تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 17

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 17
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 17

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دار ا نے مہابت خاں کی طرف نگاہ کی ۔خان نے ہاتھ باندھ کر گزارش کی۔
’’ہماری آتش بازی نے دشمن کے کارخانے غارت کردیئے ہیں ۔جلوس شاہانہ کا شرف پانے والی عمارتیں زیرو زبر ہوچکی ہیں۔ غلام کی رائے ہے کہ ’’عقدہ کشا‘‘اور ضرب عزرائیل دوسری توپوں کے ایک دستے کے ساتھ دروازہ بابا ولی پر لگا دی جائیں اور چند گھنٹے مسلسل گولہ باری کی جائے تو اُمید ہے کہ دروازے کو صدمہ پہنچے گا اور دشمن ہماری تلوار کا شکار ہوگا۔‘‘ 
راجہ مرزا جے سنگھ نے عر ض کیا۔
’’خندق عبور کرلی ہے اور دوہزار راجپوت دیوار کے نیچے پہنچا دیئے ہیں ۔اگر توپ خانے کی مدد حاصل ہوجائے اور برج سے آگ کی برکھا تھم جائے تو کمندوں کے ذریعہ اپنا لشکر قلعے میں اُتار دوں ۔‘‘

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دارا خاموشی سے سنتا رہا۔پھر سپہ سالار وں کو سواری کا حکم دیا۔ان کو عقب میں لے کر تمام مورچوں کا معائنہ کیااور حکم دیا کہ تمام بڑی توپیں دروازہ باباولی اور’’برج آب دزد‘‘ پر لگا دی جائیں اور اس وقت تک آتش بازی ہوتی رہے جب تک دشمن کی مدافعت ختم نہ ہو جائے تاکہ راجپوت کمندوں کا استعمال کرسکیں ۔
دارا اپنی بارگاہ کی طرف مڑگیا۔ مہابت خاں اور مرزا راجہ گھوڑے اڑا کر توپوں کی نشست کے لئے مقامات کا انتخاب کرنے لگے جو جگہ مناسب خیال کی جاتی وہاں ایک نیزہ گاڑھ دیا جاتا۔مغرب کے وقت تک ایک ایک توپ کی نشست کا تعین کردیا گیا ۔چھوٹی چھوٹی مشعلوں کے جگنوؤں کی روشنی میں ہوائی توپیں اپنی پرانی جگہوں سے اُکھاڑ کر نئے مقامات پر نصب کی جانے لگیں ۔بڑی توپوں کی حر کت کے لئے صبح کا انتظار کیا جانے لگا۔
ادھر سورج کی پہلی کرن نے سرخ بارگاہ کے زرّیں کلس کو سلام کیا اور ادھر ہزاروں خچر اورسپاہی فولاد کے ہاتھیوں جیسی توپوں کو اونچے راستوں سے گزار کر نئے مقامات تک پہنچانے کی سرتوڑ کوشش کرنے لگے۔میدانِ جنگ تک ،جو شوروغل کا آشنا ہوتا ہے ،اس کہرام سے دہل اٹھا ۔ایک پہر رات گئے تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔صبح ہوتے ہی دارا سوار ہوا۔مرزا راجہ جے سنگھ کے مورچوں کا معائنہ کرکے ہوائی توپوں کی نشست دیکھی اور داد دی ۔پھر ’’دروازہ باباولی‘‘ پر گیا۔مہابت خاں نے پہاڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر جو بڑی بڑی سات توپیں لگا کر رکھی تھی،انہیں ملاحظہ کیا۔توپچیوں کو انعام اور سرداروں کو خلعت عطا کئے جانے کا حکم دیا اور خان کا منصوبہ بن کر واپس ہوا۔بارگاہ پر اُترتے ہی پنڈتوں اور فقیروں کو یاد کیا گیا اور قندھار پر مرکزی حملے کے لئے مبارک ساعت کا حکم دیا گیا۔ساتھ ہی سیّد جعفر کی طلبی کا حکم ہوا۔
بال بال میں موتی پروئے ،انگ انگ میں زیور گوندھے لالہ نیلے قالین پر آہستہ آہستہ رقص کر رہی تھی جیسے شاہ جہاں کا خاص بجرہ جمنا پر ڈول رہا ہو۔ایک کنیز ستار لئے بیٹھی تھی۔جیسے نئی ماں اپنی گود میں کھڑے ہوئے بچے کو چوم رہی ہو۔
سرخ وسفید جعفر چھوٹی چھوٹی بھوری مونچھوں کو بچھوں کے ڈنگ بنائے ایرانی مخمل کا جامہ پہنے ،موتیوں کے تکمے لگائے ،مندیل پر مرصع کلغی سجائے دارا شکوہ کی طرح مسند سے لگا گلاب کا پھول سونگھ رہا تھا اور لالہ کے لہریں لئے ہوئے بے پناہ جسم کے ایک ایک زاویے اور ایک ایک آن کو عمر بھر کے لیے اپنی آنکھوں میں قید کرلینا چاہتا تھا کہ ایک کنیز ادب سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کان کے پاس ہونٹ لاکر آہستہ سے بولی۔
’’آپ کو دربار میں یاد کیا گیا ہے۔‘‘
جعفر شہزادگان والا تبار کی تمکنت سے اٹھا ۔تلوار کا زاویہ درست کیا اور میٹھی میٹھی نگاہوں سے لالہ کو دیکھتا ہوا کنیزکے ساتھ نکل گیا۔(جاری ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں