تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 16

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 16
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 16

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محراب خاں نے اس کا بازو پکڑ لیا۔آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہنے لگا ۔
’’ آپ کے اختیار میں ہے۔آپ قلعہ شکن ،عقدہ کشا،فتح مبارک ،کشور کشااور گڑھ بھنجن نامی توپوں کی خرابی کا بہانے کرکے خاموش ہوسکتے ہیں ،ماہر گولہ اندازوں کو معتوب کر سکتے ہیں ۔ہوائی توپو ں کے آزمودہ کاتوپچیوں کی جگہ ناتجربہ کا توپچیوں کو بھیج سکتے ہیں۔آپ چاہیں تو بارود کے ذخیرہ ضائع کرسکتے ہیں ۔آپ چاہیں تو مغل لشکر کو محاصرہ اٹھالینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔اور۔۔۔‘‘
جیسے آخری جملہ کہتے کہتے وہ چھلک گیا ۔

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’لالہ !وہ تو ہے ہی آپ کی ۔اس کے علاوہ قندھار کی ہر کنیز آپ پر حلال کی جاتی ہے‘‘اس نے چپکے سے بازوؤں کو اپنی گردن سے اُتار دیا۔اس کی کمر پر آہستہ سے تھپکی دی اور دروازے کی طرف بڑھا ۔کنیزیں اپنے حلقے میں لئے ہوئے دوسرے ایوان میں آئیں ۔جس کے وسط میں تختوں کی قطار لگی تھی۔چمڑے کے دستر خوان پر چاندی کی لاتعداد قابوں میں انواع وقیام کی نعمتیں چنی تھیں ۔ایک خوان میں تازہ پھل ڈھیر تھے۔ایک طرف سے خان آگیا۔شفیق میزبان کی طرح لے جاکر اس کے ہاتھ دھلوائے ۔اپنے برابر بٹھایا۔خود قابیں اٹھا اٹھا کر اس کے سامنے لگائیں ۔گوشے میں بیٹھی ہوئی ایک کنیز مدہم سروں میں ارغنوں بجاتی رہی۔
ابھی کھانا ختم نہیں ہوا تھا کہ جیسے آسمان پر گرجتے ہوئے بادل زمین پر گر پڑے ۔جیسے ساون بھادوں کی کڑکتی بجلیاں ایک ساتھ جمع ہوکر قلعے پر ٹوٹ پڑیں ۔جیسے زلزلہ آگیا۔
محراب خاں اس سے رخصت لئے ہوئے بغیر باہر نکلا ۔مغل توپ خانہ قیامت ڈھائے ہوئے تھا۔محراب خاں کے رہائشی مکانات شیشے کے خوانوں کی طرح چور چور ہو گئے ۔پچاس پچاس سیر کے گولے اولے کی طرح برس چکے تو پتہ چلا کہ کتنے ہی روشناس سپاہی اور سردار شکار کئے ہوئے جانوروں کی طرح مردہ پڑے تھے۔
بارود بنانے والے اور توپیں ڈھالنے والے کارخانے زیر زبر ہوگئے۔محراب کی مہندی سے رنگی ہوئی حسین داڑھی خوف سے بھیانک ہوگئی جیسے داڑھی خون میں نہا گئی ہو۔وہ اس کے قریب کھڑا رہا ۔اور اس کی بدحواس آواز سے احکام سنتا رہا۔پھر چاندی کا ایک خوان سامنے لایا گیا۔خان نے اپنے ہاتھ سے اشرفیوں کی تھیلی جعفر کے سامنے رکھ دی اور تلوار کمر سے باندھ دی۔جعفر نے اپنا جائزہ لیا۔کچھ نہ ملا تو دارا شکوہ کی بخشی ہوئی انگوٹھی خان کی نذر کردی ۔پھر مسلح غلاموں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور وہ سرنگ میں رینگنے لگا۔
تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی وہ حیرت زدہ رہ گیا۔دیواروں پر دیبائے رومی کے دیوار پوش ٹنگے ہوئے تھے۔کاشانی اطلس کے چھت پوش کے نیچے نقری فانوس جگمگا رہے تھے۔فرش پر مصری قالین بچھا تھا۔تخت ،زرکارتخت پوشوں اور زردوز مسندوں سے سجے ہوئے دلہا بنے بیٹھے تھے۔چاندی کی انگیٹھیوں میں نجورات سلگ رہی تھیں اور لالہ ریشمی ازار اور ایرانی قبا پہنے دراز تھی۔ایک کنیز اس کے بالوں کو عود سے دھوئیں سے بسا رہی تھی۔اسے دیکھتے ہی کنیز سلام کرکے دروازے میں غروب ہوگئی ۔اس نے بڑھ کر دروازہ بند کردیا اور لالہ کے کھلے ہوئے بے مہا حسن میں کھو گیا۔
دارا شکوہ چاندی کے تخت پر بیٹھا ہوا مجمع البحرین کے کتابت کئے ہوئے اوراق پڑھ رہا تھا۔خواجہ سرا بسنت طلائی کشتی میں دوسرا جز لئے کھڑا تھا۔فہیم ایک ہاتھ میں قلم دان اور دوسرے ہاتھ میں قلم پکڑے ہوئے تھاجو عقاب کے پر کی کلغی لگائے ہوئے تھا۔جعفر نے تخت کے سامنے کھڑے ہوکر کورنش ادا کی ۔دارا نے کاغذ بسنت کی کشتی میں ڈال دیا اور تخیلیے کا اشارہ کیا۔
’’تمہارے درویش کا کیا حال ہے؟‘‘
’’وہ عمل پڑھ رہے ہیں صاحب عالم !اوربندہ درگاہ دودن سے ان کی خاموشی حضوری کی سزا بھگت رہاہے۔آج بڑی مشکل سے مجرے کی اجازت لیکر حاضر ہواہوں۔‘‘
’’ہمارا خیال ہے کہ وہ اپنے عمل میں اور شدت سے مشغول ہوجائیں ۔‘‘
’’صاحب عالم !میری گزارش ہے۔‘‘
دارا نے تالی بجادی۔
بسنت کھڑا ہوگیا۔
’’مابدولت سوار ہوں گے۔سردارانِ لشکر کو حکم پہنچایا جائے کہ’’بابِ کامرانی ‘‘ پر حاضر ہوں ۔‘‘
اور دارا کھڑا ہوگیا۔جعفر تسلیم کر کے باہر نکل آیا۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
باغ کامران کے داخلے ’’باب کامرانی ‘‘کی محراب میں کھڑے ہوئے امیروں نے دارا کی سواری دیکھ کر مجرا اد اکیا۔میدان میں سپہ سالار وں کے ذاتی رسالوں کے گھوڑے آہنی پاکھیریں پہنے پاؤں پٹک رہے تھے۔ان کی لگا میں پکڑے جیالے سوار سے پاؤں تک اُپچی بنے خاموش کھڑے تھے۔(جاری ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں