حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر56
سفرِ حُد یبیہ
جنگِ احزاب کو ایک سال ہو گیا تھا۔ قریش ابھی تک اپنے زخموں کو چاٹ رہے تھے۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ جنگِ خندق میں اپنی شکستِ فاش کا اوروں کو تو کیا، خود اپنے آپ کو کیا جواز دیں۔ کیا بتائیں اپنے حلیفوں کو کہ کیا ہوا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں اتنی زبردست تیاریوں کے بعد جو حملہ کیا گیا تھا وہ کیسے ہمیشہ کے لئے اُن کی پیشانی کا سیاہ داغ بن کر رہ گیا۔ ابھی تک اُنہیں اپنی شکست کا صحیح پس منظر جاننے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ انہیں ابھی تک یہ باور نہیں آ رہا تھا کہ وہ اُس ازلی جنگ کے بد نصیب فریق ہیں جو روزِ اول سے حق و باطل کے درمیان چلتی آ رہی ہے اور جس میں بالآخر باطل کی قوتوں کو ہمیشہ سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ سعد اُلاوس سعد بن معاذؓ کی شہادت کا سانحہ بھی گزرا اور ایسے کہ مدینے کے زمین و آسمان ہل گئے۔ اچھی خبریں بھی ملتی رہیں۔ مختلف قبائل کے وفود آتے رہے اور حلقۂ اسلام وسیع ہوتا چلا گیا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دن شوال کے مہینے کی آخری تاریخیں تھیں کہ رسولِ کریمؐ نے ہمیں اپنا ایک خواب سنایا کہ وہ احرام باندھے سر کا حلق کرائے، خانہء کعبہ کی کلید ہاتھ میں لئے خانہ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اعلان فرما دیا کہ وہ عمرے کے لئے تشریف لے جائیں گے۔ ذی قعد کی پہلی تاریخ کو پیر کے دن حضورؐ نے مدینے سے کوچ فرمایا۔ کم و بیش پندرہ سو صحابہ ہمرکاب تھے۔ اُن کے ساتھ قربانی کے لئے ستّر اُونٹ بھی تھے۔ عمرؓ اور سعد بن عبیدہؓ کا خیال تھا کہ ہم دشمنوں کے علاقے میں جا رہے ہیں۔ قریش سے راستے میں بھی خطرہ ہے۔ اس لئے سب لوگ مسلح ہوں۔ مگر حضورؐ نے فیصلہ فرمایا کہ کوئی اسلحہ ساتھ نہیں ہو گا۔ صرف تلواریں ہوں گی۔ وہ بھی میان میں رہیں گی۔ خود حضور علیہ الصلوات واتسلیم نے تلوار بھی نہیں لی۔ انہوں نے فرمایا کہ اُن کا مقصد عمرہ اور صرف عمرہ ہے۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہجرت کے بعد ہم پہلی بار مکہ جا رہے تھے۔ مکہ جہاں میرا سارا بچپن گزرا تھا۔ مجھے اکثر اس شدت سے یاد آتا تھا کہ اکثر میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ ایک بار میں نے مکے کی یاد میں چند اشعار بھی کہے تھے:
’’کاش میں ایک رات اُس میدان میں بسر کرتا جس میں میرے اردگرد ازخرو جلیل اُگی ہوئی ہوں۔ کیا وہ وقت کبھی پھر آئے گا کہ میں کوہ مجِنہ کے چشموں سے سیراب ہوں۔ کیا میں اپنی زندگی میں کبھی پھر مکے کی پہاڑیوں کے بالمقابل کھڑا ہوں گا۔‘‘
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم نئے نئے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے۔ یہاں کا موسم غیر مانوس اور آب و ہوا ہمارے لئے بالکل مختلف تھی۔ میں اور عامر بن فہیرہؓ دونوں اُن ابتدائی دنوں میں ابوبکرؓ کے گھر میں رہتے تھے۔ عائشہؓ کی کچھ دنوں پہلے رخصتی ہوئی تھی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ مدینے میں موسمی بخار کی وبا پھیل گئی اور ہم تینوں اُس کی لپیٹ میں آ گئے۔ بخار اتنا شدید تھا کہ ہم تینوں کئی کئی گھنٹے نیم بے ہوشی کے عالم میں رہتے تھے۔ ایک دن عائشہؓ اپنے والد سے ملنے آئیں تو ہماری حالت دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں۔ انہوں نے اپنے والد کو بیمار دیکھ کر اُن کا حال دریافت کیا تو ابوبکرؓ نے ایک شعر میں جواب دیا۔ عائشہؓ کم عمر تھیں۔ اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو عامرؓ سے رجوع کیا۔ اُن کا حال پوچھا تو انہوں نے بھی جواباً ایک شعر پڑھ دیا۔ اب تو عائشہؓ واقعی بہت پریشان ہو گئیں۔ میری حالت دونوں سے قدرے بہتر تھی۔ مگر اپنی بیماری کے عالم میں مجھے مکہ بہت یاد آ رہا تھا۔ میں نے یہی شعر جو ابھی آپ کو سنائے ہیں اُن کو سنائے تو وہ اس قدر گھبرا گئیں کہ اُلٹے قدموں واپس چلی گئیں اور حضورؐ کو جا کر کہا کہ تینوں کے تینوں پر پاگل پن کا اثر ہے۔ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ دیوانگی طاری ہے۔ پھر انہوں نے اپنی یاد داشت سے جو کچھ سنا تھا حضورؐ کو سنایا تو حضورؐ نے مسکرا کر اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ مدینے کی آب و ہوا، پانی اور اناج کو سب مہاجرین کے لئے مکے سے بھی زیادہ مفید اور موزوں بنا دے۔ اُن کی یہ دعا قبول ہوئی اور مدینہ ہمیں ہر طرح سے راس آ گیا۔
آج ایک بار پھر مکے کے درودیوار کا نقشہ میری نظروں کے سامنے تھا۔ ایک ایک گلی ایسے جیسے سامنے نظر آ رہی ہو اور اُن میں گھرا ہوا اللہ کا گھر۔
پہلی منزل پر آرام کے بعد رسولِ اکرمؐ اور اُن کے ساتھ اکثر صحابہ نے احرام باندھ کر عمرے کی نیت کے دو دو نفل ادا کئے۔ سرورِ کائناتؐ نے اپنی قربانی کے اونٹ منگوانے کا حکم دیا۔ میں لپک کر ناجیہؓ کو بلا لایا۔ بنو اسلم سے تعلق رکھنے والے یہ صحابی قربانی کے اونٹوں کے نگراں تھے۔ حضورؐ نے اپنے اونٹ پر دائیں جانب نشان لگایا اور اسے ہار پہنائے۔ باقی لوگوں کو بھی تاکید کی کہ وہ بھی اپنے اونٹوں کو اسی طرح قربانی کے لئے تیار کریں۔ تیاری مکمل ہوتے ہی انہوں نے کوچ کا اعلان فرمایا اور لبیک اللہم لبیک کا نعرہ بلند فرمایا۔ سب اس نعرے میں شریک ہو گئے اور کوہ و دمن اللہ کے حضور اس اعلانِ سپردگی کی بازگشت سے گونج اُٹھے۔ بہار کا موسم تھا۔ ہوا معتدل تھی۔ دور دور تک پھیلی ہوئی جنگلی جھاڑیوں پر چھوٹی چھوٹی ہلکے سبز رنگ کی پتیاں پھوٹ رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے زردی مائل بھورے ریگستان نے کوئی گہنا پہن لیا ہے۔ ہوا چلتی تھی تو نوخیز پتیاں یوں جھلملا اٹھتی تھیں کہ جیسے سارا صحرا کھلکھلا کر ہنس رہا ہو۔ جھاڑیوں کی اوٹ میں کہیں کہیں جنگلی جانور بھی نظر آ جاتے تھے جو ہمیں دیکھتے ہی خوفزدہ ہو کر اِدھر اُدھر بھاگ جاتے تھے۔ ایک مقام پر ایک گورخر نظر آیا تو ابوقتادہؓ جو احرام میں نہیں تھے اس کے پیچھے روانہ ہو گئے اور رات گئے اسے شکار کر لائے۔ حضورؐ نے خود اور ان کی اجازت سے محرِم حضرات نے بھی اس کا گوشت کھایا۔ قافلے میں وہ تمام نو مسلم بھی شامل تھے جنہوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔ حارثہ ابن سعید کے آٹھوں بیٹے میرے دوست تھے۔ ان میں سے دو سے مجھے بہت قرب حاصل تھا کیونکہ وہ اصحابِ صفہ میں شامل تھے۔ خراش بن امیہؓ خزاعی جو بنو مخزوم کے حلیف تھے، خفافؓ اور اُن کے والد ایما بن رحضہ الغفاریؓ۔ شریدؓ بن سوید ثقفیؓ بھی تھے جو چند روز قبل ہی اسلام لائے تھے اور زید بن خالد الجھنیؓ بھی۔ یہ وہی زیدؓ تھے جن کے ہاتھ میں فتح مکہ کے دن قبیلۂ جہینیہ کا علم تھا۔
روانگی سے قبل سرورِ دو عالمؐ نے قبیلۂ قزاعہ کی شاخ کعب سے ایک شخص کو پیشگی روانہ فرما دیا تھا تاکہ وہ ہمیں قریش کے ردِّعمل سے مطلع کرتا رہے۔ جوں ہی ہمارا قافلہ غسان پہنچا تو مخبر نے بتایا کہ قریش سخت تذبذب کے عالم میں ہیں۔ متولیانِ کعبہ کی حیثیت سے وہ کسی کو طوافِ کعبہ کی اجازت دینے سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہی اُن کی فضیلت کا ایک بڑا جواز تھا اور دشمنانِ اسلام کی حیثیت سے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ محمدؐ کثیر تعداد میں اپنے صحابہؓ کے ساتھ مکے میں داخل ہوں اور عزت و وقار سے عبادت کر کے واپس چلے جائیں۔ تمام عربستان میں چہ میگوئیاں شروع ہو جائیں گی۔ قریش کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی کہ اُن کا سب سے بڑا منہ بولا دشمن خود اُن کے شہر میں شان و شوکت سے داخل ہو کر، اطمینان سے عبادات کر کے اُن کے سینے پر مونگ دلتا ہوا تزک و احتشام سے واپس چلا گیا۔ تمام صحرائے عرب میں قریشِ مکہ کی ہوا اُکھڑ جائے گی۔ انکار کریں تو ایک عظیم روایت کی قربانی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ تو صرف کعبے کے متولی تھے اور کعبہ تمام عرب کی یکساں ملکیت تھا۔ اقرار کریں تو قریہ قریہ بدنام ہوتے ہیں۔ بیچ کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ پھر بھی اپنے چند حلیفوں کی رائے کے خلاف انہوں نے خالد بن ولید کو روانہ کر دیا کہ وہ مسلمانوں کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔ ہمیں بھی راستے میں یہ خبر مل گئی۔(جاری ہے)
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر57 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں