حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر55

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر55
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر55

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ابوسفیان حضورؐ کا بچپن کا ساتھی تھا۔ دونوں ساتھ پلے بڑھے تھے۔ وہ اس شعلہ خُو کے مزاج سے واقف تھے۔ اُس کی کمزوریوں سے آشنا تھے۔ اُس کی حد سے بڑھی ہوئی انا کو جانتے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ وہ جب کسی بات پر اَڑ جاتا تھا تو کسی کی نہ سنتا تھا۔ خود سری جو خودپرستی کی حد تک بڑھی ہوئی تھی اس کے خمیر کا حصہ تھی۔ برخود غلط اتنا تھا کہ اپنی رائے کے مقابلے میں بہتر سے بہتر رائے کو بے وقعت سمجھتا تھا۔ خود کو عقلِ کل جانتا تھا۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا اُس کے لئے تقریباً ناممکن تھا۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضورؐ بار بار نعیمؓ سے تفصیل دہرانے کو کہتے۔ فرماتے اچھا تو جب تم نے یہ کہا تو پھر ابوسفیان نے کیا کہا۔ جب تم نے پہلے پہل بات چھیڑی تو اس کا ردِعمل کیا تھا۔ تم نے پہلے پہل بات کیسے شروع کی۔ اُٹھ کے آئے تو ابوسفیان کے چہرے پر کیا تاثر تھا۔ ہر بات مسکرا مسکرا کر بار بار پوچھتے۔ ہم سب کے سر سے بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بہت بڑا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔ آویزش کی بنیاد پڑ گئی تھی اور دشمنوں کے درمیان ایک دوسرے پر اعتبار اُٹھ گیا تھا۔ جو اُن حالات میں ہمارے لئے ارحم الراحمین کا احسانِ عظیم تھا۔ اب ہمیں احساس ہو چلا تھا کہ دشمن کی مہم جوئی عملاً بے اثر ہوتی جا رہی ہے۔ تین دن اور گزر گئے اور صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ صرف یہ اطلاع ملتی رہتی تھی کہ یہود اور قریش نے جو بھان متی کا کنبہ جوڑا تھا اور جس کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ بس ایک دن کا کام ہے۔ مسلمانوں کو ختم کر کے لوٹ مار کریں گے اور فاتح و کامران اپنے اپنے گھروں کو واپس آ جائیں گے۔ وہ کنبہ اب بے یقینی کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے منحرف ہوتا جا رہا تھا۔ اور اب انہیں کسی کامیابی کا یقین نہیں رہا تھا۔ ہمارے اپنے خیموں میں بھی بھوک اور سردی سے حالات دگر گوں تھے۔ 

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خالق و مالکِ کائنات سے دعائیں مانگتے تھے کہ یہ عذاب جلد ختم ہو۔ نبی پاکؐ ساری ساری رات عبادت اور دعاؤں میں گزارتے تھے۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مجھے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ کیسے ایک یخ بستہ رات میں برق و بادوباراں کا طوفان آیا اور کیسے دشمنوں کا ایک ایک خیمہ اکھڑ کر ہوا کے تھپیڑوں میں اُڑتا پھرا، کیسے دشمنوں کے سب سے بڑے سرغنہ ابوسفیان نے محاصرہ توڑ کر واپس جانے کا اعلان کیا اور کسی کے جواب کا انتظار کئے بغیر خود مکے کی طرف روانہ ہو گیا۔ 
حضورؐ کے حکم پر حذیفہؓ خندق کے اُس پار گئے اور اپنی آنکھوں سے سارا ماجرا دیکھ کر حضورؐ کو سنایا۔ ہم سب نے کلمۂ شکر ادا کیا۔ علی الصبح رسولِ کریمؐ نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا۔ اذان میں جب میں نے اللہ اکبر کے الفاظ ادا کئے تو خندق کے پار خیموں کی تباہی اور دشمن کی پسپائی کا منظر مجھے اللہ اکبر کی تفسیر دکھائی دیا۔ دھندلی دھندلی روشنی میں صاف نظر آ رہا تھا کہ اُدھر کوئی ذی روح موجود نہیں ہے۔ تمام خیمے اُکھڑے پڑے ہیں۔ چاروں طرف بکھرا ہوا سازوسامان گواہی دے رہا تھا کہ غنیم کس افراتفری کے عالم میں فرار ہوا ہے۔ اسی موقع پر سورۂ احزاب کی نویں آیت نازل ہوئی، جس میں ربِّ ذوالجلال والا کرام نے اس احسان کا بیان فرمایا ہے۔ اذان کے بعد اقامت ہوئی۔ ہادئ برحقؐ نے امامت فرمائی۔ ہر شخص دل ہی دل میں شکر کے ہزار ہزار سجدے کر رہا تھا۔ سب کی آنکھیں رحمان الرحیم کے کرم سے اشکبار تھیں۔ نماز پڑھ کر سب اپنے اپنے خیموں کی طرف روانہ ہو گئے لیکن میں دیر تک اُجڑے اکھڑے خیموں کو دیکھتا رہا۔ میرے لبوں پر یہ کلمہ جاری تھا لاحول والاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔ جسے میں اکثر رسول اللہ ﷺ کے منہ سے سنا کرتا تھا۔
میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا وکفی بَربِّکَ ہادی و نِصیْرا ،اللہ بلند و برتر کے سوا کوئی اور طاقت، کوئی قوت نہیں۔ وہی نصیر ہے، وہی سمیع ہے۔ وہی یکتا و یگانہ، دلوں کے راز جاننے والا وہ طاقت رکھتا ہے کہ جو وہ چاہے وہ ہو جائے۔ وہ جب اپنے امکانات کے چھپے ہوئے خزانے پر ارادۂ تخلیق کی نظر ڈالتا ہے تو غیب سے اشیاء خلعتِ وجود سے آراستہ ہو ہو کر پردۂ ہستی پر آنے لگتی ہیں۔ وہ ہر لحظہ اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ یہ کوتاہ فہم اور بدنہاد لوگ جو ہمارے خلاف، ہمارے دین کے خلاف محض اپنی تعداد، اسلحہ اور نخوت کے زور پر اُمڈ آئے تھے اُس ذاتِ مطلق کے دائرۂ اختیار کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے۔ وہ خود پرست، بدخواہ، اپنی قوت کے بل پر اپنے تئیں مختارِ کُل ہونے کا زعم رکھتے تھے، گویا وہ خود اپنے آپ کو نعوذ باللہ، چھوٹا موٹا خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ پھر مالک و مختارِ مطلق نے اپنی قدرت سے ان کی خود فریبی اور خام خیالی کا پردہ چاک کر دیا۔ اور ایسے خارج ازگمان و قیاس طور پر، کہ اس کی دنیاوی معنوں میں نہ کوئی توجیہہ ہے نہ کوئی تاویل۔ بے شک وہی معز و مذل ہے۔ اس کی قوت کے آگے کوئی قوت نہیں۔ اس کی رحمت کے آگے کوئی رحمت نہیں اور کوئی مددگار نہیں اُس کے سوا۔ نہ کوئی اُس سے زیادہ منتقم اور سریع الحساب ہے، عظمت ہے تو صرف اُسی کی۔ وہی کبریا ہے اور صرف اُسی کی بزرگی لائقِ حمد و ستائش ہے۔ اب آپ بھی ہند کی طرح کہیں گے کہ میں وعظ کر رہا ہوں۔
میں اپنے خیالات کی رو میں بہا جا رہا تھا۔ خالق کائنات کی گمراہ مخلوق اللہ سبحانہ‘ کی منشا اور ارادے کے خلاف کیا کیا چالیں چلتی ہے۔ کدھر کدھر کا رُخ کرتی ہے نہیں جانتی کہ مشرق بھی اللہ کا ہے مغرب بھی، شمال بھی اور جنوب بھی، سب کچھ اسی مالکِ کون و مکاں کی ملک ہے۔ وہ ہر جگہ موجود ہے۔ اس کی ذات سے مفر ممکن نہیں۔ یہ بھی اُسی کو علم ہے کہ عساکرِ کفار نے دنیاوی طاقت کے باوجود اپنی بے بسی اور زبوں حالی سے کوئی سبق بھی حاصل کیا یا نہیں۔ ویسے اس سبق کی توفیق بھی اُسی جل وعُلا، احکم الحاکمین کی جانب سے ملتی ہے۔ میں پتہ نہیں کتنی دیر اور انہیں خیالوں میں گم رہتا کہ میرے کانوں میں کوچ کا اعلان گونجا۔ اعلان سنتے ہی میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور کوچ کے انتظامات میں لگ گیا۔ حضورؐ کے خیمے کا سارا سامان اور خیمہ اکھاڑ کر اونٹ پر لادا اور اُن کی ہمرکابی میں مدینے کا رُخ کیا۔ راستے بھر سوچتا رہا کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ‘ کا مجھ پر کتنا کرم ہے کہ نصرت و کامرانی کی ایک اور اذان میرے حصے میں آئی۔(جاری ہے)

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں