فرانسیسی افسانہ نگاروں کی نوجوان پود نے ان نظریوں کی اشاعت کے لئے اپنا سارا زور بیان صرف کر ڈالا۔ اُنیسویں صدر کی آغاز میں ژورژساں ایک مشہور فرانسیسی ادیبہ ہوئی ہے جس نے جنسی تعلقات کی رنگارنگی پر زور دیا ہے۔ الغرض پہلی عالمی جنگ (1914-1918) میں یورپ نے اخلاقی قدروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تمام یورپی ملکوں میں فرانس بازی لے گیا فرانسیسی اکابر کا ایک ہی نعرہ تھا ۔۔۔ ’’بچے جنواور جناؤ‘‘ مناکحت کی ضرورت نہیں ، کنواری یا بیوہ جو عورت بھی وطن کے لئے رحم کو رضا کارانہ پیش کرتی ہے وہ عزت کو مستحق ہے۔ ان عورتوں کا اُم الوطن کا خطاب دیا گیا۔ ایک فرانسیسی قائد لکھتا ہے۔
’’پچھلے پچیس 25سال میں ہم کو اتنی کامیابی ہوئی ہے کہ ’’حرامی بچہ ‘‘ حلالی بچے کا ہم رتبہ ہوگیا ہے۔ اب صرف اتنی کسرباقی ہے کہ صرف پہلی ہی قسم کے بچے پیدا ہوا کریں تاکہ تقابل کا سوال باقی نہ رہے ۔‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 3پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک معلمہ نا جائز بچہ جننے کے جرم میں معطل کر دی گئی تھی۔ اس کو فرانس کی وزارتِ تعلیم نے اس بنا پر بحال کیا کہ نکاح کے بغیر ماں بننا زیادہ جمہوری طریقہ ہے۔ فرانس کے 127ویں ڈویژن کے کمانڈر نے دورانِ جنگ میں ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے۔
معلوم ہوا ہے کہ فوجی قحبہ خانوں پر بندوقچیوں کے ہجوم اور اجارہ کی وجہ سے سوار اور پیادہ سپاہیوں کو شکایت ہے ۔ہائی کمانڈ عورتوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کوشش کر رہاہے ، جب تک یہ انتظام نہیں ہوتا بند وقچیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اندر نہ رہا کریں اور اپنی خواہشات کی تسکین میں عجلت سے کام لیں۔‘‘
جنگ عظیم نے تجارتی قحبہ خانوں کو نہیں پڑھایا بلکہ خیراتی قحبہ خانے بھی قائم کئے ۔ ان خیراتی قحبہ خانوں کا مقصد فوجیوں کی دلجوئی ، فرانس کی وزارتِ جنگ نے ان خیراتی قحبوں کو (WAR GOOD MOTHER) کا لقب دیا ، اُردو اس کے ترجمے ہی سے معذور ہے۔ اب کئی برس سے فرانس میں قحبگی کا پیشہ انفرادی نہیں رہا بلکہ اجتماعی تجارت اور اجتماعی صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کئی لمیٹڈ کمپنیاں قائم ہیں ۔ اُن کے کارندے بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں ۔ اخبارات میں ان کے اشتہارات چھپتے ہیں ، جن ملازموں کے سپرد ملک کے مختلف حصوں سے ان عروسانِ یک شب کی فرامہی کا کام ہوتا ہے وہ اس پیشہ کی باقاعدہ فتنی تربیت حاصل کرتے اور دفتری معیار پر کام چلاتے ہیں۔
جرمی میں ڈاکٹر ماگنوش نے لواطت کے حق میں چھ سال تک جدوجہد کی اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ احتساب اُٹھالے ڈاکٹر ماگنوش کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ جانبین رضا مندہوں تو حکومت کے لئے کونسا عذر رہ جاتا ہے ؟ کیا اس مملکت کو نقصان پہنچتا ہے ؟ کیا یہ زیادہ فطری طریقہ نہیں؟ جو لوگ اس کو غیر فطری کہتے ہیں اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں وہ محض ایک فرسودہ قوم دُہرانے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس عورت کر مرد سے اختلاط کا خمیازہ بھُگتنا پڑتا ہے ، یا تو وہ ماں بن جاتی ہے یا بچے ضائع کرتی ہے، لیکن لواطت میں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس ہم جنسی سے قحباؤں کی افزونی بھی رُک سکتی ہے۔
انگلستان بھی اسی تہذیب میں ڈوبا ہوا ہے اور اب تو وہاں امر پرستی قانوناً آزاد ہوگئی ہے۔ امریکی قحبہ خانے آرٹ کے درجے مین ہیں۔ اس کی بدولت امریکہ میں ہرسال کم سے کم 15لاکھ حمل ساقط ہوتے ہیں اور وہ ہزار ہا حرامی بچے اس پر مستزاد ہیں جو موت کے گاٹ اُتار دیے جاتے ہیں ۔ کئی سال ہوئے ہیں مجلسِ اقوام نے مختلف ملکوں سے فاحشات کے جو اعداد و شمار حاصل کئے تھے وہ برائے نام ہیں۔ جتنی فاحشات تمام عالمی ملکوں میں بیان کی گئی ہیں اُتنی فاحشات میں سے کسی ایک ملک میں ہیں۔ اس بورژو اسماج نے (جو استحصال کے نقطہ آخر تک پہنچ چکا ہے) دو چزیں وافر کردی ہیں ۔
(۱)۔ محنت کی لوٹ کھوٹ
(۲)۔ عصمت کی خریدو فروخت ۔
سیاسی نظام کے ڈھیلا پڑجانے کی وجہ سے پیشہ ور فاحشات تو ختم ہو رہی ہیں مگر اُن کی جگہ غیر پیشہ ور فاحشات نے لے لی ہے۔ ہر متمول انسان کو ذہنی و جسمانی عیاشی کے لئے پورے سماج پر دسترس ہے تمام معاشرہ ایک طوائف ہے اور پورا آرٹ ایک چکلہ ، رسل کو اندیشہ تھا کہ آئندہ نصف دُنیا کے باپ وزراء ہوں گے یا پادری۔؟
ایک ہی تنور کی سوختہ
کمہار نے ایک خوبصورت آبخورہ بنایا، لوگوں نے اُس کو جام صہبا بنا لیا۔۔۔ کمہار نے ایک جام صہبا بنایا اور لوگوں نے اس کو آبخورہ سمجھ کر مسجد کی دیوار پر رکھ دیا تو پھر کیا اُس سے مٹی کی حقیقت بدل گئی ؟ پیالہ میں چاہے شراب بھر دو چاہے زمزم ۔۔۔ عورت کو بیسوا بنا دو یا گھر کی ملکہ ، جو چاہے بنا دو، لیکن ہر حال میں وہ عورت ہی ہے۔ (قاضی عبدالغفار )
ایشیا میں میں طوائف کا معاشرتی نظام یورپ کے معاشری نظام سے مختلف ہے لیکن جنسی اعتبار سے دونوں میں ہمرنگی ہے۔ بازاری شراب میں جو فرق ہے اس کی بڑی وجہ ایک تو مشرق و مغرب کے جُدا گانہ اخلاقی نظریے ہیں ، دوسری عورت کے متعلق دونوں کے عقائد کا اختلاف ہے، ویسے یورپی عورت ایشیائی عورت سے سماجی آزادی میں کجروی کی حد تک آگے نکل چکی ہے اور شرم و حیا کے وہ معیار جو مشرق کی جان تصور ہوتے ہیں اس میں بالکل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ایشیائی ملکوں میں ایک طوائف بھی کسی حد تک اخلاق کے ظواہر کی پابندی کرتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایشیا ہر بڑے مذہب کا مولدو مسکن رہا ہے ان مذاہب نے ایشیائی قوموں کو ایک اخلاق مہیا کیا جس سے ذہنوں میں امر نواہی کا ایک تصور جاگزیں ہوگیا یہاں کسی فلسفی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ فحاشی کو جواز پیدا کریں اور یہ کہیں کہ طوائف ایک ناگزیر ادارہ ہے۔
لیکن اس اخلاقی کروفر کے باوجود ایشیائی ملکوں میں فحاشی محونہ ہوئی اس کی مختلف صورتیں ہر حال میں اور ہمیشہ قائم رہی ہیں چنانچہ ڈیڑھ ہزار برس پہلے کی نصنیف کام شاشتریں ہندوستان کی دھارمک فحاشی کا سراغ ملتا ہے۔ جنوبی ہند کے لوگ اپنی بیٹیوں کو مندروں کے بھینٹ چڑھا دیتے تھے جنہیں دیوداسیاں کہا جاتا ، یہ کنیاتیں ‘ سنگیت اور ناچ کی تعلیم حاصل کرتیں ، جب تک جوانی کا روپ جھلمل جھلمل کرتا ان کے قدر دان بھی موجود رہتے جب جوانی ڈھل جاتی تو انہیں مندروں سے نکال دیا جاتا۔ در بدر بھیک مانگ کر گزارہ کرتیں ۔ان سے کسی ذات کا کوئی ہندو شادی نہ کر سکتا تھا ، ان سے مندر کے مہنت خوش وقت ہوتے ، یا تعلقداروں اور زمینداروں کو ترغیب دے کر انہیں داشتہ رکھنے پر آمادہ کیا جاتا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)