غزہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) طبی جریدے دی لینسٹ میں شائع ہونے والے تحقیق کے مطابق غزہ میں اسرائیل-حماس جنگ کے ابتدائی نو مہینوں کے دوران ہونے والی شہادتوں کی تعداد فلسطینی وزارت صحت کے ریکارڈ سے تقریباً 40 فیصد زیادہ ہو سکتی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 30 جون 2024 تک جنگ کے دوران شہادتوں کی تعداد 37 ہزار 877 تھی جبکہ اس نئی تحقیق نے یہ تعداد 55 ہزار 298 سے 78 ہزار 525 کے درمیان ہونے کا اندازہ لگایا ہے۔ تحقیق کا بہترین تخمینہ 64 ہزار 260 شہادتیں ہیں جو کہ وزارت صحت کے ریکارڈ سے 41 فیصد زیادہ ہے۔ یہ تعداد غزہ کی جنگ سے پہلے کی آبادی کے 2.9 فیصد کے برابر ہے، یعنی تقریباً ہر 35 میں سے ایک شخص اس جنگ کے دوران جان گنوا چکا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہدا میں 59 فیصد خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ تحقیق میں صرف جنگ کے دوران براہ راست زخمی ہونے سے ہونے والی ہلاکتوں کو شامل کیا گیا ہے۔ وہ افراد جو صحت کی سہولیات، خوراک، یا پانی کی قلت سے شہید ہوئے، یا وہ ہزاروں لوگ جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ان کا تخمینہ اس میں شامل نہیں۔
مطالعے میں "کیپچر-ری کیپچر" نامی شماریاتی طریقہ استعمال کیا گیا جسے مختلف جنگوں میں ہلاکتوں کے اندازے لگانے کے لیے اپنایا گیا ہے۔ اس کیلئے تین فہرستوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلی فہرست وزارت صحت کی فراہم کردہ تھی ، جن میں ہسپتال یا مردہ خانوں میں شناخت ہونے والی لاشیں شامل تھیں۔ دوسری فہرست آن لائن سروے کے ذریعے جمع کردہ تھی ، جس میں فلسطینیوں نے اپنے رشتہ داروں کی ہلاکت کی اطلاع دی۔ تیسری فہرست سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تعزیتی پوسٹس پر مبنی تھی۔ ماہرین نے تین فہرستوں کے درمیان مماثلت کو تلاش کر کے شہادتوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ لگایا۔
تحقیق کی سربراہ زینہ جمال الدین نے بتایا کہ صرف انہی افراد کو شامل کیا گیا جن کی موت ہسپتال یا رشتہ داروں کے ذریعے تصدیق شدہ تھی۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق غزہ میں تقریباً 10 ہزار افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔غزہ کی وزارت صحت مطابق 15 مہینے کی جنگ کے دوران 46 ہزار چھ افراد شہید ہوچکے ہیں۔