ہندوستان میں دھارمک فحاشی کا ایک بڑا ثبوت لنگم ہے ، یہ ٹھیک ہے کہ آریائی تہذیب نے عورت کو ازدواجی سکون مہیا کیا۔ وہ جس مرد کی شریکِ زندگی ہوتی اس کی موت پر اُس کے ساتھ ستی ہوتی۔ لیکن عورت کے جسم کو ہمیشہ ہی خطرہ رہا اور اس وقت سے رہا جب لکشمن نے سروپ نکھا کی ناک کاٹی ، راون نے سیتا پر ہاتھ اُٹھایا اور پانڈو دروپدی کو ہار گئے۔
منو سمرتی میں بیاہ کی آٹھ قسمیں بتائی گئی ہیں ، آٹھویں قسم ’’پشاج بواہ ‘‘ ہے جس کے معنی ہی حرام کاری کے ہیں۔ بائبل میں عبرانیوں کی حرامکاری کا ذکر ہے، عرب میں حضور ﷺکی بعثت سے بیشتر بیت اللہ کے دروازے پر زنا کے قصیدے متعلق تھے۔ مکہ میں جو فاحشہ عورتیں تھیں وہ باندیوں میں سے تھیں ۔ عورتوں کا عشق عربوں کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ شوہر خوش ہوتا تھا کہ اُس کی دلہن کا عاشق پہلے سے موجود ہے، اکثر خاوند بیوی کو اپنے پہلے عاشق سے ملنے اور اُس کا چرچا کرنے سے بھی نہ روکتے تھے۔ وہ اس کو فخر سمجھتے تھے کہ اُن کی بیوی فلاں شاعر کی محبوبہ ہے اور اس کے حُسن و جمال اور عفت و طہارت کا تمام عرب میں ڈنکا بج رہا ہے۔
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 4پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک بدو سے پوچھا گیا کہ تمہارے ہاں عشق کا مفہوم کیا ہے ۔اُس نے کہا ہم محبوب کو سینہ سے بھینچ کر اُس کے ہونٹوں سے ہونٹ پیوست کر دیتے لعابِ دہن سے شاد کام ہوتے اور اُس کی دلآویز باتوں سے دل زندہ کرتے ہیں ، ایک عرب شاعر کا قول ہے:
’’محبوبہ کے دو حصے ہیں ۔ ایک سراسر محبت کے لئے ، دوسرا شوہر کا جس پر کبھی آنچ نہیں آتی۔ ‘‘
زرتشت نے بدکار عورتوں کے لئے تباہی کی دُعا کی ہے۔ ترکستان میں کسبیوں کے بڑے بڑے بڑے بازار تھے اور ان کے مکانوں میں جانا خلافِ اخلاق نہ تھا ۔ چین میں فحاشی تجارتی بنیادوں پر قائم رہی۔ وہاں کسبیوں کا وہی درجہ تھا جو یونان میں ہتائرہ کا تھا۔ عام چینی انہیں پھول و الیاں کہہ کر پُکارتے تھے ۔اب ماؤ کی حکومت نے قحبہ خانوں کو سرے ہی سے کالعدم کر دیا ہے ، جاپانی رنڈیوں کے سکونتی بازار کا نام یوشی واڑہ ہے اور انہیں بعض قانونی مراعات حاصل ہیں۔ کوریا میں طوائف کو ورق النور کہتے ہیں۔ روس ، چین اور حجاز ان تین ملکوں میں عورت کے لئے جسم فروشی ممنوع ہے ۔
علامہ جلی کا قول ہے کہ اسلام نے فحش اور قحبگی کا قلع قمع کر دیا تھا۔ حضورؐ سرورِ کائنات فداہ اُمی وابی کی وفات کے پہلی صدی تک دُنیائے اسلام کے اندر عصمت فروشی بالکل مفقود رہی ، لیکن جب اسلامیت کارنگ پھیکا پڑ گیا اور مسلمان بادشاہتیں قیصر وکسریٰ کے نقشِ قدم پر چلی نکلیں تو جگہ جگہ لہو ولعب کا بازار گرم ہوگیا اور یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ بیشتر عباسی خلفا نے عورت کو کھلونا بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ (الا ماشاء اللہ) اب جواری کھلونے تھے اور کھلونے جواری ، جو عروج یا کمال عباسی خلفاء کے عہد میں انہیں حاصل ہوا ، اُس کی نظیر کسی دور میں نہیں ملتی، ایک طرف انہیں فنی تربیت دی گئی ، دوسری طرف اُن کے اقتدار کو تسلیم کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی بڑی سلطنتیں اُن کی حُسن و جمال سے مالامال ہوگئیں۔ کئی خلفاء نے ان کے اشارہ ابرو پر تاج و تخت قربان کئے۔ کئی بادشاہ ان کی ایک جنبش لب پرنثار ہوگئے، ادھر رنڈیوں کے طائفے بھی نکھرتے گئے، ان میں بھی خاندانی وغیر خاندانی کا فرق قائم ہوگیا ، جو محض گانے والی تھیں وہ مغنیہ کہلائیں ، مصر میں انہیں عالمہ کہتے ہیں ، جونا چنے والی تھیں وہ رقاصہ ٹھہریں اور جو صرف جسم بیچتی تھیں اُنہیں طوائف کہا گیا۔ ادھر ہندوستان میں مغلوں نے اور بھی گل کھلائے ۔۔۔ ظاہر ہے کہ طوائف عشرت کی چیز ہے اور مرد نے اس لئے اس کو تخلیق کیا ہے جب مقصد عشرت ہو اور وہ بھی نفسی ، تو پھر وہ تمام لوازم یکے بعد دیگرے جمع ہوتے جاتے ہیں جن سے نفس کو تسکین ہو چنانچہ طوائف کے ساتھ وہ تمام سامان عشرت جمع کر دیا گیا ہے جن سے عیاشی فن ہوگئی اور طوائف ۔۔۔ فن کارہ ۔
ادھر جواری و کنیزیں ، نتیجہ تھیں جنگ کا ، جب فتوحات کا سیلاب ٹھہر گیا تو اِن کی فراہمی بھی رُک گئی جس سے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ اُدھر مسلمان خلفا اسلامیت کی روح کھوچکے تھے اور صرف ظواہر کے پابند تھے، انہیں رجھانے کے لئے کنیزوں کو درآمد کیا گیا جس سے بردہ فروشوں کا گروہ پیدا ہوگیا جو ترکیہ ، صقلیہ ، ہندوستان آرمینیا، روم اور افریقہ سے نوجوان لڑکیاں لاتا اور بغداد میں فروخت کرتا تھا، اُن کی سب سے بڑی مارکیٹ کا نام سوق الرقیق تھا جہاں بیشتر مکان اکثر دوکانیں اور متعدد احاطے واقع تھے۔ تمام ملکوں کی کنیزیں حُسن و خوبی کے لحاظ سے علیٰحدہ علیٰحدہ رکھی جاتیں، سب سے قیمتی کنیزیں مدینہ ، طائف ، بصرہ ، کوفہ ، بغداد اور مصر کی ہوتیں ، ایک تو ان کا لہجہ مصفا ہوتا دوسرے حاضر جواب ہوتیں ، خود بادشاہوں کی پیشانیاں اُن کے کمال سے بھیگ جاتی تھیں۔ اسی بازار کا ایک حصہ نو آمد کنیزوں کے لئے مخصوص ہوتا اُنہیں عریاں حالت میں لایا جاتا ، بال کھلے ہوتے ، کوئی سنگارنہ ہوتا۔ مقصود یہ تھا کہ خریدار طبعی حُسن کا جائزہ لے سکیں۔ مختلف تاجر ، حُسن و رعنائی کے معیار پراُن کی قیمت لگاتے اور دام چکا کر خرید لیتے ۔ تاجر اس خام مال کو تعلیم و تربیت کی کٹھائی میں ڈال دیتے۔ جب وہ پختہ ہوجاتیں تو انہیں بہت گراں قیمت پرفروخت کیا جاتا ۔ چنانچہ اکثر موسیقار ، عالمہ ، فاضلہ اور مدبر عورتیں ان کنیزوں ہی میں سے ہوئی ہیں ، ان کے بطن سے بڑے بڑے خلفاء اور اُمراء بھی پیدا ہوئے ہیں۔
تمام بازار مختلف الاصل لونڈیوں سے پُر ہوتا ۔ بڑے بڑے تجار اور اُمراء جمع ہوتے ، فروختار آواز لگاتا۔
’’ابے تاجرو! اے دولت مندو ! نہ ہر گول چیز اخروٹ ہوتی ہے اور نہ ہر مستطیل چیز کیلا ، ہر وہ چیز جو سُرخ ہے گوشت نہیں ، اور نہ ہر سفید چیز چربی ہے ، اسی طرح نہ ہر صہبا شراب ہوتی ہے اور نہ ہر زرد چیز کھجور ، اے تاجرو بیش بہا ہوتی ہے ، زرخطیر بھی اس کی قیمت نہیں ہوسکتا، پھر بتاؤ کہ تم کیا قیمت لگاتے ہو۔؟‘‘
ایک ایک کنیز کئی کئی ہزار درہم میں نیلام ہوتی ، گاہکوں کو حق ہوتا تھا کہ وہ انہیں عُریاں حالت میں بھی دیکھ سکیں چنانچہ اہل عرب نے مختلف ملکوں کی کنیزوں کے احوال و اوصاف پر کئی کتابیں لکھی ہیں ۔ مثلاً:
نجات کے لئے فارس ، خدمت کے لئے روما، کھانے پکانے کے لئے حبشہ ، اور بچوں کی تربیت ورضاعت کے لئے آرمینیا کی لونڈیاں معیاری سمجھی جاتی تھیں۔
حُسن ظاہری کے لحاظ سے چہرہ ترکی کا ، جسم روم کا ، آنکھیں حجاز کی اور کمریمن کی پسند کرتے تھے۔ اس بردہ فروشی کے ماہر اتنے زیرک تھے کہ وہ کسی لونڈی کو اس کی ذہانت کے قیافہ پر خرید لیتے تھے ، متوکل کے پاس چار سو کنیزیں تھیں۔ ہارون الرشید کے پاس دو ہزار جن میں سے تین سو ارباب نشاط تھیں ، ام جعفر برمکی کے پاس کئی ہزار لونڈیاں تھیں ، ہارون الرشید نے ایک کنیز کو ایک لاکھ دینار میں خرید کیا تھا۔ سلیمان بن عبداملک کے بھائی سعید نے اپنی لونڈی زلفا کے ستر ہزار دینار ادا کئے تھے۔
جعفر برمکی نے ایک کنیز کو چالیس ہزار دینار میں حاصل کیا، کبھی کبھار عباسی خلفاء خرید کے سوال پر برہم ہوجاتے ، کتاب الاغانی اور عقد الفرید میں اس قسم کے کئی واقعات درج ہیں ، ہارون الرشید تخت پر بیٹھا تو حکم دیا کہ فلاں لونڈی ایک لاکھ دینار دے کر خرید لی جائے۔ یحییٰ بن خالد وزیر سلطنت نے عذر کیا۔ رشید برہم ہوگیا۔ یحییٰ نے تمام روپیہ اس کے کمرے میں بکھیر دیا ، رشید سمجھ گیا کہ یحییٰ نے اس کے اسراف پر چوٹ کی ہے ، امین نے جعفر بن ہادی سے کہا بذل نام کی کنیز کوخرید لو ، جعفر نے انکار کیا۔ امین کو غصہ آیا اور حُکم دیا کہ بذل کو سونے میں تلوا کر خرید لو ، تعمیل کی گئی ۔ اس سونے کی قیمت دو کروڑ درہم تھے۔
(جاری ہے)