پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کی طرف سے پاکستان بورڈ کو یہ اطلاع نہیں دی گئی کہ بھارتی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لئے پاکستان نہیں آئے گی۔ یہ بھارتی میڈیا کی خبر ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو بھارتی بورڈ کو ہمیں تحریری طور پر آگاہ کرنا چاہیے، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ٹیم پاکستان نہیں جائے گی، وہ غیر جانبدار مقام پر اپنے میچ کھیلنے کے لئے تیار ہے اور ترجیح دوبئی کو ہے، اس اطلاع ہی کی روشنی میں محسن نقوی نے میڈیا کانفرنس میں صحافیوں کو آگاہ کیا ان کا کہنا تھا کہ کسی ہائبرڈ انتظام کی کسی اجلاس میں بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ابھی تک پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا ہے، مختلف سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت ہو چکا اب ایسا کوئی نظام قبول نہیں، تحریری طور پر آگاہ کیا گیا تو ہم بھی اپنی حکومت سے رجوع کریں گے۔
سید محسن رضا نقوی کی سرپرستی میں چیمپئنز ٹرافی کے لئے بہت وسیع تر انتظامات ہو رہے ہیں، حتیٰ کہ کراچی اور لاہور سٹیدیم کی تو تعمیر نو شروع ہے جبکہ راولپنڈی سٹیڈیم کی تعمیر نو اور اسلام آباد میں نئے سٹیڈیم کے لئے بھی رقوم مختص کر دی گئی ہیں اور یہ منصوبے 72ارب روپے سے بھی زائدخرچ کے ساتھ مکمل ہوں گے بھارتی ٹیم کی آمد کی توقع شنگھائی کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت سے پیدا ہوئی تھی اور اظہار بھی کیا گیا، لیکن مودی حکومت کے طرز عمل کو نظر انداز کیا گیا اور اب تو مودی اور بھی چڑچڑا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے ہائبرڈ نظام کو بڑا دھچکا لگا ہے کہ اسی ہائبرڈ نظام کی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں بھارت کی مرکزی حکومت سے کشمیر (مقبوضہ) کی سابقہ خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو واپس بحال کرکے کشمیر (مقبوضہ) کی خصوصی حیثیت واپس کرنے پر زور دیا گیا۔ بھارت کی طرف سے معمول کے مطابق یہ الزام بھی پاکستان پر دھر دیا گیا حالانکہ پاکستان کا موقف تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں تاہم خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام ان قراردادوں کی بھی نفی ہے کہ کشمیر متنازعہ ہے اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اس لئے اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی اس قرارداد کا جواب ہمیں یہ دیا گیا کہ بھارتی میڈیا کی طرف سے آگاہی دی گئی۔
سید محسن نقوی نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی بھی اجلاس میں ایسے کسی انتظام پر غور نہیں ہوا، البتہ پاکستانی میڈیا کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھارتی ٹیم کی سیکیورٹی اور تحفظ کا مکمل یقین دلایا گیا تھا۔ایک تجویز یہ بھی تھی کہ بھارتی ٹیم کے لئے شیڈول میں یہ سہولت بہم پہنچائی جا سکتی ہے کہ اس کے تمام میچ لاہور میں ہوں اور وہ میچ کھیلنے اور کھیل کر واپس جانے کے لئے واہگہ سرحد سے آ جا کر چندی گڑھ یا دہلی چلی جایا کرے، اس تجویز کی تصدیق بورڈ کی طرف سے نہیں کی گئی تھی تاہم اسے بھارتی حکومت کے رویے ہی کے پیش نظر ایک درمیانی راستہ تصور کیا جا رہا تھا۔ بھارت کو یہ بھی منظور نہیں ہوا اور یوں جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، اب معاملہ تب طے ہوگا جب بھارتی بورڈ کی طرف سے باقاعدہ اطلاع موصول ہو گی، آئی سی سی میں نقصان کا کلیم تو داخل کیا جا سکتا ہے لیکن بھارتی حکومت کے رویے کے بعد بھارتی بورڈ کے خلاف کاررو ائی ممکن نہ ہوگی کہ اب تو آئی سی سی کے چیئرمین صاحب بھی بھارتی ہیں۔
ذکر تو مقصود تھا، پاکستان کے شاہینوں کی آسٹریلیا میں حالیہ کارکردگی کا کہ یہ جاگ گئے اور پہلے ہی ایک روزہ میچ میں اپنی کارکردگی سے توجہ مبذول کرالی، پاکستان میں انگلینڈ ٹیم سے تین ٹیسٹوں کی سیریز 2-1سے جیتی گئی تو اس کے لئے راولپنڈی میں وکٹ بنا کر سپنر سے کام لیا گیا میرے سمیت اکثر حضرات کا خیال تھا کہ دورۂ آسٹریلیا یا دیگر ممالک میں پریشانی ہوگی کہ وہاں باؤنسی اور تیز وکٹ ہوتی ہیں لیکن پہلے ہی میچ میں ہمارے فاسٹ باؤلرز نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں اگرچہ آسٹریلیا نے یہ میچ دو وکٹ سے جیت لیا لیکن شاہینوں کی کارکردگی پر داد دی گئی تھی اور یہ حوصلہ افزاء بات تھی کہ شکست کو خندہ پیشانی سے قبول کیا گیا اور نقطہء چینی نہ کی گئی، حالانکہ اوپننگ جوڑی ناکام ہوئی اور بابر گو اچھا کھیلے لیکن سکور صرف 37کئے اور وکٹ بھی غلط کھیل کر گنوائی۔ بہرحال ان کو بھی داد ہی ملی اور پھر ٹیل اینڈرز شاہین آفریدی اور نسیم شاہ نے بھی اچھی بیٹنگ سے سکور کو 203تک پہنچا دیا یہ سکور بہرحال کم تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آسٹریلیا میچ آسانی سے جیت جائے گا لیکن باؤلر نے یہ تصور بھی مٹا دیا اور آسٹریلیا مشکل سے دو وکٹ بچا کر میچ جیت سکا اس کے بعد دوسرے میچ میں تو کارکردگی ہی کارکردگی تھی کہ باؤلرز نے آسٹریلیا کو زچ کرکے کم سکور پر آؤٹ کیا اور پھر وہی صائم ایوب اور عبداللہ شفیق قابل تعریف ٹھہرے جن کو پرچی والے کھلاڑی کہا جا رہا تھا۔
میں نے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی تو کوئی کمی نہیں لیکن بہتر منصوبہ بندی نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کو سرپر بٹھایا جاتا یا پھر پٹخ دیا جاتا ہے حالانکہ ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے اسی طرح ان کو اچھی پریکٹس اور بہترین فٹنس بھی لازمی چاہیے اور اس کے لئے مواقع مہیا کرنا چاہئیں۔ ساتھ ساتھ نفسیاتی تجزیئے کی تجویزدی تھی لیکن یہ سب کچھ کھلاڑیوں نے کئے بغیر آسٹریلیا سے سیریز برابر کر کے اب فتح کے لئے آج (اتوار) کوشش ہو گی کہ اس طرح سیریز بھی جیتی جائے گی۔بورڈ کے لئے میری تجویز ہے کہ اچھی کارکردگی والے تمام کھلاڑیوں کو کرکٹ اکیڈمی کے ذریعے تربیت دیتے رہنا چاہیے، ہمارے پاس اب تو بیک اپ کے لئے بھی کھلاڑی موجود ہیں، نئی سلیکشن کمیٹی اور بورڈ حضرات سے توقع ہے کہ وہ فخر زمان کے مستقبل سے نہیں کھیلیں اور اس کا معاملہ جلد ہی حل کرکے اسے پھر سے موقع دیا جائے گا۔
حالات جو بھی ہیں سب کے سامنے ہیں، کئی بار یہ طے ہوا کہ پاکستان میں کراچی اور لاہور کے علاوہ باقی شہروں میں بھی اچھی وکٹیں بنائی جائیں گی اور اب تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، براہ کرم کھلاڑیوں کے مستقبل سے نہ کھیلیں ان کو نفسیاتی طور پر پریشان نہ کریں، ان کو تحفظ بھی دیں، معمولی غلطیوں کی نشان دہی ضرور کریں لیکن سزا سے اجتناب کریں، مجھے انتظار ہے کہ مری، ایبٹ آباد اور گلگت بلتستان کے میدانوں میں بھی وکٹیں تیار کی جائیں گی تاکہ ہمارے کھلاڑی ہر قسم کے موسمی حالات اور ہرطرح کی وکٹوں سے آشنا ہو سکیں،یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی کی کارکردگی میں تسلسل ہو یہ بہتر تربیت، نگرانی اور سہولتوں ہی سے ممکن ہے اور ہاں شکست پر گالی دینی سے گریز کریں اور فتح کا اتنا بڑا جشن بھی نہ منائیں جیسے یہ کھلاڑی ناقابل ِ شکست ہیں۔