حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر53

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر53
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر53

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ خندق مسلسل نہیں تھی۔ جگہ جگہ بڑی بڑی چٹانیں تھیں۔ مکانات بنے ہوئے تھے جو خود حملہ آوروں کے خلاف رکاوٹ تھے۔ جہاں پہاڑ یا مکان نہیں تھے اُن حصوں میں خندق کھود کر کہیں مکانوں اور کہیں پہاڑوں سے ملانا تھا تاکہ مدافعت مکمل ہو جائے۔ خندق کھودنے والے ہر شخص کو احساس تھا کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ سستی اور سہل انگاری کی کوئی گنجائش نہیں۔ چاہے کئی وقتوں کا فاقہ ہے، چاہے تھک کر نڈھال ہو چکے ہیں لیکن کام کئے جانا ہے کیوں کہ دشمنوں کے پہنچنے سے پہلے خندق تیار نہ ہوئی تو مدینے کا ایک فرد بھی اُن کے ظلم اور سفاکی سے نہ بچ سکے گا۔ انہیں یاد تھا کہ اُحد میں ان ظالموں نے کس طرح لاشوں کا مثلہ کیا تھا۔ اور اب تو انہوں نے اسلام کی مکمل بیخ کنی کا عزم کر رکھا تھا۔ مستقبل کا سارا نقشہ انہیں اپنی نظروں کے سامنے چلتا پھرتا دکھائی دے رہا تھا۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ ساری باتیں میں تفصیل سے اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ میرے سامنے اُن ہولناک دنوں کی بے شمار تصویریں چل پھر رہی ہیں۔ کھدائی کرنے والے مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اُن کے معاون سروں پر مٹی بھری ٹوکریاں لادے قطار در قطار مٹی باہر پھینکتے جاتے تھے۔ خندق رفتہ رفتہ گہری ہوتی گئی۔ سلمان فارسیؓ تن و توش کے بہت مضبوط تھے، پھر بنو قریظہ کی ملازمت کے دوران میں اُنہیں مٹی کھودنے کی خاصی مشق ہو گئی تھی۔ ہر شخص اُن کی کارکردگی پر عش عش کر رہا تھا۔ مہاجر اُنہیں اپنی صف میں شامل کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ وہ بھی اُن کی طرح تلاشِ حق میں باہر سے آئے ہیں۔ انصار دلیلیں دیتے کہ نہیں وہ نبیؐ کے ورود سے پہلے مدینے میں موجود تھے، اس لئے وہ انصار میں سے ہیں۔ حضورؐ دونوں کی باتیں سُن سُن کر مسکراتے رہتے۔ آخر ایک دفعہ جب یہ گفتگو طول پکڑ گئی تو سرکارِ دو عالمؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: 
’’سلمان ہمارا ہے۔ نبی کے گھر کا فرد ہے۔‘‘
نبیؐ کے گھر کا فرد ہونے کا شرف مجھے بھی بخشا گیا تھا۔ نبی محترمؐ بھی خندق کی کھدائی کے تمام کام میں برابر شرکت فرماتے رہے۔ کبھی ایک ٹولی کے ساتھ ہوتے کبھی دوسری کے ساتھ۔ مگر حکم تھا کہ جب کوئی مشکل پیش آئے یا کوئی غیر متوقع صورتِ حال کا سامنا ہو تو وہ جہاں بھی ہوں اُنہیں مطلع کیا جائے۔ ایسی پہلی صورتِ حال جابرؓ کو پیش آئی۔ وہ جہاں کھدائی کر رہے تھے وہاں زمین سے ایک اتنا بڑا پتھر نکل آیا جو کسی اوزار سے ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ رسالت مآبؐ کو اطلاع دی گئی وہ وہاں پہنچے۔ انہوں نے پانی منگوایا اور اس میں اپنا لعابِ دہن شامل کیا۔ پھر وہ پانی پتھر پر چھڑک دیا۔ پھر جب سب نے مل کر زور لگایا تو وہ پتھر آسانی سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ دوسری مرتبہ مہاجرین کی ٹولی کی طرف سے مدد کی درخواست موصول ہوئی۔ عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ ایک بہت بڑا پتھر ہے جو کسی طرح اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ رسالت مآبؐ وہاں پہنچے، انہوں نے عمرؓ کے ہاتھ سے کدال لے کر پتھر پر ایک ضرب لگائی جس سے ایک شعلہ بلند ہوا، اتنا روشن کہ مدینے کا شہر اور جنوبی علاقہ روشن ہو گیا۔ پھر انہوں نے ایک اور ضرب لگائی تو اسی طرح چنگاریاں بلند ہوئیں لیکن اس مرتبہ اُحد اور اُس کے اُدھر کا تمام شمالی علاقہ روشن ہو گیا۔ تیسری ضرب لگی تو پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا اور اس مرتبہ جو روشنی نکلی تو تمام مشرقی علاقے میں چکا چوند ہو گئی۔ اس وقت میں حضورؐ کے خیمے میں خدمت پر مامور تھا۔ سلمان فارسیؓ البتہ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے یہ تمام ماجرا مجھے سُنایا۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں نے یہ روشنیاں دیکھیں تو نبی محترمؐ سے اس کی تعبیر پوچھی۔ حضورؐ نے فرمایا سلمان پہلی روشنی میں مَیں نے یمن کے محلات دیکھے۔ دوسری میں مجھے شام کے محلات نظر آئے اور تیسری روشنی میں مجھے مدائن میں کسریٰ کا سفید محل دکھائی دیا۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بشارت ملی ہے کہ میرے لئے پہلی روشنی کے ذریعے یمن کی راہ کھول دی گئی ہے۔ دوسری کے ذریعے شام اور تیسری کے ذریے مشرق کے راستے وا کر دئیے گئے ہیں۔
ہم میں سے بیشتر کو کئی کئی وقت کا فاقہ رہتا تھا۔اُدھر سخت محنت کشی ہمیں نڈھال کئے دیتی تھی۔ خود رسالت مآبؐ بھی کئی کئی وقت کے فاقے سے رہتے تھے۔ جب جابرؓ نے اُن سے پتھر ہلانے کے لئے مدد مانگی تھی تو انہیں کئی روز بعد حضورؐ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ حضورؐ اُنہیں بہت کمزور دکھائی دئیے۔ جابرؓ نے گھر جا کر اپنی بیوی کو اس پریشانی کا حال سنایا تو انہوں نے کہا ہمارے پاس تو صرف یہ ایک بھیڑ کا چھوٹا سا بچہ ہے اور کچھ جو۔ چنانچہ انہوں نے بھیڑ کے بچے کو ذبح کر کے پکا لیا اور جَو پیس کر کچھ روٹیاں بنا لیں۔ اُس دن جب کام کرتے کرتے رات ہو گئی اور اندھیرے میں نظر آنا بند ہو گیا تو جابرؓ رسولِ اکرمؐ کے پاس گئے اور اُنہیں شام کے کھانے کی دعوت دی۔ جابرؓ یہ قصہ بڑے شوق سے بیان کرتے تھے۔ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے میری ہتھیلی پر ہتھیلی رکھ دی اور میری انگلیاں اپنی انگلیوں میں جکڑ لیں۔ میں نے تو صرف انہیں دعوت دی تھی مگر انہوں نے عام اعلان کروا دیا کہ آج جابرؓ کے یہاں ہم سب کی دعوت ہے۔ میں پریشان ہو کر گھر روانہ ہوا اور اپنی بیوی کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بیوی نے ذرا توقف کے بعد سوال کیا کہ سب کو دعوت تم نے دی ہے یا حضورؐ نے اپنی طرف سے۔ میں نے کہا یہ اُن کا اپنا فیصلہ تھا۔ بیوی نے یہ سن کر کہا تو پھر وہ بہتر سمجھتے ہیں۔ حضورؐ دس صحابہ کے ساتھ جابرؓ کے گھر پہنچے۔ کھانا اُن کے سامنے چن دیا گیا۔ انہوں نے اس پر اللہ کا نام لے کر برکت کی دعا مانگی۔ جب سب سیر ہو کر کھا چکے تو کھانا ابھی باقی تھا۔ پھر اسی طرح دس دس کی ٹولیاں آتی رہیں اور سیر ہو ہو کر لوٹتی رہیں۔ میں آخری ٹولی میں تھا۔ ہمارے کھا چکنے کے بعد بھی کچھ کھانا بچ رہا تھا۔ ہر شخص اپنی آنکھوں سے اللہ کی رحمت دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں شکر بجالا رہا تھا۔ حضورؐ تمام وقت دن بھر کے تھکے ماندے لوگوں کو سیر ہو کر کھاتے دیکھ کر تبسم فرماتے رہے اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز سے اپنی رزاقی کی لاج رکھتا ہے۔
چھ دن کی محنتِ شاقہ کے بعد خندق تیار ہو گئی۔ ہم لوگوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ ہماری محنت بر آئی۔ اب صرف اللہ تعالیٰ سے دعا تھی کہ وہ ہمیں نصرت عطا فرمائے اور اس امتحان میں سرخرو کرے۔
خندق مکمل ہوتے ہی حضورِ اکرمؐ نے خندق کے ساتھ ہی پڑاؤ ڈالنے کا حکم دے دیا۔ خود آپ کا سرخ چمڑے کا خیمہ عین کوہِ سلع کے دامن میں نصب کیا گیا۔
اُدھر قریش حملہ آور اپنے ساتھیوں سمیت مدینے کے نواح میں جنوب مغرب کی طرف سے پہنچے۔ وہ مکے سے ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ اُسی راستے سے آئے تھے جو انہوں نے غزوۂ اُحد کے وقت اختیار کیا تھا۔ بنو غطفان اور نجد کے دوسرے قبیلوں کے لشکر مشرق یعنی صحرائے نجد کی طرف سے پہنچے۔ دونوں لشکر اُحد میں جمع ہوئے اس خیال سے کہ اب بھی اُحد ہی میدان جنگ بنے گا۔ اُحد کے قریب پہنچتے پہنچتے پہلا صدمہ تو انہیں یہ دیکھ کر ہوا کہ خریف کی ساری فصل کٹ چکی ہے اور اب اُن کے اونٹوں کو خود رو خاردار جھاڑیوں پر گزارا کرنا ہو گا۔ گھوڑوں کے لئے چارہ بس وہی تھا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے جو قطعاً ناکافی تھا۔ انہوں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اب جو بھی ہونا ہے بلاتاخیر ہو جانا چاہئے۔ جب اُحد میں اُنہیں دور دور تک مسلمانوں کا کہیں نام و نشان نہ دکھائی دیا تو فیصلہ کیا کہ مدینے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ خالد اور عکرمہ جو جیشِ قریش کے گھڑ سوار دستوں کی کمان کر رہے تھے مدینے کی طرف لپکے۔ خندق کی مدینے والی سمت کی سطح مخالف سمت کی سطح سے ذرا بلند تھی چنانچہ اُنہیں دور ہی سے مسلمانوں کا پڑاؤ نظر آ گیا۔ اُن کا خیال تھا کہ ان مٹھی بھر لوگوں کو تو وہ محض اپنی تعداد سے کچل کر رکھ دیں گے لیکن خندق اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ جوں ہی وہ ذرا قریب آئے اور اُنہیں اپنے راستے میں ایک ناقابل عبور خندق حائل نظر آئی تو دانت پیس کر رہ گئے۔ کچھ نہ بن پڑا تو زچ ہو کر بآواز بلند کہنے لگے کہ اس طرح اوٹ سے لڑنا عربوں کی حمیّت کی توہین ہے۔
اب صورتِ حال سب کے سامنے تھی۔ مسلمان خندق کے اس پار مدینے کی طرف تیر اندازوں کے پرے جمائے بیٹھے تھے اور کفار خندق کے اُس پار خندق عبور کرنے کی کوشش میں کبھی قریب آتے تھے، کبھی تیروں کی بارش سے زخمی ہو کر پلٹ جاتے تھے۔ اُدھر سے بھی تیر اندازی ہو رہی تھی۔ ایک تیر سعد بن معاذؓ کے بازو میں لگا جس سے ان کی ایک رگ کٹ گئی۔ اُدھر بھی بہت سے لوگوں نے تیروں کے زخم کھائے۔ قریش اور غطفان کے کئی گھوڑے بھی تیروں سے زخمی ہو کر گرے۔ خندق میں ایک جگہ ایسی تھی جس کی چوڑائی نسبتاً کم تھی۔ دشمنوں کی اُس پر نظر تھی۔ وہ سارا دن اُس جگہ کا معائنہ کرتے رہتے تھے۔ ہم لوگوں نے بھی وہاں اپنا پہرہ سخت کر رکھا تھا۔ ایک لمحہ ایسا آیا کہ قریش کے دستوں نے محسوس کیا کہ اس مقام پر مسلمانوں کا پہرہ اتنا سخت نہیں رہا۔ چنانچہ عمرو بن عبدالود، عکرمہ، ضرار بن الخطاب اور قبیلہ مخزوم کے نوفل نے گھوڑوں کو مہمیز دی اور خندق پار کر کے مسلمانوں کے سر پر آ کھڑے ہوئے۔ علیؓ اور عمرؓ نے چشمِ زدن میں آ گے بڑھ کر اُن کا راستہ روک دیا۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں