یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی مفصل رپورٹ ہے۔ اس کا نام اگرچہ رپورٹ ہے، تاہم یہ رپورٹ کم،کتاب زیادہ ہے، بلکہ رپورٹ بھی نہیں کتاب ہی ہے جو297 صفحات پر مشتمل ہے۔ یوں بھی رپورٹ تو ہمیشہ مختصر ہوتی ہے، جبکہ کتاب مفصل۔ اس لئے اس پر ہم رپورٹ کا اطلاق کیسے کریں؟ لیکن ہم مجبور ہیں، جب صاحب قلم ہی اس کو رپورٹ قرار دیں تو ہمیں اس رپورٹ کو کتاب کہنے کا حق کیسے حاصل ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا اب اسے کتاب ہی لکھیں گے۔یہ کتاب بڑے سائز کے دو سو ستانوے صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں تصویریں بھی ہیں ،تحریریں بھی ہیں۔ ساری تصویریں اور تحریریں علم میں اضافہ کرتی ہیں۔ دنیا والوں نے کیمرہ ایجاد کیا، اسے استعمال بھی کیا ۔ ہم اہل اسلام ابھی اسی بحث میں ہیں کہ تصویر جائز ہے یا ناجائز؟ فیصلہ نہیں ہو پاتا۔کاش! اسلامی نظریاتی کونسل اس بارے میں کوئی حتمی رائے پیش کر سکتی تاکہ تصویر کشی کا مسئلہ تو حل ہوجاتا، لیکن اللہ بھلا کرے مجھ جیسے سفید بال، پراگندہ حال، پرائی سوچ کے حامل لوگوں کا۔ جب تک یہ لوگ موجود ہیں ، تصویر کا مسئلہ حل سے کوسوں دور ہی رہے گا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نامی کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان حکومت کا معتبر اہم ادارہ ہے جس کی تشکیل کا خیال پاکستان کے فیلڈ مارشل صدرجنرل محمد ایوب خان کے دل میں آیا۔ آج کل ڈاکٹر حافظ اکرام الحق اس ادارے کے سیکرٹری ہیں جو صاحب علم بھی ہیں اور صاحب تقویٰ بھی۔ منصب کی عظمت و رفعت کے باوجود عاجزی و انکساری ان کا وصف ہے۔ ذوق مطالعہ اور دین کی خدمت کے علاوہ انہیں کسی اور چیز سے غرض نہیں ہے۔ طلب جاہ سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ مذکورہ کتاب ان کے قلم اور محنت کا نتیجہ ہے۔ تحریر کی شوخی، الفاظ کی بندش اور چناؤ، کاغذ کی نفاست، طباعت کی نظری جاذبیت سب ڈاکٹر صاحب کی نفاست کی آئینہ دار ہیں۔ کتاب کا نقش اوّل جون2016ء کو منصہ شہود پر آیااور موسیٰ پرنٹرز بلیو ایریا اسلام آباد سے شائع ہوا اور کونسل کے زیر اہتمام ہی شائع ہوا اور اہل علم کے ذوق مطالعہ کا سبب بنا۔ ہماری دانست میں اس کو محض رپورٹ کہنا شاید درست نہ ہو، کیونکہ یہ ایک مبسوط کتاب ہے جس میں پاکستان کی تاریخ کے بعض مستور گوشے بھی منکشف ہیں، جن سے اہم معلومات ملتی ہیں۔رپورٹ کے آغاز میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا لکھا پیش لفظ ہے۔ اس کے علاوہ کونسل کے سیکرٹری محترم حافظ ڈاکٹر اکرام الحق کا مبسوط مقدمہ، پھر جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کا تبصرہ اور مولانا زاہد الراشدی اور محمد عبداللہ صاحب رکن نظریاتی کونسل کی مختصر تحریریں ہیں، جنہوں نے اس رپورٹ نما مبسوط کتاب کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
نو ابواب پر مشتمل اس کتاب کے ہر باب میں مختلف فصول ہیں۔ باب اول کا عنوان فکری پس منظر ہے جس کی تین فصول ہیں۔ عنوانات درج ذیل ہیں: پہلی فصل کا عنوان علامہ اقبال کی فکری اور عملی کاوشیں ہے۔اس حوالے سے پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور کے ایک بڑے زمیندار چودھری نیاز علی خاں صاحب کا بھی تذکرہ ہے، جنہوں نے علامہ اقبال کے ایما پر اپنی زمین سے ایک سو چھیاسٹھ ایکڑ اراضی وقف کی۔ چودھری نیاز علی خاں، علامہ اقبالؒ کے عقیدت مند تھے۔ علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ اس اراضی پر فقہ اسلامی کی تدوین نو کے لئے کام شروع کیا جائے۔ اسی ضمن میں جرمن نو مسلم علامہ محمد اسد کا بھی تذکرہ ہے اور ان کی ان مساعی کا بھی ذکر ہے جو انہوں نے مملکت پاکستان کے لئے سرانجام دیں۔ فصل دوم میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی نظریاتی سمت، اس میں قائداعظمؒ کی وہ تقاریر شامل ہیں جو انہوں نے تشکیل پاکستان سے قبل مسلم بیداری کے لئے کیں۔ان تقاریر میں بہار میں مسلم لیگ کانفرنس۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، پٹنہ، ممبئی، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد، آل انڈیا مسلم لیگ۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس کے خطابات شامل ہیں۔اسی طرح فصل سوم میں تحریک پاکستان کے دوران نظریاتی اداروں کے قیام کی تجاویز شامل ہیں نیز مجلس نظام اسلامی، مجلس تعمیر ملی کمیٹی آف رائیٹرز کا تذکرہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ نظریاتی کونسل۔ ادارہ اسلامی تشکیل نو کے اغراض و مقاصدشامل ہیں۔
یہ ادارہ16 اکتوبر1951ء لیاقت علی خان کے انتقال تک قائم، متحرک اور فعال بھی رہا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کو صحیح اسلامی ریاست بنانے کی کوششیں دم توڑ گئیں۔ اگر پوری طرح دم نہیں توڑا تو کم کم ماند ضرور پڑ گئیں۔باب دوم کی فصل سوم کا عنوان پہلی مجلس دستور ساز پاکستان ہے۔ اس دستور ساز اسمبلی کی تشکیل برطانوی ہند کے تحت 1946ء میں عمل میں آئی جس کا نام مجلس دستور ساز برائے متحدہ ہندوستان تھا، لیکن مسلم لیگ نے اس کا بائیکاٹ کیا اور پاکستان کے لئے الگ دستور ساز مجلس کا مطالبہ کیا جو منظور ہوا اور دستور ساز مجالس قائم ہوئیں۔ طے پایا کہ دستور بننے سے پہلے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935ء نافذ العمل رہے گا۔ پاکستان کے لئے مجلس دستور ساز میں بوجوہ دودھڑے قائم ہو گئے۔ ایک دھڑے کی قیادت افتخار الدین کر رہے تھے جو خود کمیونسٹ تھے۔سیاسی لحاظ سے کانگرسی تھے، جبکہ دوسرا گروپ ان لوگوں کا تھا جو پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتا تھا۔ اس کے بیشتر ارکان مولانا شبیر احمد عثمانی کے حلقہ اثر کے لوگ تھے۔باب چہارم کا عنوان ’’دستور ساز اسمبلی کے قائم کردہ نظریاتی ادارے‘‘ ہے۔ اس کی فصل اول میں بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ کا تذکرہ ہے۔ اس مجلس کے پانچ ارکان تھے جس کے صدر سید سلیمان ندوی تھے۔آپ نے بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ کے چیئر مین اراکین اور تمام مشہور مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کو ایک اجلاس میں آنے کی زحمت دی۔ ان سب علماء نے متفقہ طور پر دستور پاکستان کے لئے22 نکات پر مشتمل دستوری سفارشات منظور کر کے حکومت کو پیش کر دیں۔ ان نکات کا تفصیلی تذکرہ ، شریک علمائے کرام کے دستخطوں سمیت تصویری کاپی بھی رپورٹ میں شامل ہے۔ اسی باب میں مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کا ذکر ہے جس کی تشکیل، قرار داد اور بنیادی اصول، ضابطہ کار کا تذکرہ ہے۔
باب دوم کا عنوان ریاست پاکستان کے ابتدائی نظریاتی اقدامات ہے۔ اس میں پہلا دور 1947ء سے لے کر 1949ء تک کا ہے، یعنی تشکیل پاکستان کے معاً بعد کا زمانہ۔ اس کی فصل اول میں بانی پاکستان کی ان تقاریر کے اقتباسات دئیے گئے ہیں جو انہوں نے قیام پاکستان کے معاً بعد مختلف مواقع پر کیں جس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ آپ پاکستان کو کیسی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔فصل دوم میں ادارہ احیائے ملت اسلامیہ کا تذکرہ ہے اس میں1947ء سے1952ء تک کے دورانیے میں کئے گئے اقدامات کا ذکر ہے۔تشکیل پاکستان کے بعد پہلا عملی قدم ۔۔۔Deptt of Islamic Reconstruction ۔۔۔(ادارہ احیائے ملت اسلامیہ) کا قیام تھا۔ یہ ادارہ وزیر اعلیٰ پنجاب نواب افتخار احمد ممدوٹ نے علامہ اسد کی سربراہی میں قائم کیا تھا۔ اس حصے میں علامہ اسد کی وہ سات تقریریں بھی شامل ہیں جو انہوں نے پاکستان کی تاسیس کے مقاصد کے حوالے سے ریڈیو پاکستان سے نشر کیں۔باب سوم ریاست پاکستان کے ابتدائی نظریاتی اقدامات (دوسرا مرحلہ) پر مشتمل ہے۔یہ اقدامات 1949ء سے لے کر1954ء کی مساعی کے بارے میں ہیں۔ اس کی فصل اول میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں شعبہ اسلامیات کا قیام۔۔۔ شعبہ اسلامیات کے پہلے سربراہ علامہ اسد مقرر ہوئے، پھر دوسرے سربراہ علامہ علاء الدین صدیقیؒ بنائے گئے۔ گو کہ علامہ اسدؒ کو شعبہ اسلامیات کی صدارت کا عہدہ تفویض کیا گیا، تاہم وہ گیارہ ماہ بعد اپنی مصروفیات کے سبب استعفیٰ دے گئے۔ ان کے بعد عملی اقدام اور دیگر امور علامہ علاء الدین صدیقیؒ ہی نے سر انجام دئیے۔ (جاری ہے)
فصل دوم کا عنوان ’’قرار داد اور مقاصد‘‘ ہے۔12 مارچ1949ء کو مجلس دستور ساز کا اجلاس مولاناتمیز الدین کی صدارت میں ہوا، جس میں قرار داد مقاصد لیاقت علی خان نے پیش کی جو بحث مباحثے کے بعد منظور ہوئی۔باب پنجم میں تذکرہ ہے کہ1955ء میں نئی دستور ساز اسمبلی نے نئے آئین کا مسودہ تیار کیا۔آئین کا مسودہ جب عوام کے سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ اس میں کچھ باتیں قابل اعتراض ہیں۔ ان کے خلاف دینی ذہن رکھنے والی جماعتوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ یہ اظہار مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں جگہ ہوا اورانہوں نے بعض ترامیم تجویز کیں۔اس طویل بحث کے نتیجہ میں قیام پاکستان کے 8 برس بعد29 فروری1956ء کو پاکستان کا آئین پاس ہو گیا۔ باب ششم کا عنوان ’’دستور 1956ء کے تحت قائم ہونے والے نظریاتی ادارے‘‘ ہے۔ فصل اول میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے قیام کا فیصلہ۔اس کے مقاصد اور طریق کار اور حدود کا ذکر ہے۔فصل سوم میں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس کی بحث کی گئی ہے۔اس کے بعد اگلے تین ابواب، یعنی باب ہفتم، ہشتم اور نہم میں اسلامی نظریاتی کونسل کی مرحلہ وار تشکیل اور کارکردگی پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔اس میں ان سر توڑ مساعی کا بھی ذکر ہے جو ملک کے علمائے کرام نے اسلامی نظام قائم کرنے کے لئے سر انجام دیں۔اس حوالے سے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی وہ خط و کتابت بھی شامل ہے جومولانا شبیر احمد عثمانی کے ایماء پر وزیراعظم پاکستان جناب چودھری محمد علی کے درمیان ہوئی۔یہ خط و کتابت بہت اہم ہے جس میں پاکستان کی تشکیل کا ہدف متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
پوری رپورٹ کو پڑھنے کے بعد اس بات کا احساس پوری شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ تشکیل پاکستان کے فوری بعد تمام پاکستانی مسلمانوں میں اسلامی نظام کے نفاذ اور زندگیوں میں عملی انقلاب برپا کرنے کی تڑپ شدت سے موجود تھی۔ شروع کے اقدامات اسی بات پر دلائل ہیں، لیکن آہستہ آہستہ قائدین کی کہہ مکرنیوں اور سیاسی مفادات کی وجہ سے جذبات میں سرد مہری آتی گئی، لوگ مایوس ہو گئے اور اب تو یہ حالت ہے کہ نژاد نو تو قیام پاکستان کے اصلی مقصد کو بھی بھلا چکی اور حصول پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصدذہنوں سے ماند پڑ گیا اور اب کیفیت یہ ہے کہ جمہوریت ہی پاکستان کا ہدف بن کر ذہنوں پر مستولی ہو چکا ہے۔ جب ہدف ہی بے ہدف ہو جائے تو صراط مستقیم کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔رپورٹ کے مطالعہ سے مجموعی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ اسلامی نظام حیات کی طرف پیش رفت لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ تک تو پورے جوش سے جاری رہی، لیکن ان کی شہادت کے بعد اس رفتار میں وہ تیزی برقرار نہ رہی، اگرچہ اس حوالے سے کچھ کام دھیرے دھیرے ضرور ہوا اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد تو رفتار کار زیرو ہو گئی اور سیاست کاروں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے سہارے تخلیق پاکستان کے مقصد کو قصداً دھندلا کر کے رکھ دیا۔
1971ء کے بعد1976ء تک کونسل میں سیاسی عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا۔ ارکان کا چناؤ بھی سیاست اور سیاسی اغراض ہی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ پھر جنرل ضیاء الحقؒ کے زمانے میں اس ادارے کی نشاۃ ثانیہ شروع ہوئی اور بہت سے صاحب علم حضرات کو اس ادارے میں تعینات کیا گیا، جس سے اس ادارے میں خاصی چستی پیدا ہوئی اور قابل قدر پیش رفت سامنے آئی۔اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب بلاشبہ بہت اہم اور معلوماتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام کی پیش رفت کے حوالے سے کوئی ادارہ اس کتاب کے مطالعے سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔رپورٹ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کونسل جیسے ادارے کی رپورٹ ہی نہیں، بلکہ اس سیاسی اتھل پتھل کی داستان بھی ہے جو ملک کے اندر سیاسی مداریوں نے برپا کر دئیے تھے جو بالآخر ملک میں 1958ء میں برپا ہونے والے مارشل لاء پر منتج ہوئے اورپاکستان مستقل سیاسی انتشار کی طرف بڑھتا رہا اور پاکستان اپنے تخلیقی اہداف حاصل کرنے میں دور بلکہ بہت دور ہوتا چلا گیا اور ستر برس گزرجانے کے باوجود اپنی منزل کو نہیں پا سکا ۔ ایک ہندو عورت کو یہ کہنے کی شہ ملی کہ ہم نے اس نظریے کو بحیرۂ ہند میں ڈبو دیا ہے جس پر پاکستان کو علیحدہ ملک بنایا گیا تھا۔ پاکستان میں اس وقت تین طبقے ہیں۔۔۔ ایک طبقہ سرے سے اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کا قائل ہی نہیں، گو وہ زبانی طور پر اس بات کے اظہار کی جرأت نہیں رکھتا۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کا اظہار کرتا ہے لیکن سنجیدگی کے ساتھ کوشاں نہیں۔ یہ طبقہ کثیر تعداد میں ہے۔تیسرا طبقہ وہ ہے جو اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کے لئے پوری طرح سنجیدہ بھی ہے اور مقدور بھر کوشش بھی کرتا ہے۔ یہ طبقہ تعداد میں بہت ہی تھوڑا ہے۔
اصل لڑائی اول الذکر اور آخر الذکر طبقات کی ہے۔دونوں دھڑے اپنے اپنے مؤقف کو منوانے میں پورے پورے مستعد ہیں۔رکن کونسل محمد عبداللہ کے بقول نظریاتی کونسل محض ایک دفتر نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے، جو اپنے پیچھے صدیوں کی تاریخ رکھتی ہے جو آئندہ کے لئے ایک امید ہے کہ شاید کبھی وہ وقت آ جائے کہ کونسل کا کام کسی حاکم یا حکومت کے کام آ سکے اور ابھی تو بہت کام کرنا ہیں، جواسلامی ریاست کی تشکیل کے لئے ضروری ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی مذکورہ رپورٹ پڑھ کربخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کے کچھ حصے مطالعہ پاکستان کے لازمی نصاب میں شامل کرنا جانے ضروری ہیں، جن کی تدریس کے بغیر مطالعہ پاکستان کا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکتا۔یہ رپورٹ کسی محکمے کی عام روایتی رپورٹ نہیں، بلکہ اس کتاب کے اندر تشکیل پاکستان کے اہداف کا تاریخی پس منظر اور ریاستی مقصد تشکیل، جدوجہد، اسباب وجوہات، ضرورت و اہمیت و دیگر امور کا مفصل خاکہ سمٹ آیا ہے جن سے 14 اگست 1947ء کے بعد جنم لینے والی نژاد نو کو روشناس کرانا ازحد ضروری ہے۔ وگرنہ نسل نو اہداف تو ایک طرف نشان منزل بھی کھو بیٹھے گی۔ مولانا زاہد الراشدی کے مطابق پاکستان میں علمی رہنمائی کی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کے لئے سنجیدگی کی ضرورت ہے اور ہمیشہ یہ غیر سنجیدگی ہی شرعی قوانین کے نفاذ میں حائل رہی ہے۔ (ص:21 )