حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر54
عمر بن عبدالود نے مبارزت طلب کی اور علیؓ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ باقی اُلٹے قدمے لوٹے اور آنا فاناً خندق پار کر گئے۔ لیکن نوفل کا گھوڑا خندق پار نہ کر سکا اور سوار سمیت خندق میں گر گیا۔ نوفل پر مسلمانوں نے پتھروں کی بوچھاڑ کر دی۔ آخر اُس بدنصیب نے خود ہی درخواست کی کہ اس سے بہتر ہے اُسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ چند مسلمان نیچے اُترے اور اُسے قتل کر کے اُس کی لاش پر مٹی پھینک دی۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابھی میں نے کہا تھا کہ صورتِ حال اب بالکل واضح ہو گئی تھی مگر درپردہ دو شخص ایسے کردار ادا کر رہے تھے جو بے حد اہمیت کے حامل تھے اور جس سے عام لوگ بے خبر تھے۔ ایک تو حئ بن اخطب کا کردار تھا جو بنوقریظہ کے درپے تھا کہ وہ محمدؐ سے اپنا معاہدہ توڑ دیں۔ بنوقریظہ کا سردار کعب ابن سعد اور بنوقریظہ کے تمام لوگ اسے منحوس سمجھتے تھے۔ کیونکہ اُس کی وجہ سے بنونضیر پر آفت نازل ہوئی تھی۔ جب حئی بن اخطب بنوقریظہ کے قلعے پر پہنچا تو اس کا نام سن کر کعب نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ بڑی منت سماجت کے بعد اُس نے دروازہ کھلوایا تو کعب اُس کی کوئی بات سننے پر رضامند نہ نظر آیا۔ حئی اپنے دلائل پیش کرتا گیا اور آخر کعب کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لے آیا۔ آخری بات اس نے یہ کی کہ اول تو قریش کی ناکامی کا کوئی امکان ہی نہیں اور بالفرض اگر حجت کی خاطرمان بھی لیا جائے تو حئی، بنوقریظہ کے قلعے میں بنوقریظہ کے دوش بدوش محمدؐ کی انتقامی کارروائی کا مقابلہ کرے گا، اُن کے ساتھ جان دے گا۔ کعب اُس کی لچھے دار باتوں میں آ گیا۔ حئی نے اُن کا تحریری معاہدہ منگوایا اور اپنے ہاتھوں سے اُس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کر دیا۔
کعب نے جب اپنے قبیلے کے لوگوں کو یہ خبر سنائی تو ان میں سے اکثر نے اس کی مخالفت کی مگر پس و پیش کا وقت اب گزر چکا تھا اور کعب نے کفار کی حمایت کی ٹھان لی تھی۔
خندق کے اُس پار بنو قریظہ میں بھی منافقین کی خاصی تعداد اپنے کاموں میں سرگرم تھی۔ اُن کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے کانوں میں بھنک پڑی کہ بنوقریظہ معاہدہ منسوخ کر چکے ہیں۔ وہ بے حد پریشان ہو گئے انہوں نے فوراً اوس کے سعد بن معاذؓ، خزرج کے سعد بن عبادہؓ، زبیرؓ اور اُسید بن حُضیرؓ کو اس ناگہانی خبر کی تصدیق کرنے کے لئے بھیجا۔ یہ لوگ بنوقریظہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے انہیں رسالت مآبؐ کے خلاف نہایت توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے سنا۔ بنوقریظہ نے اُن کی ایک دلیل نہ سنی۔ واپس آ کر انہوں نے بڑی پردہ داری سے حضورؐ کو صورتِ حال سے مطلع کر دیا۔ نبی اکرمؐ نے اُن کی روداد سُن کر بآواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں کو حوصلہ بلند رکھنے کی تلقین کی۔
دوسرا اہم کردار اس معرکے کا نعیم بن مسعودؓ تھے جو اس وقت سامنے آئے جب بنوقریظہ کی بدعہدی سے حضورؐ بے حد پریشان تھے۔ دشمنوں کی صفوں میں بھی کچھ پریشانیاں تھیں۔ بنوغطفان کا قریش اور یہود سے کوئی اصولی معاہدہ نہیں تھا وہ انہیں لوٹ مار اور خیبر کی فصل کے نصف حصے کا لالچ دے کر ساتھ لائے تھے۔ اب بنو غطفان محاصرے کے طول سے گھبرا رہے تھے۔ اپنی اور اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی خوراک کی کمی انہیں بدحال کئے دے رہی تھی۔ دو ہفتے گزر چکے تھے۔ ہر روز اُن کے کئی گھوڑے بھوک سے نڈھال ہو کر مر جاتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا ایک نمائندہ حارث غطفانی محسنِ عالمؐ کی طرف بھیجا اور کہا کہ اگر آپ ہم کو مدینے کی کھجوروں کی فصل سے نصف حصہ دینے پر رضا مند ہوں تو ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ مگر انصار مدینہ اس پر راضی نہ ہوئے۔
نعیمؓ بنو غطفان کی شاخ بنو اشجع کے فرد تھے اور اپنے قبیلے کے ساتھ اس مہم میں اُن کے شریک تھے۔ جنگِ احزاب ہی کے دنوں میں انہوں نے اپنے قلب میں اسلام کی روشنی محسوس کی اور ایک دن بے قرار ہو کر چھپتے چھپاتے مدینے پہنچے اور سرورِ دو عالمؐ کے خیمے میں حاضر ہو گئے۔ نبی اکرمؐ انہیں دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیسے آنا ہوا۔ نعیمؓ نے اپنا مدعا بیان کیا اور بیعت کر کے باقاعدہ حلقۂ اسلام میں داخل ہو گئے۔ قلب میں اسلام کی شمع جلی تو اسلام کا درد بھی محسوس ہوا۔ حضورؐ سے پوچھنے لگے کہ دریں حالات وہ دین کی کیا خدمت بجا لا سکتے ہیں۔ آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اسلام دشمن قبائل میں جس طرح ممکن ہو پھوٹ ڈالو۔ نعیمؓ نے پوچھا کہ اگر مجھے اس سلسلے میں تھوڑی بہت دروغ گوئی کر کے کسی کو فریب دینا پڑے تو۔ حضورؐ نے معاً فرمایا:
’’جنگ تو ہے ہی سراسر فریب‘‘۔
نعیمؓ بارگاہِ رسالت سے اٹھے تو مکمل طور پر بدلے ہوئے انسان تھے۔ سیدھے بنوقریظہ کے پاس پہنچے۔ کعب نے اُن کی بڑی آؤ بھگت کی، لیکن نعیمؓ نے کہا کہ اس وقت میں اپنی خاطر تواضع کرانے نہیں آیا بلکہ تم کو ایک بڑی مصیبت سے خبردار کرنے آیا ہوں۔ محمدؐ سے پیمان شکنی ہو سکتا ہے تمہیں بہت مہنگی پڑے۔ کعب جو یہ سننے کے لئے بالکل تیار نہیں تھا ایک دم چوکنا ہو گیا۔ نعیم نے کہا جنگ بہر نوع جنگ ہے اور آخری میدان کسی کے ہاتھ بھی رہ سکتا ہے۔ اگر قریش اور بنو غطفان وغیرہ کامیاب ہوتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اُس ایک فیصد اتفاق سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ کسی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ جائے اور قریش اپنے ساتھیوں سمیت اپنے گھروں کا رُخ کر جائیں، پھر تمہارا کیا حشر ہو گا۔ تمہیں تو یہاں مسلمانوں کے درمیان ہی رہنا ہے۔ مسلمانوں کے انتقام کے تصور ہی سے میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ تم لوگوں کا تو نشان باقی نہیں رہے گا۔ کعب یہ باتیں غور سے سن رہا تھا۔ نعیمؓ کے خدشات بنو قریظہ کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوئے۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ معاہدہ تو وہ توڑ چکے تھے، بلکہ مسلمانوں کے ایک وفد کے سامنے رسولِ اکرمؐ کے لئے نہایت اہانت آمیز لفظ بھی استعمال کر چکے تھے۔
نعیمؓ نے انہیں مشورہ دیا کہ قریش اور بنوغطفان کو واقعی پابند کرنے کے لئے کہ وہ انہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر فرار نہ ہو جائیں بنوقریظہ کو چاہئے کہ وہ ضمانت کے طور پر دونوں بڑے قبیلوں سے کچھ سربرآوردہ شخصیتوں کو اپنے پاس بطور ضمانت رکھ لیں تاکہ اگر قریش اور بنوغطفان کے دل میں کسی وقت یہ خیال آ بھی جائے کہ وہ بنو قریظہ کو اپنے حال پر چھوڑ کر واپس چلے جائیں تو اس پر عمل کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں۔
بنوقریظہ کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ یہ کہہ کہ نعیمؓ سیدھے ابوسفیان کے خیمے میں پہنچے اور کہنے لگے کہ میں نے کچھ باتیں سنی ہیں جن کا آپ کو علم ہونا چاہئیے۔ ابو سفیان نے وضاحت چاہی تو انہوں نے سخت رازداری کا وعدہ لے کر کہا مجھے اطلاع ملی ہے کہ بنوقریظہ مسلمانوں سے معاہدہ توڑ کر اپنے فیصلے پر بہت پچھتا رہے ہیں۔ بے حد پشیمان ہیں اور اب وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی سابقہ کارروائی کی تلافی کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہوں نے طے کیا ہے کہ کسی طرح قریش اور غطفان کے چند اہم لوگ حاصل کئے جائیں اور انہیں محمدؐ کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ انہیں قتل کر کے بنوقریظہ کی خطا معاف کر دیں۔ اُٹھتے اُٹھتے پھر انہوں نے ابوسفیان سے وعدہ لیا کہ وہ ان کی تمام گفتگو صیغۂ راز میں رکھے گا۔ وہاں سے اٹھ کر نعیم سیدھے بنوغطفان کے پاس پہنچے اور انہیں بھی وہ کچھ کہا جو ابوسفیان سے کہا تھا اور اُن سے بھی رازداری کا وعدہ لے لیا۔ ابوسفیان سیانا آدمی تھا مگر اُس کے دل میں شک کی لکیر سی پڑ گئی۔ وہ بے حد فکر مند ہو گیا۔ اس کا ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔ دوسرے ہی دن اُس نے بنو قریظہ کو پیغام بھجوایا کہ کل صبح حملے کے لئے تیار ہو جائیں۔ وہاں سے صاف جواب مل گیا کہ کل تو یومِ سبت ہے لڑائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اب وہ آئندہ بھی اگر جنگ میں شریک ہوئے تو اس شرط پر ہوں گے کہ پہلے بنوقریش اور بنوغطفان اپنے کچھ مقتدر بندے اُن کے حوالے کر دیں۔ اب تو ابوسفیان کا شک پورے یقین سے بدل گیا۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں