رات نصف بیت چکی تھی۔ کامران کی بارہ دری کا علاقہ گھنے باغات کی مسحور کن خوشبوﺅں سے معطر تھا۔ مگر جب سارا ہی ماحول دھوئیں اور خون سے لت پت تھا تو یہاں سکون کیسا....! گاماں حویلی کے کھلے صحن میں سویا ہوا تھا جب اذان کی آواز سن کر وہ اٹھ بیٹھا۔ کوئی عورت دلگداز لہجے میں اذان دے رہی تھی مگر ساتھ ہی کتوں اور بھیڑیوں کا شور محشر تھا۔گاماں اٹھا اور چارپائی کے سرہانے رکھا لٹھ اٹھا کر باہر کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کتوں کا ایک غول دائرے بنائے کسی پر حملہ آور ہے۔ گاماں کو تعجب ہوا۔ کتے کسی انجانی چیز پر حملہ آور تھے۔ کیونکہ وہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاماں لٹھ لے کر آگے بڑھا۔اذان کی آواز معدوم ہو چکی تھی اور اب کسی عورت کی کرب ناک آواز گونجنے لگی۔ ”اے بے کسوں کے والی، مسلمانوں کو جگا دے۔ اے مالک کل، بے ہمت مسلمانوں کو ہمت دے“۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62
یہ آواز اسی انجانی قوت کی تھی جو کتوں کے نرغے میں تھی۔ گاماں اس عورت کو کتوں کے نرغے سے بچانے کیلئے جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا، وہ سایہ غائب ہوتا جا رہا تھا۔ آگے قبرستان تھا۔ گاماں پہلوان نے یہاں تین مردوں کو دیکھا جو ہاتھوں میں لالٹین اٹھائے پریشانی کے عالم میں گھوم رہے تھے۔ انہوں نے گاماں کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے قریب پہنچے۔
”پہلوان جی! یہ عورت کون ہے؟“
” پہلوان جی، ہم تین روز سے اس عورت کی کرب ناک التجائیں سن رہے ہیں۔ نہ جانے یہ مظلوم کون ہے اور کس نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے“۔
ایک شخص نے گاماں سے کہا۔ ”مجھے تو شک ہے پہلوان جی! یہ ان عورتوں میں سے ہے جن کی سرکاری ٹرکوں پر لاشیں لائی جاتی ہیں اور یہاں انہیں مردوں کے ساتھ دفنایا جاتا ہے“۔
گاماں غصہ سے کانپ گیا۔ ”اوئے بھلے مانس تو کس ٹرک کی بات کر رہا ہے اور یہ مردوں اور عورتوں کی اکٹھی قبروں کا تمہیں کس نے بتایا ہے۔ مجھے جلدی سے بتاﺅ یہ کون کر رہا ہے“۔
”یہ تو معلوم نہیں مگر یہ ٹرک روزانہ رات کو راوی کے کنارے آتا ہے اور ایک بڑے گڑھے میں مسلمان لڑکیوں، عورتوں اور مردوں کی لاشیں پھینک کر چلا جاتا ہے جنہیں بعد میں اوپر مٹی ڈال کر دفنا دیا جاتا ہے“۔
گاماں پہلوان کا دل غصہ سے بھر گیا تھا۔ ”میں دیکھتا ہوں ان حرام زادوں کو.... ان کی اتنی جرات....“
اگلے روز گاماں پہلوان رات ہوتے ہی اس مقام پر پہنچ گیا جہاں سرکاری ٹرک آتا تھا۔ عشاءکے قریب کا وقت تھا جب وہ ٹرک آ گیا۔ اس وقت گاماں پہلوان ایک بڑے درخت کے عقب میں چھپا ہوا تھا۔ جب ٹرک ایک گڑھے کے قریب آ کر رکا اور سرکاری کارندوں نے ٹرک میں سے عورتوں کی لاشیں گھسیٹ کر نیچے اتارنا چاہیں تو گاماں لٹھ لئے ان کے سروں پر پہنچ گیا۔ اس وقت کل والے تینوں مرد بھی گاماں کے ساتھ تھے۔ سرکاری کارندوں نے گاماں پہلوان کو دیکھا تو تلخی سے پوچھنے لگے۔
”ابے تو کون ہے اور رات کے سمے ادھر کیا کرنے آیا ہے؟“
”کتو! میں تمہاری موت ہوں۔ بے شرمو تمہیں موت نہیں آئی یہ کام کرتے ہوئے“۔
گاماں کو خونخوار دیکھا تو سرکاری کارندے کانپ گئے۔ ”ہم تو سرکار کے غلام ہیں۔ ہمیں تو اپنی نوکری کرنی ہے“۔
”جان چاہتے ہو تو بھاگ جاﺅ۔ ورنہ ہڈیوں کا سرمہ بنا دوں گا“۔ گاماں آگے بڑھا تو ایک کارندہ اسے روکنے کیلئے راستے میں کھڑا ہو گیا۔ گاماں پہلوان نے اسے گردن سے دبوچا اور اٹھا کر گڑھے میں پھینک کر دھاڑا۔ ”اب یہاں تمہاری لاشیں ہی دفن ہوں گی“۔
ان سب نے گاماں پر حملہ کر دیا۔ گاماں نے انہیں ہاتھوں اور پاﺅں کی ٹھوکروں میں رکھ لیا اور انہیں ایک ایک کر کے گڑھے میں پھینک دیا۔ ان کا افسر اعلٰی بھی ہمراہ تھا۔ گاماں دوسرے کارندوں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد جب اس کی طرف بڑھا تو وہ لرزتا ہوا تنبیہ کرنے لگا۔
”دیکھو مسٹر تم نے بہت برا کیا۔ اب ہم کو کچھ نہ بولنا ورنہ سرکار تمہیں چھوڑے گی نہیں“۔
گاماں نے سنی ان سنی کی اور اسے بھی اٹھا کر گڑھے میں پھینک دیا اور اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”ڈال دو ان بے شرموں کی لاشوں پر مٹی“۔
تینوں افراد نے بیلچے کی مدد سے ان سب کو زندہ درگور کر دیا۔ گاماں پہلوان ٹرک پر چڑھا تو دلخراش منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ ٹرک مسلمان لڑکیوں کی برہنہ لاشوں سے بھرا پڑا تھا۔ گاماں نے اپنے تینوں ساتھیوں کو حویلی بھیجا اور اپنی پگڑیاں اور چادریں منگوا کر تمام لاشوں کو کفن پہنایا اور راتوں رات ان کی قبریں کھود کر انہیں الگ الگ دفنا دیا۔
اس فریضہ کو انجام دینے کے بعد گاماں جی بھر کر رویا۔ چند روز تک تو وہ انتہائی مغموم رہا۔اس نے مسلمان اور غیر مسلموں کے اتحاد اور بھائی چارے کا ایک سنہری دور دیکھا تھا مگر اب ہندوﺅں اور سکھوں کی نفرت اور سفاکانہ سلوک کا انسانیت سوز منظر دیکھ کر اس کا دل کٹ سا گیا تھا۔ گاماں پہلوان نے چند روز بعد دیگیں پکوائیں اور ان مقتول مسلمان عورتوں مردوں کے ایصال ثواب کیلئے ختم دلوایا۔
گاماں پہلوان کو پھر کبھی اس عورت کی دلخراش چیخیں سنائی نہ دیں جو رات کے سناٹے میں کتوں اور بھیڑیوں کے نرغے میں اذان دیتی ہوئی یہاں سے گزرتی تھی۔
۔۔۔
اکھاڑے پھر سے آباد ہونے لگے۔
پاکستان کا پہلا دنگل یونس پہلوان اور بھولو نے لڑا۔
بھولو کی تیاریاں دیدنی تھیں۔
زندگی واپس لوٹ رہی تھی۔ موسم بہار کی تازہ دم ہواﺅں نے پژمردہ اور سوگوار دلوں کو پھر سے جواں اور زندہ کر دیا تھا۔ اپنے عزیزوں کی قربانیاں دے کر پاکستان بنانے والوں نے ایک نئی کروٹ لی اور ماحول پر چھائی افسردگی اور سوگواری کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ ان کے ارادوں کی توانائیاں کھل کر سامنے آ گئیں۔ وہ سب اپنے غم فراموش کر کے پاکستان کو ایک پربہار چمنستان دیکھنا چاہتے تھے۔ زندہ دلان لاہور نے سب سے پہلے پہل کی اور کھیلوں کے میدان آباد کر دئیے۔ لوگ ابھی نئے نئے کھیلوں سے آشنا نہ تھے۔ سوائے پہلوانی کے ان کیلئے اور صحت مند اور جسمانی سرگرمیاں نہیں تھیں۔
لوگوں کا ایک وفد ملک محمد شفیع اور چودھری دین محمد ٹھیکیدار کی راہنمائی میں کامران کی بارہ دری آیا ہوا تھا۔ گاماں پہلوان نے مہمانوں کو دریا کے کنارے پھلوں کے باغ میں جہازی چارپائیوں پر بٹھایا اور دل و جان سے ان کی خدمت کی۔ اس وقت رستم زماں کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ ان کی آﺅ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کیونکہ یہ تمام لوگ اس کے دیرینہ حریف رحیم سلطانی والا کے شہر سے آئے تھے۔
چودھری دین محمد نے گاماں رستم زماں سے کہا۔ ”بابا جی! اللہ سوہنے نے پاکستان بنادیا ہے۔ اب ہمیں اکھاڑوں کو پھر سے آباد کرنا چاہئے۔ ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو خدا نہ کرے اکھاڑے ہمیشہ کیلئے ختم نہ ہو جائیں“۔
”اللہ نہ کرے ٹھیکیدار جی! کیا بات کر رہے ہیں“۔ گاماں پہلوان نے کہا۔ ”بھئی اکھاڑوں کو آباد کرنے کی اصل ذمہ داری تو آپ لوگوں پر ہے۔ دنگل ونگل کراتے رہو گے تو رونق جمتی رہے گی۔ بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ اب پہلے والی بات نظر نہیں آ رہی۔ اب نہ وہ راجے مہاراجے ہیں اور نہ وہ جذبہ، حکومت سے کچھ مدد کی توقع رکھنا فضول ہو گا۔ابھی پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہم ملکی خزانے پر بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت دنگل کرانے ہوں گے۔ آپ لوگ بسم اللہ کریں میں ہر طرح سے راضی ہوں“۔
ملک شفیع نے وفد کے ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”بابا جی! یہ لوگ گوجرانوالہ سے بڑی امید لے کر آئے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ بھولو اور پونس پہلوان کے درمیان ایک بڑی کشتی کرائی جائے“۔
”ہاں بھئی! ہونی چاہئے۔ یونس کا بڑا چرچا ہے بھئی۔ سچی بات تو یہ ہے، اسے رحیم بخش نے تیار کیا ہوا ہے اس لئے وہ عام پہلوان تو رہا نہیں“۔ گاماں پہلوان نے کہا۔ ”میں تو کہتا ہوں بس اگلے مہینے دنگل کرا دو“۔
وہ لوگ جس مقصد کے تحت آئے تھے وہ پورا ہو گیا۔ ٹھیکیداروں نے معاملہ چلایا اور قیام پاکستان کے ٹھیک دس ماہ بعد اکھاڑے پھر سے آباد ہو گئے۔ پہلے والی چہل پہل ہونے لگی۔ باداموں کی بوریاں کھلنے لگیں اور گھروں میں بیبیاں آیت الکریمہ پڑھے باداموں سے سردائیاں تیار کرنے لگیں۔ بھولو پہلوان اور یونس کا جوڑ کیا طے ہوا لاہور اور گوجرانوالہ میں میلے سجنے لگے۔ منٹو پارک میں روزانہ اکھاڑہ ہونے لگا۔ بھولو کو موہنی روڈ (لاہور) اور یونس پہلوان کو کھیالی والا (گوجرانوالہ) میں تیار کرایا جانے لگا۔ چند روز بعد بھولو کو اوکاڑہ لے جایا گیا۔ حکومت پاکستان نے گاماں اور امام بخش پہلوان کو اوکاڑہ میں زمین الاٹ کی تھی جس کی آمدنی سے پہلوان اپنے اخراجات اٹھا رہے تھے۔ (اب یہ زمین گورنمنٹ ضبط کرنے کی کارروائی کر رہی ہے جس سے یہ خاندان نہایت مشکلات میں گھر چکا ہے) بھولو کو دن رات تیار کرایا جا رہا تھا۔
بھولو اس وقت اپنے تمام بڑوں کے نرغے میں پھنسا ہوا تھا۔ رات کا آخری پہر اس کی ریاضت کیلئے مخصوص تھا۔ اکھاڑے میں امام بخش، گاماں پہلوان، حمیدا پہلوان بذات خود لنگوٹ کسے ہوئے بھولو کے سامنے کھڑے تھے۔ بھولو کو اپنے سامنے قائم فولادی دیوار کو گرا کر ان کے عقب میں موجود بیس پہلوانوں کو زور کرانا تھا۔
بھولو نے سب سے پہلے امام بخش پر حملہ کیا جو درمیان میں پہاڑ کی مانند کھڑا تھا۔ امام بخش نے اپنے چھبیس سالہ شیر کو نظر بھر کر دیکھا اور پھر پینسٹھ سالہ امام بخش نے اسے پلک جھپکتے میں اکھیڑ لگا کر نیچے گرا دیا اور اس پر سوار ہو گیا۔ کڑیل جواں بھولو بوڑھی ہڈیوں کا دباﺅ برداشت نہ کر سکا اور چلایا۔
”ابا جی خدا کے واسطے ذرا دباﺅ کم ڈالیں“۔
”ناں بھئی پتر! اس طرح تو نہیں ہوتا“۔ امام بخش نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ”ہمت کر اور نیچے سے نکل کر دکھا“۔
”ابا جی! میں نے ہاتھ پیر ہلایا تو کہیں آپ کی ہڈی پسلی نہ ٹوٹ جائے“۔ بھولو نے طنز کیا۔ باپ بیٹے میں دوستوں جیسی بے تکلفی تھی۔
”پرواہ نئیں“۔ امام بخش نے کہا۔ ”زیادہ باتیں نہ کر اور جلدی اٹھ“۔ (جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں