حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر63
حضور صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکرؓ سے باتیں کرتے ہوئے خانہء کعبہ کے جنوب مشرقی گوشے پر پہنچے اور چھڑی کو حجرِاسود کے ساتھ لگا کر استلام کیا۔ پاس کھڑے لوگوں نے بھی اُن کے ساتھ اللہ اکبر کہا۔ پھر اور لوگ بھی شامل ہو گئے اور تھوڑی ہی دیر میں سارا حرم اللہ اکبر کی صدا سے گونج اُٹھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اُٹھا کر سب کو خاموش کرا دیا اور طواف میں مشغول ہو گئے۔
اُس دن قصواء کی مُہار اوس کے محمد بن مغلمہؓ کے ہاتھ میں تھی۔ گذشتہ سال عمرۃ القضا کے موقع پر یہ سعادت قبیلہء خزرج کے عبداللہؓ ابنِ رواحہؓ کے حصے میں آئی تھی۔ طواف کے سات چکر پورے کرنے کے بعد انہوں نے خانہء کعبہ کے اطراف رکھے ہوئے بُتوں پر نظر ڈالی اور اُن کی طرف چل پڑے۔ ہر بُت کے پاس گئے اور اُسے اپنے دستِ مبارک میں پکڑی ہوئی کمان کی نوک سے گراتے گئے۔ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے:
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’حق آ گیا ہے اور باطل فرار ہو گیا ہے۔ بے شک باطل کو فرار ہی ہونا تھا‘‘۔
اطراف کے بُتوں کو گرانے کے بعد وہ خانہء کعبہ کے سامنے رکھے ہوئے بُت ہبل کے پاس گئے اور اُسے گرا کر توڑنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد اُنہوں نے فرمایا کہ سب بُتوں کو نذر آتش کر دیا جائے۔ ساتھ ہی شہر میں منادی کروا دی کہ جس جس گھر میں بُت رکھے ہوئے ہیں، وہ لا کر باقی بُتوں کے ساتھ جلا دئیے جائیں۔
مشرکین عرب کے تمام خداؤں کی مجموعی خدائی مطاف میں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی تھی جس میں جگہ جگہ آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ لکڑی، کپڑے، جھلی سے بنے ہوئے بُتوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ پتھر کے بُتوں کے جابجا بکھر ے ہوئے اعضاء پر ان شراروں کی چھوٹ پڑتی تو اُن پر سجاوٹ کے لئے لگے ہوئے پیتل کے نقش و نگار دمک دمک اُٹھتے۔ بڑی عبرت کا مقام تھا کہ جب یہ سارے بُت قائم تھے تو ان سے کبھی کسی کو روشنی کی ایک کرن بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اُعل ہبل کا نعرہ لگانے والا آج کوئی نہیں تھا۔ کوئی نہیں تھا جو اُن سے مرادیں مانگے۔ مرادیں پوری کرنا تو درکنار وہ آج اپنی مدد کرنے سے بھی قاصر تھا۔ اُس کے جابجا بکھرے ہوئے ٹکڑے آگ میں دہک رہے تھے۔ بُتوں کے پجاری آج اپنے بے بس خداؤں کی فرضی معبودیت کے حصار سے نکل کر معبودِ واحد و لاشریک کے جوارِ رحمت میں اُس کے رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے جہاں اُنہیں اپنے جھوٹے خداؤں کی باقیات پر ترس کھانے کا بھی دماغ نہیں تھا۔
ان بُتوں کو یہیں جلتا چھوڑ کر آنحضورؐ نے قصواء کا رُخ صفا کی طرف موڑ دیا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے وہاں رکھے ہوئے اِساف کے بُت کو توڑ گرانے کا حکم دیا۔ پھر مروہ کی پہاڑی کا رُخ فرمایا۔ یہاں نائلہ کا بت نصب تھا۔ یہ بُت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر توڑ کر گرا دیا گیا۔ اِساف اور نائلہ کے ٹکڑے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مطاف میں جلتے ہوئے دیگر بُتوں کے ساتھ جلتی آگ میں پھینک دئیے گئے۔ مروہ پر قائم نائلہ کا بُت وہ مقام تھا جہاں مشرکین ذبیحہ کیا کرتے تھے۔ یہ دونوں بھی معبود تھے مگر مشرکین کے دوسرے خداؤں سے ذرا کم حیثیت۔ نائلہ اور اِساف کے بارے میں میں نے بہت عجیب عجیب کہانیاں سن رکھی ہیں مگر مجھے کبھی ان باتوں کی تصدیق کا موقع نہیں ملا اس لیے اُن کہانیوں کا ذکر مناسب نہیں۔ اگر تصدیق ہو گئی اور عمر نے وفا کی اور ہمیں پھر کبھی مل بیٹھنے کا موقع میسر آیا تو بیان کر دوں گا۔
اب حدودِ حرم میں صرف ایک بُت نظر آ رہا تھا۔ سارے بُتوں سے بڑا، پیتل کا بنا ہوا۔ یہ بنو خزاعہ کا معبود تھا اور خانہ کعبہ کی چھت پر لوہے کی میخوں سے نصب تھا۔ میں نے سنا ہے یہ بنو خزاعہ ہی تھے جن کے ایک خوش فہم بزرگ صدیوں پہلے شام سے ہبل کا بُت لے کر آئے تھے اور یوں اُن کی کج فہمی سے عربستان میں بُت پرستی کی ابتداء ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر بنو خزاعہ کے بُت کو دیکھا اور قصواء سے اُتر کر علیؓ کو حکم دیا کہ وہ اُن کے شانوں پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھیں اور خزاعہ کے بُت کو اکھاڑ کر نیچے پھینک دیں۔ علیؓ نے تعمیل کی اور یوں یہ آخری بُت بھی بھڑکتے شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔
حرمِ کعبہ کو بُتوں کی آلودگی سے پاک کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم ؑ پر آئے، قصواء سے اُتر کر دو نفل ادا کئے، پھر پیدل چاہِ زمزم پر گئے۔ یہاں عباسؓ نے انہیں آبِ زمزم پلایا۔ اس موقع پر انہوں نے ایک اعلان کے ذریعے زائرین کو پانی پلانے کی ذمے داری ہمیشہ کے لئے بنوہاشم کے سپرد کر دی۔ یہ پہلے بھی انہیں کا منصب تھا مگر اب رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی توثیق کر دی گئی۔ اس کے بعد علیؓ نے خانہء کعبہ کی چابی پیش کی تو عباسؓ نے درخواست کی کہ کعبے کی کلید برداری بھی بنوہاشم کو عنایت فرمائی جائے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں تم کو وہ دے سکتا ہوں جو تم نے کھویا تھا۔ وہ نہیں جسے دینے سے کوئی اور کچھ کھو بیٹھے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے عبدالدّار کے عثمان بن طلحہؓ کو بلوایا اور چابیاں اُن کے حوالے کر کے اُن کے خاندان کے اس قدیمی منصب کی بھی توثیق کر دی۔ عثمانؓ نے نہایت ادب سے چابی لی اور خانہء کعبہ کا دروازہ کھولنے چلے گئے۔ اُس وقت میرے ذہن میں دعوتِ اسلام کے اوّلین ایّام کا ایک منظر پھر گیا۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں