لاہور سے آج کل سموگ کی خبریں آتی ہیں، مگریہ شہر چونکہ ایک زندہ شہر ہے اِس لئے اس کے باسی کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہتے ہیں جو موسم کیسا ہی کیوں نہ ہو زندگی میں محبت کے رنگ بھر دیتے ہیں۔لاہور کے زندہ دِل کرداروں میں ایک کا نام عدیل برکی ہے یہ نوجوان بھی کیا عجب طبیعت کا مالک ہے، شاہانہ زندگی گزارنے کی استطاعت رکھنے والا بعض اوقات خاکساری کی اتنی منزلیں طے کر لیتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ عدیل کی دنیا بھر میں شناخت اگرچہ ایک گلوکار کی ہے تاہم یہ صرف گلوکار نہیں، بلکہ لاہور کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کا ایک مضبوط حوالہ بھی ہے،بظاہر کھلنڈرا نظر آنے والا یہ نوجوان اندر سے کتنا سنجیدہ،سلجھا ہوا اور زندگی کو سمجھنے والا ہے،اس کا اندازہ اس سے مل کر قریب جا کے ہوتا ہے۔پچھلے دِنوں لاہور میں میری اور بینا گوئندی کی کتابوں پرایک تعارفی تقریب ہوئی تو اس نے مجھے پیغام بھیجا،میں اپنی نعتیں اور غزلیں بھیجوں وہ اس تقریب میں ترنم کے ساتھ پڑھے گا،یہ بڑی حیران کن بات تھی،کیونکہ وہ ایک کمرشل گلوکار بھی ہے،اُس کا وقت بہت قیمتی ہے،مگر اُس نے بڑے دِل کے ساتھ یہ پیشکش کر دی پھر وہ پلاک میں ہونے والی تقریب میں سب سے پہلے موجود بھی تھا،تب مجھے لگا کہ یہ شخص کسی اور ہی مٹی سے بنا ہوا ہے،محبت کی مٹی یا پھر خلوصِ و چاہت کی مٹی،اُس نے بڑی خوبصورتی سے نعت اور غزل کی دھن بنائی اور تقریب میں پڑھ کر سماں باندھ دیا پھر اُس نے کہا آپ مجھے ملتان بلائیں،میں اپنے خرچ پر ملتان آؤں گا اور آپ کی تقریب میں پرفارم کروں گا۔اسی تقریب میں بینا گوئندی نے بتایا آپ جتنے عدیل برکی کے قریب ہوتے جائیں گے یہ اتنا ہی آپ پر آشکار ہو گا۔ایک دن عدیل برکی نے یہ اطلاع دی اُن کی والدہ ہسپتال میں ہیں اور حالت خاصی تشویشناک ہے اُس نے دُعا کی درخواست کی،اُس دن وہ مجھے پہلی بار پریشان لگا، وگرنہ اُس کے چہرے پر ہمیشہ ایک شگفتہ ہنسی برقرار رہتی ہے میرے ساتھ ہزاروں لوگوں نے اُن کی والدہ کے لئے صحت کی دُعا کی، دُعائیں قبول ہوئیں تو اُس کی والدہ خیریت سے گھر آ گئیں۔مجھے ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے،بلکہ میں اُس کا گرویدہ ہو جاتا ہوں جو اپنی ماں سے پیار کرتا ہے،اُس پر جان چھڑکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں خود دس سال ایک ایسی کیفیت سے گذرا ہوں، جب میری ماں اپنی یاد داشت کھو چکی تھیں اور گھر میں تمام بہن بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی صرف مجھے پہچانتی تھیں اسی دوران مجھ پر امریکہ جانے کا جنون سوار ہوا۔امریکی سفارتخانے سے لڑ بھڑ کے ویزا لیا اُس کی داستان پھر کبھی سناؤں گا۔اب مرحلہ امریکہ جانے کا تھا کہ والدہ کو اس حالت میں چھوڑ کر کیسے جاؤں کہ وہ میرے سوا کسی کو پہچانتی نہیں اور نہ ہی کھاتی پیتی ہے۔اُدھر امریکہ سے دوستوں کے بلاوے آ رہے تھے اور اِدھر میں شش و بنج میں تھا۔بہن بھائیوں،بچوں سے مشورے کئے، سب کہتے تم جاؤ ہم پیچھے سنبھال لیں گے،مگر میرا دِل نہیں مانتا تھا۔وقت گزرتا گیا،میں ارادے باندھتا اور توڑتا رہا، اِسی اثناء میں ویزا ایکسپائر ہو گیا۔ شاید کسی کو یقین نہ آئے اُس دن میں نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں کشمکش ِ دہر سے آزاد ہو گیا ہوں۔
چند روز پہلے عدیل برکی نے ایک مسیج بھیجا،یہ دراصل ایک دعوت نامہ تھا۔عام دعوت ناموں سے ہٹ کر،اس دعوت نامے میں لکھا تھا ہم اپنی والدہ بیگم ممتاز ایوب خان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تقریب منعقد کر رہے ہیں یہ تقریب رسمی نہیں ہو گی بلکہ اس میں ماؤں کی باتیں کی جائیں گی،شاعری،عقیدت بھرے جذبات اور ماں کی عظمت کے نقش اُجاگر کئے جائیں گے،اس دعوت نامے کو دیکھ کر میری آنکھوں میں نمی آ گئی،نجانے کتنے ہی خیالات میرے اندر تلاطم خیز ہوئے،میں سوچنے لگا یہ کتنا زبردست خیال ہے۔ہماری تو اب ماں نہیں،اے کاش اگر وہ ہوتی اور اُن کے ساتھ اسی قسم کی تقریب منعقد کی جاتی توانہیں کتنا اچھا لگتا،اولاد کی خوشیاں تو ہر ماں مناتی ہے،مگر زندگی کا وہ عرصہ جب اولاد اپنی زندگی کی ہما ہمی میں مصروف ہو کر یہ بھول جاتی ہے کہ گھر میں پڑی دُعاؤں کا ذریعہ بننے والی ماں کو اب خوشی لوٹانے کا وقت ہے، لیکن ہم وقت نہیں نکال پاتے۔حقیقت یہ ہے کہ جس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں شخصیات کو لائف ٹائم ایچوئمنٹ ایوارڈ دیا جاتا ہے،اسی طرح ہر ماں کا اولاد پر حق ہے کہ اُسے زندگی بھر کی محبتوں کا جواب ایک بڑی تقریب سجا کر دیا جائے،اولاد کو پال پاس کر جوان کرنا، تعلیم دلانا، اچھا انسان بنانا والدین کی سب سے بڑی نیکی اور محبت ہے جو وہ اپنی اولاد سے کرتے ہیں جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو میری نظر سے لاہور کے اولڈ ہوم کی ایک ویڈیو گزری،جس میں ایک لیڈی رپورٹر ایک ماں سے انٹرویو کر رہی تھی،وہ بوڑھی ماں بتا رہی تھی اُس کے9بچے ہیں،اچھے خاصے خوشحال ہیں،اُن کے اپنے گھر اور کاروبار ہیں،لیکن انہوں نے مجھے اولڈ ہوم میں داخل کرا دیا ہے۔اُف خدایا یہ کیسی اولاد ہوتی ہے اور یہ جگرا یہ حوصلہ کہاں سے لاتی ہے۔یہ سنگدلی اور سفاکی اُس میں کیسے پیدا ہو جاتی ہے،یہ بدنصیبی کی بدترین شکل ہے،جس سے انسان گزرتا ہے۔میں نے فوراً اُس ویڈیو کلپ کو فارورڈ کیا اور عدیل برکی کے دعوت نامے میں محو ہو گیا،میں سوچنے لگا عدیل برکی کی ماں خوش قسمت ہے یا خود عدیل برکی۔ دِل سے جواب یہی آیا کہ عدیل برکی خوش قسمت ہے جس نے ماں کی محبت میں ایک تقریب سجانے کا فیصلہ کر کے یہ پیغام دیا ہے اگر اولاد کچھ بن گئی تو اپنی ماؤں سے آنکھیں نہ پھیرے،بلکہ اُن کی راہوں میں آنکھیں بچھا دے انہیں وہ خوشیاں لوٹائے جو ماں انہیں تا زندگی اپنا رات دن بھلا کر دیتی رہی ہے۔
عدیل برکی نے اس تقریب کے لئے وسیع و عریض پنڈال سجایا تھا، رنگوں اور روشنیوں کا پورا اہتمام کیا تھا۔ شہر کے ادیب،شاعر، صحافی،اساتذہ اور اُن کی فیملیز بڑی تعداد میں موجود تھیں، ایسی تقاریب ہم نے والدین کی طرف سے اپنے بچوں کے لئے دیکھی ہیں،کبھی سالگرہ اور کبھی کسی کامیابی پر ایسی تقاریب سجائی جاتی ہیں ایک ماں کے لئے بیٹے کی طرف سے یہ شاندار تقریب لاہور کی اعلیٰ روایات میں ایک اور اضافہ کر گئی۔بیگم ممتاز ایوب خان سٹیج پر اس طرح بیٹھی تھیں جیسے کوئی ملکہ ئ عالیہ ہوتی ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود اُن کے چہرے کی چمک دمک اور آنکھوں سے جھلکتی خوشی اِس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ آج خوش تھیں کہ اُن کی تربیت، محنت اور محبت ضائع نہیں گئی،عدیل برکی نے اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کر کے اور اہل شہر کو اُس کا گواہ بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ ماؤں کو اُن کی زندگی ہی میں خوشیاں لوٹاؤ،دنیا سے اُن کے رخصت ہو جانے پر مجالس تک محدود نہ رکھو، تقریب میں آنے والوں نے اپنے اظہارِ خیال اور لائے گئے پھولوں کے نذرانے سے اِس تقریب محبت کو یادگار بنا دیا۔عدیل برکی بازی لے گیا اور یہ وہ سعادت ہے،جو صرف خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے۔
٭٭٭٭٭