حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر52
بدرِ صغریٰ
’’اے دشمنِ خدا، ہم انشاء اللہ ضرور آئندہ سال بدر کے میدان میں تیرا انتظار کریں گے۔‘‘
پیغمبرِ اسلامؐ کا یہ اعلان جو انہوں نے اُحد میں ابوسفیان کا چیلنج قبول کرتے ہوئے میری زبانی ابوسفیان کو سنایا تھا ہمیں بھی یاد تھا، ابوسفیان کو بھی اور سارا عربستان اس معرکے کا منتظر تھا ہر قبیلے میں اس پر قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ جوں جوں وقت قریب آتا جاتا تھا ان قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابوسفیان نے اُحد سے چلتے چلتے اپنے دل کی بھڑاس ضرور نکال لی تھی مگر اُس کا یہ بڑا بول اب اُس کے گلے کا پھندا بنا ہوا تھا۔ صورتِ حال یہ تھی کہ سارے عربستان میں قحط پڑا ہوا تھا۔ مکے سے ہزاروں گھوڑوں، اونٹوں کو لے کر بدر جانا اور وہاں ان حالات میں اُن کی خوراک کا بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا۔ مدینے والوں کو آسانی تھی کہ بدر اُن سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ وقت سر پر آ گیا تھا اور ابوسفیان پریشان تھا۔ چیلنج اس نے خود دیا تھا اور وقتِ مقررہ پر اگر وہ اپنی فوج کو لے کر بدر نہ پہنچا اور مدینے والے پہنچ گئے تو سارے عرب میں اُس کی ساکھ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ قریش کا منہ کالا ہو جائے گا۔ وہ اور سہیل بن عمرو کئی دفعہ سر جوڑ کر بیٹھے مگر مسئلہ حل طلب تھا، حل طلب ہی رہا۔ سوچ سوچ کر دونوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے مشترک دوست نعیم بن مسعود کو راز میں لیا جائے۔ بنو غطفان کا یہ مرنجا مرنج شخص جوڑ توڑ کا ماہر تھا۔ سارے عرب کے سربرآوردہ لوگوں سے اس کے مراسم تھے۔ ابوسفیان نے اُس سے درخواست کی کہ کوئی ایسی صورت پیدا کرو کہ محمدﷺ کا لشکر بدر نہ پہنچے اور قریش یہ کہنے کے قابل ہوں کہ ہم تو پوری طرح تیار بیٹھے تھے، مسلمان ہی نہیں پہنچے تو ہم وہاں کس سے جا کر لڑتے۔ اس طرح تمام ذمے داری مدینے والوں پر پڑ جائے گی اور قریش سرخرو ہو جائیں گے۔ ابوسفیان نے نعیم کو پیشکش کی کہ اگر وہ مسلمانوں کو بدر پہنچنے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ اس کو بیس اونٹ انعام دے گا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مہم جو نعیم ایک لمحہ ضائع کئے بغیر وہاں سے مدینے روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچتے ہی اپنے ملنے والوں کو جن میں انصار، مہاجر، منافق، یہودی سبھی شامل تھے قریش کی عظیم الشان جنگی تیاریوں کی ایسی ایسی من گھڑت تفصیلات سنائیں کہ بہت سوں کو یقین آ گیا۔ منافقین دل ہی دل میں خوش ہوتے، یہودیوں نے ذرا زیادہ خوشیاں منائیں اور دونوں نے مل کر اس بے بنیاد خبر کو ہر ممکن طریقے سے مدینے کے طول و عرض میں پھیلا دیا، یہاں تک کہ مسلمان بھی نفسیاتی دباؤ میں آ گئے۔ اُن کے حلقوں میں بھی اس قسم کی سوچ کا اظہار کیا جانے لگا کہ قریش کی اتنی زبردست تیاری کے بعد، اُن کے خلاف مقابلے پر اُترنا، صریحاً خودکشی ہے۔
ان خیالات کی گونج ابوبکرؓ اور عمر فاروقؓ نے بھی سنی تو بیتاب ہو کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دونوں نے دوٹوک الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا کہ ہم فوج کشی کے حق میں ہیں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل جس پر آل عمران کی یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
یہ ایسے لوگ ہیں کہ جب لوگوں نے اُن سے کہا:
اُن لوگوں نے تمہارے مقابلے کے لئے سامان جمع کیا ہے۔
تو اللہ نے اُن کے ایمان کو اور زیادہ کر دیا۔
اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہم کو حق تعالیٰ کافی ہے۔
اور وہی سب کام سپرد کرنے کے لئے اچھا ہے۔
پس یہ لوگ خدا کی نعمت اور فضل سے بھرے ہوئے لوٹے اور انہیں کوئی ناگواری ذرا بھی پیش نہ آئی۔
اللہ کے نبیؐ نے ابوبکرؓ اور عمرؓ کے الفاظ سُن کر فرمایا
’’میں بدر پہنچوں گا خواہ مجھے تنہا ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘‘
ان الفاظ کی گونج سارے مدینے میں سنائی دی۔ اس اعلان کے ساتھ ایک طرف تو نعیم کے بیس اونٹ گئے اور دوسری طرف اسلامی لشکر تیار ہوا اور وقت مقررہ پر بدر پہنچ گیا۔ بات سنبھالنے کے لئے ابوسفیان بھی کچھ فوج لے کر مکے سے نکلا مگر ایک دو دن ادھر اُدھر گھوم کر واپس آ گیا اور مکے پہنچ کر اعلان کروا دیا کہ ہم تو گئے تھے مدینے والے ہی نہیں آئے۔ ایسے معاملات میں حقیقت کب چھپی رہتی ہے۔ سارے عرب میں ابوسفیان کی تھو تھو ہو گئی۔ صفوان تو سارے مکے میں کہتا پھرتا تھا کہ یہ سب کچھ ابوسفیان اور محض ابوسفیان کا کیا دھرا ہے۔ اُس سے ایسی عاقبت نا اندیشی کی توقع نہیں تھی۔ ضرورت کیا پڑی تھی اُسے احد کی کامیابی کے بعد اس قسم کے چیلنج دینے کی۔
غزوۂ احزاب
آج دمشق کی اس پُرسکون فضا میں اُن حالات کا تصور بھی مشکل ہے لیکن ہجرت کے پانچویں سال موسمِ سرما میں، جب مدینے میں عرب قبائل کے اجتماعی حملے کی تیاریوں کی خبریں پہنچیں، تو ہماری پریشانی کی کوئی حد نہ رہی۔ خبر ملی کہ مکے میں دارالندوہ میں قریش کا ایک اجلاس ہوا ہے جس میں قریش کا علمِ جنگ لہرایا گیا۔ عثمان بن طلحہ کو علم برداری کا منصب سونپا گیا۔ شاید اس لئے کہ اُحد میں یہ منصب عثمان کے باپ کو دیا گیا تھا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔ مکے سے آنے والوں نے یہ بھی خبریں سنائیں کہ قریش نے ابوسفیان کی سربراہی میں چار ہزار شمشیر زنوں کا لشکر تیار کیا ہے جس میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار برق رفتار اونٹنیاں شامل ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بنوفزارہ سے عینیہ بن حصن کی قیادت میں گھڑسواروں کے دل کے دل نکلے ہیں اور اُن کے جلو میں بھی ایک ہزار تیز رفتار سانڈنیاں ہیں۔ قبیلہ بنومرہّ کے چار سو جنگجو حارث بن عوف کی کمان میں مسلمانوں سے جنگ کے لئے نکلے ہیں۔ قبیلہ اشجع سے خبر ملی کہ انہوں نے بھی مِسعر بن رُخیلہ کو اپنے چار سو تیغ زنوں کا سردار بنا کر بھیجا ہے۔ اُدھر سے بنو سلیم سات سو افراد کا لشکر لے کر اُن کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح بنو اسد اور بنو سعد کی لشکر کشی کی تیاریوں کی بھی خبریں ملیں۔ ساری خبریں یکجا ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ کم و بیش دس ہزار کا لشکر ہے جو ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ صحرائے عرب میں یوں تو آئے دن کوئی نہ کوئی معرکہ ہوتا رہتا تھا لیکن فوج کشی کے لئے اتنا بڑا اژدھام پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور فوج کشی بھی ایسی کہ اُن کی تعداد میں، اُن کے رسل ورسائل کی سہولتوں میں، ان کے اسلحہ میں، ان کے رسد کے انتظامات میں اور ہمارے وسائل میں زمین آسمان کا فرق تھا اور شاید یہ آسمانی فرق ہی تھا جس نے ہماری اور ہمارے آفاقی دین کی لاج رکھ لی۔ جوں ہی قریش نے مکے سے کوچ کی تیاری کی، بنو خزاعہ کے چند گھڑ سواروں نے برق رفتاری کے ساتھ صرف چار دن میں مدینے کی مسافت طے کر کے حضورؐ کو تمام تفصیل سے آگاہ کر دیا۔ اب گنا چنا وقت رہ گیا تھا۔ ایک ہفتے میں دشمن سر پر آن پہنچے گا۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔
مسجد نبوی میں نبی کریمؐ نے اپنے رفقاء کو مشورے کے لئے جمع فرمایا، بالکل ویسے ہی جیسے جنگ اُحد سے قبل انہوں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا تھا۔ جنگ کی حکمتِ عملی پر مباحثہ ہوا اور نہایت غورو خوض کے بعد ہمارے قائدؐ نے سلمان فارسیؓ کی رائے سے اتفاق فرمایا۔ سلمانؓ کی تجویز یہ تھی کہ جنگ مدینے کے اندر رہ کر لڑی جائے۔ مدینے کے تین اطراف تو پہاڑ ہیں جہاں سے حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ صرف شام کی سمت پہاڑ نہیں ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں کے دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک ایسی گہری اور چوڑی خندق کھودی جائے جس کا عبور سانڈنی سواروں اور گھڑ سواروں کے لئے ممکن نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اہلِ فارس یہ طریقہ بہت کامیابی سے استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی حکمتِ عملی پر عمل کیا گیا۔ خندق کے اس طرف جو قریبی مکان تھے خالی کرا لئے گئے۔ تمام عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو خندق سے دو فرلانگ کے فاصلے پر حویلیوں اور بڑے بڑے گھروں میں منتقل کر دیا گیا۔ خندق کی کھدائی میں جو چھوٹے بڑے پتھر نکلتے تھے انہیں دشمنوں پر برسانے کے لئے جگہ جگہ ڈھیر کرتے جاتے تھے۔ سلع کی پہاڑی کے دامن سے بھی مناسب وزن کے پتھروں کو جمع کر کے ان ڈھیروں میں شامل کر دیا گیا۔ بنوقریظہ سے باہمی تعاون کا معاہدہ تھا، اُن سے کدالیں، پھاوڑے، بیلچے اور مٹی پھینکنے کے لئے کھجوریں رکھنے کی ٹوکریاں حاصل کی گئیں۔ منہ اندھیرے نمازِ فجر کے بعد کھدائی کا کام شروع ہو جاتا تھا جو مغرب تک جاری رہتا۔ کھدائی کرنے والوں نے اپنی قمیضیں اُتار رکھی تھیں۔ جب مٹی پھینکنے کے لئے ٹوکریاں کم پڑتیں تو اپنی قمیضوں ہی میں مٹی بھر بھر کر پھینکتے جاتے تھے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں