محراب خاں تخت پر بیٹھا تھا۔داہنے بائیں کرسیوں پر امرائے لشکر موجود تھے۔خان نے تخت سے اٹھ کرپیشوائی کی اور ایک سیمیں کرسی پر بٹھا دیا۔غلاموں کی ایک قطار چاندی کی کشتیاں اٹھائے حاضر ہوئی ۔محراب خاں پھر تخت سے نیچے اترا ۔ایک کشتی کو بوسہ دیا ۔اپنے سر تک بلند کیا اور غلاموں کے ہاتھوں پر رکھ کر سرپوش اٹھا یا ۔کشتی میں ایک تلوار رکھی تھی۔محراب خاں نے دونوں ہاتھوں سے وہ تلوار اٹھالی۔ایک امیر نے آگے بڑھ کر جعفر کی کمر باندھ دی اور کڑک دار آواز میں بولا۔
’’دربار ایران سے عطا کیا گیا خطاب میر زائی اور شمشیر شاہزادگی مبارک ہو۔‘‘
اور ایک طلائی حاشیے کا پر وانہ کشتی سے اٹھا کر جعفر کے سر پر رکھ دیا ۔جسے اس کے ہاتھوں نے سنبھالا اور اپنے سینے سے لگالیا۔غلاموں کی قطار نے کشتیاں اپنے سروں پر اٹھا لیں ۔امیروں کے رخصت ہونے پر محراب خان نے ’’فر زندارجمند‘‘کو اپنے پاس بٹھالیااور دیر تک سرگوشیاں ہوتی رہیں۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ لالہ کے بدن سے لبالب بھرے ہوئے آغوش کی لذت سے محظوظ ہوتا رہا۔پھر جدائی کی شیریں شکایتیں سن کر برج کے باہر نکل گیا۔عنبر نے تسلیم کے لئے جھکتے ہوئے عرض کیا کہ سرکار سے طلبی آئی ہے۔وہ پھاٹک پر کھڑے ہوئے گھوڑوں میں سے ایک گھوڑے پر سوار ہوا اور ہوا سے باتیں کرنے لگا۔
دارا سفید جامے پر سیاہ نیم آستین پہنے ،کانوں کے اوپر گیسو اور نیچے موتی ڈالے سفید اطلس کا چست پائجامہ پہنے دیوار میں لگے ہوئے نقشے کو دیکھ رہا تھا۔پشت پر راؤ چھتر سال کان کی لوؤں تک مونچھیں چڑھائے شاہ جہانی خود سنہری کلغی لگائے سیمین زرہ بکتر پر طلائی کمر بند میں دوہری تلواریں باندھے مستعد تھا ۔چوبدار کی آواز قدموں کی چاپ پر دارا نے گردن موڑکر دیکھا توجعفر کورنش ادا کر رہا تھا۔
’’صبح کی کرن پھوٹتے ہی قندھار کو توپوں کے گولوں سے بھردو۔‘‘
جعفر نے سرجھکا کر تسلیم کی۔
ُ’’مہابت خاں اور مرزا راجہ گولے بارود کے لئے قاصد پر قاصد بھیج رہے ہیں ۔رات ڈھلتے ڈھلتے ضرورت کا سارا سامان مہیا کردیا جائے گا۔‘‘
دارا کے نزول فرماتے ہی توپ خانے کا سارا ذخیرہ مشرقی فصیل سے لگے ہوئے ان گنت حجروں میں منتقل کردیا گیا تھااور معتبر سپاہ کا زبردست پہرہ کھڑا کردیا گیا تھا۔جب دارا نے باغِ کامراں میں جلوس کیا اور بسنت سیّد جعفر کے عمل میں رہا اور ذاتی توپ خانے کے علاوہ شاہی توپ خانہ بھی اس کے دخل میں آگیا تو یہ ذخائر اس کے حکم کے مطابق تقسیم ہوتے رہے اور نئے ذخیرے جمع ہوتے رہے۔
جعفر بڑے تردد سے دارا کے حضور میں کھڑا حکم سنتا رہا ۔اپنے کوشک میں پہنچتے ہی اس نے عنبر رضا ،قلی فرہاد خاں اور حسین علی وغیرہ پارس نژاد سرداروں کو طلب کیا۔کلام اللہ پر ہاتھ رکھ کر قسمیں کھائی گئیں ۔ہر طرف سے اطمینان کرکے جعفر نے ماتحت سرداروں کے سامنے اپنا منصوبہ کھول کررکھ دیا ۔دارا کے جلال نے تھوڑی دیر ان کی زبانوں کو ساکت رکھا لیکن جعفر کی طاقت لسانی ضائع نہ گئی ۔اورنگ زیب کی شفاعت کی امید نے ان کے حواس مجتمع کردیئے اور انہوں نے اپنا مستقبل جعفر کے قدموں میں ڈال دیا۔
پھر وہ رات طلوع ہوئی جس کے بطن سے پیدا ہونے والے ایک معمولی حادثے نے مغلوں کی زرّیں تاریخ کا رُخ موڑدیا۔قندھار کے موسم کی صاف ستھری لرزتی کانپتی رات جوان ہونے لگی تھی ۔چٹکیاں لیتی ہوئی ٹھنڈی ہوا میں مشعلیں لرز رہی تھیں ۔الاؤ چمک رہے تھے ۔راجپوت سپاہیوں کی ٹولیاں ہر ممکن چیز اوڑھے پانچوں ہتھیار لگائے الاؤ کے گرد کھڑے بیٹھے اپنے پرکھوں کے افسانے سن رہے تھے ۔مغل تیمور اور چنگیز کی یلغار دہرارہے تھے،اوزبک پٹے گارہے تھے۔اور سب نیزوں کے پھلوں میں لگی ہوئی مشعلوں کے پیچھے اونی خیموں کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے نمدوں پر ایک بڑا بھاری لحاف بچھا تھا اور لحاف کے اندر ڈھکی ہوئی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں ، ماں کی گود سے بھی زیادہ گرم لحاف ان کا انتظار کررہا تھا ۔
دارا شکوہ جنگی کاروبار تہہ کرکے رکھ چکا تھا اور ’’مجمع البحرین ‘‘ کی کتاب کی تصحیح کر رہا تھا ۔سردارانِ عظام اپنے معتبر سورماؤں کادربار لگائے کل کی مہم کا نقشہ سمجھا رہے تھے۔
لالہ قالینوں کے فرش پر لیٹی تھی اور کم سن خواجہ سرا اس کے جسم کی مالش کررہے تھے ۔محراب خاں قزلباشوں کے ساتھ منہدم دیواروں کی مرمت کا معائنہ کررہا تھا اور جعفر مسند پر کہنیاں گاڑھے دونوں ہاتھوں میں سرتھامے اپنے اس مستقبل کی صورت دیکھنے کی کوشش کررہا تھا جو منصوبے کے آتشیں دریا کے اس پار کھڑ ا تھا۔
پھر ایک دھماکا ہوا۔گویا’’گڑھ بھنجن‘‘جیسی سینکڑوں توپیں ایک ساتھ دغ گئی ہوں۔جیسے ’’ہتھیار نکہت‘‘کے سارے بادلوں کی گرج جمع کرکے ایک ساتھ چھوڑ دی گئی ہو۔’’مجمع البحرین ‘‘کے ورق بکھر گئے ۔مہابت خاں اپنے عہد کاسب سے وزنی بکتر پہننے لگا۔مرزاراجہ جے سنگھ نے گھڑیال پھونک کر گھوڑا طلب کرلیا۔رستم خاں فیروز جنگ دستر خواں سے اچھلا اور اپنے ہاتھی کے ہودج پر چڑ ھ گیا۔لالہ خواجہ سرا ؤں کے ریشمی ہاتھوں سے پھل کر کھڑی ہوگئی لیکن آئینے میں اپنا برہنہ عکس دیکھ کر دھپ سے بیٹھ گئی۔جعفر کا پاؤں کئی بار رکاب سے پھسل گیا اور محراب خاں دروازہ باباولی کی نو ساختہ دیوار کے نیچے شکر کے سجدے میں گر پڑا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں