھی قریش کو اپنے لوگوں کے بارے میں اور کتنا اعتماد تھا پیغمبرِ آخر الزماںؐ کو اپنے دین کی تعلیم اور تربیت پر کہ انہیں کسی مسلمان کے کفارِ قریش سے جا ملنے کا ہلکا سا شائبہ بھی نہیں تھا۔ قریش کو البتہ تشویش تھی کہ مکے کی سرداری اور استحصالی نظام کے مقابلے میں مدنی معاشرے کا انسانی حقوق کی بحالی اور مساوات پر قائم نظام انتہائی پرکشش ہے جو کسی وقت بھی اُن کے لئے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ گویا قریش کی یہ شرط مدنی نظام کی افضلیت کا ایک خاموش اعتراف تھا۔ باقی شرائط بھی بظاہر یک طرفہ تھیں۔ مگر حضورؐ نے نہایت خندہ پیشانی سے قبول فرما لیں۔ چند مسلمانوں، خصوصاً عمرؓ نے اپنی پریشانی کا اظہار بھی کیا۔ یہ اس لئے کہ رحمتِ عالمؐ کی تعلیمات نے ذہنوں کو جکڑا نہیں تھا۔ غوروفکر کی اجازت ہی نہیں، ہمت افزائی کی جاتی تھی۔ ہر شخص اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتا تھا اور شخصی رائے کے آزادانہ اظہار کے بعد آخری فیصلہ اللہ کے رسولؐ کا ہوتا تھا۔ ان شرائط پر انہوں نے فیصلہ فرما دیا تو یہ تلخ گھونٹ سب نے حلق سے اُتار لیا۔
شرائط طے ہو گئیں تو معاہدے پر دستخطوں کی تیاری شروع ہو گئی۔ حضورؐ دائیں بائیں نظریں دوڑا رہے تھے کہ توثیق کے لئے کس کس کو بلائیں۔ اتنے میں باہر سے بڑی درد ناک چیخوں کی آواز سنائی دی۔ سب خیموں سے باہر نکل آئے۔ دیکھا تو سامنے ایک انتہائی دل دوز منظر تھا۔ ابوجندلؓ، سہیل بن عمرو کے چھوٹے بیٹے، چلاچلا کر مدد کے لئے پکار رہے تھے ۔ اُن کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ پاؤں میں بھاری بھاری بیڑیاں، چلتے تھے تو اُن کی جھنکار سنائی دیتی تھی۔ اُن کے ساتھ ہمارے ساتھیوں کا ہجوم تھا۔ ہر ایک دم بخود، مبہوت، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ سہیل کے بڑے بیٹے عبداللہ بن سہیلؓ، اللہ کے فضل سے پہلے ہی حلقہء اسلام میں آچکے تھے اور اس وقت ہم لوگوں میں شامل تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی کی حالتِ زار دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ بے ساختہ اُنہیں سنبھالنے کے لئے لپک کر آگے بڑھے۔ اتنے میں سہیل بن عمرو بھی خیمے سے باہر آ چکا تھا۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک ہاتھ سے عبداللہؓ کو دھکا دے کر پرے کیا اور ابوجندلؓ کی زنجیر کو، جو اُن کے گلے سے لٹک رہی تھی، پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ وہ زمین پر آ رہے۔ پھر اُسی زنجیر کے سرے کو گھما کر اس بے دردی سے اُن کے منہ پر مارا کہ شدتِ ضرب سے اُن کا چہرہ لہولہان ہو گیا۔ ساتھ ہی سہیل نے مڑ کر رسول اللہ ﷺ کی سمت دیکھا اور کہا کہ محمد ہمارا معاہدہ ابوجندل کے آنے سے قبل طے ہو چکا تھا۔ اُس کی رُو سے اب آپ لوگوں کو اسے میرے حوالے کرنا ہو گا۔
ہوا یہ تھا کہ ابوجندلؓ چند روز قبل اسلام لے آئے تھے۔ سہیل بن عمرو، جو اپنے بڑے بیٹے کے مسلمان ہونے کا غم بھی نہیں بھلا پایا تھا، ابوجندلؓ کے اسلام لانے کی خبر سن کر اتنا سیخ پا ہوا کہ اُس نے انہیں زنجیروں میں جکڑوا کر مکے کے کسی تہہ خانے میں قید کر رکھ تھا جہاں سے وہ کسی طرح زنجیریں توڑ کر آزاد ہو گئے اور سیدھا ہمارے خیموں کا رُخ کیا۔ یہاں اُن کے ساتھ یہ ماجرا ہوا۔
رسول کریمؐ نے، کہ صادق و عادل تھے، سہیل کی بات سن کر ایک لمحے کے توقف کے بغیر اعلان فرما دیا کہ ہاں واقعی ابوجندلؓ سہیل کے ساتھ جائیں گے۔ ابوجندلؓ جو انتہائی بے چارگی کی حالت میں حضورؐ کے فیصلے کے منتظر تھے ایک بار پھر زور زور سے دہائی دینے لگے۔ جو کچھ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی زبانی سنا، اُن کی فہم سے بالا تھا مگر حضورؐ نے آگے بڑھ کر اُن کے شانے پر ہاتھ رکھا، اُنہیں دلاسا دیا، صبر کی تلقین فرمائی اور کہا کہ وہ جود قادر و مختار ہے یقیناًاُن کے لئے کوئی سبیل پیدا کرے گا۔
رسالت مآبؐ کے یہ مختصر کلمات بارگاہِ الٰہی میں جس طرح مُستجاب ہوئے، یہ ایک الگ داستاں ہے۔ کبھی موقع ملا تو عرض کروں گا کہ حدیبیہ کے اسی مظلوم ابوجندلؓ نے اپنے ایک ہم خیال ابوبصیر کے ساتھ مل کر، معاہدے کی شرائط کے اندر رہتے ہوئے، مکے کے برخود غلط اور بہ زعم خویش بہت ذی عقل اور ہوشیار قریش کو ایسے ایسے ناکوں چنے چبوائے کہ اُن کی عائد کردہ احمقانہ شق اُن کے گلے کا ہار بن کر رہ گئی اور انہوں نے خود حضورؐ سے درخواست کی کہ وہ انہیں مدینے بلا کر اپنے پاس رکھیں۔ نہ ہُبل اور لات کی منت سماجت اُن کے کام آئی نہ اُن کی اپنی کوئی تدبیر۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں