مرزا رجب علی بیگ سرور (1867۔1786) اردو زبان کے ابتدائی اور ممتاز ترین نثر نگاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی کتاب فسانہ عجائب اپنے وقت کی مشہور ترین داستان تھی۔ یہ داستان اس قدیم اردو کا بہترین نمونہ تھی جو فارسی اور عربی کے رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کتاب میں وہ جگہ جگہ قافیے کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ مثلاً وہ سفر کی مشقت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سفر اور سقر(جہنم) کی صورت ایک ہے اور ان سے بچنا نیک ہے۔
انداز بیان کی خوبصورتی سے قطع نظر یہ بات اپنے اندر بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے کہ سفر ایک انتہائی مشقت والا کام ہے۔ دورِ قدیم کو تو چھوڑیے جب شہروں کا سفر دنوں اور ملکوں کا مہینوں سے کم نہیں ہوتا تھا، آج کی تیز رفتار اور باسہولت سواریوں کے باوجود بھی سفر کرنا مشقت سے خالی نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک لوگ بڑی تعداد میں سفر کرتے رہے ہیں اور زمین کے ہر خشک و تر کے بعد اب انسان خلاؤں میں محوِ سفر ہے۔ اس اعتبار سے انسان ایک کامیاب مسافر ہے۔
انسان کی اس کامیابی کی وجہ دراصل یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک مسافر کے طور پر بھیجا گیا ہے۔ اس کی منزل جنت ہے جس کے لیے اسے دنیا کے دارالامتحان سے گزرنا ضروری ہے۔ اس طرح سفر اس کی سرشت میں شامل ہے۔ مگر افسوس کہ انسان اس دنیا میں آکر اپنی اصل منزل کھو چکا ہے۔ اور منزل کے کھو جانے کے بعد وہ دربدر بھٹکتا پھرتا ہے اور اپنے سفر کو حاصل حیات سمجھتا ہے جبکہ دراصل یہ زندگی کا زیاں ہے۔
ایسے میں یہ قرآن مجید ہے جو بھٹکے ہوئے راہی کو اس کی منزل کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ یہ دنیا اس ابدی مسافر کا عارضی پڑاؤ ہے۔ انسان کی منزل جنت کی وہ بستی ہے جس میں انسان ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کے ساتھ ایک مسافر کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے جن دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، قرآن ان سے بھی انسان کو پوری طرح متعارف کراتا ہے۔ ان میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ انسان کو اپنی منزل کا راستہ (direction) معلوم ہو اور دوسرے اس کے پاس منزل تک پہنچنے کا مضبوط جذبہ (motivation) موجود ہو۔
قرآن یہ راستہ ایمان و اخلاق کے ان تقاضوں کی شکل میں اس کے سامنے رکھتا ہے جنھیں عرف عام میں خالق و مخلوق کے حقوق کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس منزل کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنے اور اسے موٹی ویٹ کرنے کے لیے قرآن اپنا عقلی اور فطری استدلال اس کے سامنے رکھتا ہے۔ اس استدلال کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن اس کائنات میں پھیلے ہوئے مشاہدات انسان کے سامنے رکھتا ہے۔ زمین سے لے کر آسمان تک پھیلے یہ مشاہدات انسان کو معمولات کا حصہ لگتے ہیں۔ قرآن انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ یہ معمولات نہیں بلکہ معجزات ہیں۔ انسان چونکہ بچپن سے ان عجائبات کو دیکھتا ہے اس لیے ان کا غیر معمولی پن اسے محسوس نہیں ہوتا۔
انسان اپنی دوبارہ پیدائش کو عجیب بات سمجھتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کبھی وہ عدم تھا اور پھر خدا نے اسے وجود دے دیا۔ جس خدا نے یہ معجزہ کر دیا اس کے لیے دوبارہ معجزہ کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ انسان جنت کا انکار کرتا ہے۔ خدا بتاتا ہے کہ اس نے پہلے ہی اس کرہ ارض کی شکل میں ایک جنت بنا رکھی ہے۔ اس کے لیے ایک اور جنت بنانا کیا مشکل؟ انسان سزا و جزا کا انکار کرتا ہے۔ قرآن رسولوں کی سرگزشت کو پیش کرکے یہ بتاتا ہے سزا و جزا تو اِس دنیا میں بھی ہوتی رہی ہے۔ یہ سب معجزات ہیں مگر انسان کو لگتے نہیں۔ قرآن ان کو ان کی اصل شکل میں دکھاتا ہے۔قرآن کا یہ اسلوب انسان کی نفسیات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ انسان غافل رہنے کا فیصلہ نہ کرلے تو دنیا کا یہ مسافر جنت کا مسافر بن جاتا ہے۔ یہی قرآن کا اصل معجزہ ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔