حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر57
حضورؐ نے یہ سنتے ہی مجھے حکم دیا کہ میں کسی ایسے شخص کو لاؤں جو قافلے کو کسی متبادل، غیر معروف راستے سے لے جائے۔ قافلے میں بنو اسلم نامی ایک شخص شامل تھا جو صحرائے عربستان کے اس حصے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ میں نے اُسے حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا اور وہ قافلے کو عام راستے سے ہٹا کر سمندر کی طرف لے گیا اور وہاں سے ایک نہایت دشوار گزار راستے سے چلتا ہوا حدیبیہ کے درّے تک لے آیا۔ یہاں سے مکہ ایک منزل بھی نہیں تھا۔ سب کا اصرار تھا کہ یہ فاصلہ بھی لگے ہاتھوں طے کر لیا جائے، مگر وہ درّہ ختم ہوتے ہی حضورؐ کی اونٹنی قصواء بیٹھ گئی۔ چاروں طرف سے اُسے اُٹھانے کے لئے ’’ہَل ہَل‘‘ کا شور اُٹھتا رہا، مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ آوازیں بلند ہوئیں کہ قصواء ضد کر رہی ہے لیکن رسالت مآبؐ نے فرمایا کہ قصواء کسی اور کے حکم کی پابندی کر رہی ہے۔ ہم یہیں قیام کریں گے۔ چنانچہ حدیبیہ ہی میں خیمے نصب کر دئیے گئے۔ قصواء نے کسی اور کے حکم پر اس سے پہلے مدینے میں بھی ایک عظیم تاریخی فیصلہ کیا تھا جو ہم سب کو یاد تھا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خالد بن ولید جو مدینے سے آنے والے تمام جانے پہچانے راستوں پر ہماری تلاش میں بے نیل و مرام پھرتے پھراتے مکے کے نواح میں آئے تو یکایک ہمارے قافلے کو مکے سے اس قدر قریب دیکھ کر سخت پریشان ہو گئے اور انہوں نے فوراً مکے جا کر قریش کو ہماری آمد کی اطلاع دے دی۔ اب قریش کے پاس زیادہ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔
بنو خزاعہ جو کبھی خانہء کعبہ کے کلید بردار تھے قریش کے حریفوں میں تھے اس لئے کہ بنوبکر جن سے اُن کی دشمنی تھی قریش کے حلیف بنے ہوئے تھے۔ بنی خزاعہ کے قبیلے بنو اسلم، بنو کعب اور بنو مصطلق پیغمبرِ اسلامؐ کو اچھا سمجھتے تھے۔ حالانکہ وہ ابھی تک حلقۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ قریش کا اُن سے براہِ است کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ لیکن وہ ان کو مشکوک نظروں سے دیکھتے تھے۔ جس وقت قریش کو خالد بن ولید نے ہمارے حدیبیہ پہنچ جانے کی اطلاع دی اُس وقت بنو خزاعہ کا ایک سردار بدیل بن ورقا بھی وہیں مکے میں موجود تھا۔ وہ یہ خبر سنتے ہی حدیبیہ روانہ ہو گیا۔ اُس نے سرورِ کائناتؐ کو بتایا کہ قریش قسمیں کھا کھا کر کہہ رہے ہیں کہ جب تک ہمارا ایک آدمی بھی زندہ ہے ہم محمدؐ اور اس کے ساتھیوں کو مکے میں نہیں داخل ہونے دیں گے۔ یہ سن کر نبئ رحمتؐ نے نہایت نرمی سے اُسے بتایا کہ وہ قریش کو مطلع کر دیں کہ ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے۔ ہم اللہ کے گھر کا طواف کریں گے اور واپس مدینہ چلے جائیں گے۔ ہم کسی سے فساد نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر کوئی ہمارا راستہ روکے گا تو اُس سے ہم جنگ کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر فرمایا اگر قریش کو سوچنے کے لئے کچھ اور وقت درکار ہے تو ہم تیار ہیں۔ وہ جو احتیاطی تدابیر کرنا چاہتے ہیں کر لیں مگر اللہ کے گھر کا راستہ نہ روکیں۔
بدیل نے مکہ جا کر رسول اللہ ﷺ سے اپنی ملاقات کی تفیل سے قریش کو آگاہ کیا اور مسلمانوں کے پُرامن مقاصد بھی بیان کئے مگر قریش کی کوئی تسلی نہیں ہوئی۔ بنوثقیف کے عروہ نے پیشکش کی کہ وہ خود حدیبیہ جا کر ساری معلومات حاصل کر کے قریش کو مطلع کرے گا۔ میں قربانی کے اونٹوں کے پاس ناجیہؓ سے باتیں کر رہا تھا کہ عروہ کے آنے کی طلاع ملی۔ میں فوراً لپک کر گیا اور عروہ سے اُس کے آنے کا قصد پوچھا۔ اُس نے اپنا مقصد بیان کیا تو میں اُسے حضورؐ کے خیمے میں لے گیا۔ مغیرہ بن شعبہؓ جو خیمے سے باہر ہی کھڑے تھے اور حضورؐ کے خدام میں شامل تھے ہمیں اندر لے گئے۔ میں نے عروہ کا تعارف کرایا اور چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ عروہ نے گفتگو شروع کی تو بدویانہ بے تکلفی میں باتیں کرتے کرتے حضورؐ کی ریشِ مبارک کو ہاتھ لگا دیا۔ میں آگے بڑھنے ہی کو تھا کہ مغیرہؓ نے اس کے ہاتھ پر اپنی تلوار کا چپٹا حصہ مار کر کہا کہ وہ آئندہ یہ گستاخی نہ کرے۔ عروہ فوراً سنبھل کر بیٹھ گیا۔ مگر چند ہی لمحوں بعد اُس نے عادتاً دوبارہ جب کسی بات پر زور دینے کے لئے ریشِ مبارک کی طرف ہاتھ بڑھایا تو مغیرہؓ نے زور سے تلوار کا چپٹا حصہ اس کے ہاتھ پر مار کر کہا اپنا ہاتھ دور رکھو ورنہ یہ ہاتھ ہی نہیں رہے گا۔ میں جانتا تھا کہ اس کی نیت نیک تھی اور عروہ محض اپنی عادت سے مجبور تھا مگر ہمارے لئے یہ بے تکلفی حضورؐ کی شان میں گستاخی تھی جو ہماری برداشت سے باہر تھی۔ عروہ معاملہ فہم تھا، بات سمجھ گیا اور چند لمحوں بعد جب وہ حضورؐ سے گفتگو کر کے باہر نکلا تو اُس نے دوسرے خیموں میں جانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے اُسے ساتھ لے جا کر سب اطراف کی سیر کرائی۔ وہ کئی گھنٹے ہمارے ساتھ رہا اور جب واپس گیا تو اُس نے قریش کو اپنے دورے کی سرگزشت سنائی۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ وہ قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی جا چکا ہے۔ لیکن جیسا احترام اُس نے محمدؐ کا دیکھا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی اس نے کہیں نہیں دیکھا۔ اُن کے ماننے والے اُن پر نچھاور ہوئے جاتے ہیں۔ وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کے پانی کے ایک ایک قطرے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں اور جس کے ہاتھ ایک بوند بھی آ جاتی ہے وہ اُسے خیرو برکت کے لئے اپنے جسم پر ملتا ہے۔ میرا خیال ہے محمدؐ کی تجویز مناسب ہے اور ہمیں تسلیم کر لینی چاہئے۔
اِدھر سرورِ کائناتؐ نے بھی بنوکعب کے خرِاشؓ کو اپنا سفیر بنا کر قریش کی جانب روانہ کر دیا۔ عکرمہ بن ابوجہل نے اس کی بات سننے سے پہلے ہی اس کے اونٹ کو باندھ کر اسے گرفتار کر لیا مگر بعد میں لوگوں کے کہنے سننے پر اُسے رہا کر دیا۔ خراشؓ نے واپس آ کر حضورؐ کو عرض کی کہ میں ایک بے وزن آدمی ہوں۔ آپؐ کسی ایسے شخص کو بھیجئے جس کا مکے میں کوئی حلیف ہو۔ چنانچہ پہلے حضورؐ نے حضرت عمرؓ کو تجویز فرمایا اور پھر عمرؓ کے کہنے پر حضرت عثمانؓ کا نام تجویز ہوا، کیونکہ اُن کے قبیلے کے کئی عزیز مکے میں رہتے تھے۔ عثمانؓ مکے پہنچے تو قریش نے اُنہیں تمام مسلمانوں کو مکے آنے کی اجازت تو نہیں دی البتہ انہیں کہا کہ وہ خود خانہء کعبہ کا طواف کر لیں۔ مگر عثمانؓ نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ ابن ابیؓ کو بھی قریش اپنا ہم خیال ہی سمجھتے تھے۔ اُنہیں بھی قریش نے طواف کی پیشکش کی مگر انہوں نے جواباً کہا کہ جب تک اللہ کا رسولؐ طواف نہیں کر لیتا، میں طواف نہیں کر سکتا۔ حضورؐ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے خوشی کا اظہار فرمایا۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں