جدید چمچماتی گاڑیاں، پرانے وعدے اور وہی سبز باغ: پھر نومبر آگیا اور ایک اورعالمی ماحولیاتی کانفرنس COP لایا۔ دوبارہ پوری دنیا سے فیول اڑاتے جہازوں میں وفود پہنچ رہے ہیں۔ اس بار ملک ہے آذربائیجان اور شہر ہے دارالحکومت باکو، سب مل کر 11 نومبر کے بعد دنیا کو درپیش سب سے بڑے چیلنج "کلائمٹ چینج" سے مقابلہ کرنے کی اجتماعی حکمت عملی پر غور کریں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ سال 2023 اور 2024 ماضی کی نسبت زیادہ قدرتی آفات لایا۔ ان دو سال میں خطرات بڑھ گئے اور مستقبل پر بھی خدشات منڈلا رہے ہیں۔ اب کاپ 29 اُس وقت ہو رہی ہے جب کرہ اراض پر اربوں انسان نازک وقت اور دنیا گلوبل وارمنگ کے کچے دھاگے پر چل رہی ہے۔
اپنی ترقی و توسیع کے نام پر بنی نوح انسان کے صدیوں سے جاری ماحول دشمن اقدامات کا وہی نتیجہ نکلنا تھا جس نے آج دنیا کو بحران میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج کرہ ارض پر موجود تمام براعظم کسی نہ کسی قدرتی آفت میں گھرے ہیں۔ امریکا اور ایشیاء سمندری طوفانوں کی زد میں ہیں، یورپ اور بعض امریکی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، سمندر بپھر رہے ہیں اور جنگلات آتشزدگی کا شکار ہیں، ایشیاء میں پاکستان اور بھارت اسموگ اور گرمیوں میں ہیٹ ویو سے لڑ رہے ہیں، بنگلہ دیش سمیت دیگر ایشیائی ممالک کو غیر معمولی بارشوں کےنتیجے میں سیلابوں و تباہی اور گلیشیئر پگھلنے کا خطرہ ہے۔ افریقہ پانی کے بحران میں مبتلا ہے جبکہ ریگستانی حصہ بڑھتا جا رہا ہے، سیلاب و خشک سالی بڑھ رہی ہے۔ تمام خطوں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور نباتات کی حیات بھی خطرے میں ہے۔ ایشیاء میں بہار کہیں کھو گئی۔ موسم گرما ہے تو قیامت کا، برسات طوفانی بارشوں کی نذر ہوئی اور کڑاکے کی سردیاں طوفانوں سے بھر گئی ہیں۔ براعظم انٹارکٹیکا پر برف پگھلنے اور تہہ سکڑنے سے سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیتجہ یہ ہے کہ حالات گلوبل وارمنگ سے گلوبل بوائلنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اقوام متحدہ پہلے ہی غیر مبہم اور متحد ٹھوس اقدامات نہ ہونے پر پائیدار ترقی اور (SDGs) کے طے شدہ اہداف کا حصول مشکل قرار دے چکی ہے۔ ماہرین بھی متفق ہیں کہ تمام ممالک کو اپنی معیشتیں، غذائی تحفظ اور امن و استحکام کی فکر سے بھی پہلے ماحولیاتی انصاف جیسے مسائل حل اور ناگزیر کلائمٹ فنانس کو ترجیح دینا ہو گی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث یکے بعد دیگرے بحرانوں سے ورلڈ فوڈ مارکیٹ میں بحران، خطوں میں خوراک کی عدم دستیابی اور مقامی آبادیوں کی نقل مکانی جیسے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ حالات مستقبل میں عالمی امن اور سلامتی کو بھی خطرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ماہرین فکر مند ہیں کہ مستقبل میں خوراک، پانی، انرجی سپلائی متاثر ہونے اور قدرتی وسائل کے حصول کے لئے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلے کا خطرناک رجحان شروع ہو جائے گی جس سے عالمی امن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت کرہ ارض پر دستیاب 0.5 فیصد قابل استعمال پانی کےمعاملے پر مختلف خطوں کے درمیان تناؤ ہے۔ پانی کے محفوظ ذخائر کی طلب و رسد میں فرق سے معاشروں میں ٹینشن بڑھ گئی ہے جو بدامنی کا سبب بن سکتی ہے، اسی طرح میٹھے پانی، آبپاشی کے پانی کی کمی اور پن بجلی کی ضروریات پر تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ گذشتہ بیس سال میں پانی کے ذخائر، مٹی کی نمی، آسمان سے گرنے والی برف اور کرہ ارض پر جمی برف میں سالانہ ایک سینٹی میٹر کی شرح سے کمی بھی خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
خشک سالی، سیلاب، طوفان اور سطح سمندر میں اضافے سے 20 ملین سے زائد افراد گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ قدرتی آفات کے تسلسل سے غریب خطوں اورعلاقوں کے لوگ امیر ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہیں جس سے سیکورٹی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ خوشحال ممالک کی معیشتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور وہا بھی معاشرتی ناہمواری بڑھ رہی ہے۔ مقامی آبادیوں میں بڑھتی بے چینی کسی بھی وقت حالات کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔
دنیا میں اس وقت خوراک اور غذا کے بحران کے خدشات میں بھی گھری ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تمام زرعی اراضی کا صرف 40 فیصد قابل کاشت ہے، خطرناک امر یہ ہے کہ یہ چالیس فیصد بھی مصنوعی کھادوں اور زہریلی کیڑے مار ادویات کے استعمال کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ 2050 تک تمام قابل کاشت زرعی اراضی کا نوے فیصد انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔ مستقبل میں خوراک پیدا کرنے والے ملک بھی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ غیر زرعی ممالک میں فوڈ امپورٹ بڑھتی جا رہی ہے اور نتیجتاً آئندہ کئی دہائیوں تک خوراک کی عالمی قیمت بڑھتی رہے گی۔
کرہ ارض گرم ہونے سے خشک سالی طویل اور شدید ہو رہی ہے، اراضی کا کٹاؤ ہو رہا ہے ، خشک چراہ گاہوں اور فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ کم ہوتی قابل کاشت اراضی اور پانی کے ذرائع میں غیر متوقع کمی نے کئی ممالک میں کاشتکاری اور گلہ بانی کرنے والی برادریوں کے درمیان تلخی کو بڑھا دیا ہے۔ کھیت کھلیان تباہ اور ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کو لاحق خطرات سے خوراک کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے معاشروں میں عدم مساوات پیدا ہونے کا خطرہ ہے جس سے مختلف برادریوں کے درمیان نفرت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً پونے 8 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کنٹرول نہ کیا گیا گیا تو مزید تقریباً 2 کروڑ لوگ بھوک کی وادی میں چلے جائیں گے۔ یونائیٹڈ نیشنز انوائرمنٹ پروگرام نے بھی تصدیق کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث عالمی امن اور سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ خود بھی ہر روز دنیا کو احساس دلا رہی ہے کہ حالات سنبھالنے کے لئے تمام ممالک کوسوچ و بچار سے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس عالمی رہنماؤں کو وارننگ دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں کے دوران ماحولیاتی مساوات نظرانداز نہیں ہونے چاہئیں۔
کاپ 29 میں دنیا بھر کی پولیٹیکل ایلیٹ کے سہانے خواب اور وعدے اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ ترقی پذیر ممالک اُس تباہی کا شکار ہیں جس کے وہ ذمہ دار نہیں۔ امیر ممالک کے لئے منصفانہ اور ہمدردانہ درست فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ کانفرنس خود اپنے لئے ایک چیلنج ہے۔ ڈونر ممالک کو تقریباً 800 ملین امریکی ڈالر کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پیش رفت کرنا ہو گی۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ کاپ 29 بھی کولمبیا کے شہر کالی میں ہونے والی سولہویں عالمی کانفرنس کی طرح ناکام ہو جائے جو بائیوڈائیورسٹی کے بچائو کے لئے کوئی بڑا فیصلہ کیے بغیر ختم ہوگئی۔ امیر ممالک کا مزاج خوشگوار نہ ہونے کے باعث شرکاء کوئی امدادی فنڈ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے، بائیوڈائیورسٹی کریڈٹ کے خدوخال واضح کرنے کے حوالے سے بھی کوئی پیش رفت نہیں کی جاسکی۔ اسی طرح ترقی پذیر ممالک میں بائیوڈائیورسٹی کے بچائو کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بنایا جاسکا۔ اس لئے ایسا نہ ہو کہ کاپ 29 کے اختتام پر کلائمٹ ایکٹوسٹس پھر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ امیر ممالک کا یہ کلب ایک بار پھر غریب دنیا کے جذبات، احساسات اور ضروریات سمجھنے میں ناکام رہا، امیر دنیا کی خاص کلاس نے باکو کا موسم انجوائے کیا، دوستوں اور پیاروں کیلئے آزربائیجان کی کچھ سوغاتیں اور تحائف لے کر فوسل فیول سے اڑنے والے جیٹ طیاروں کی بزنس کلاس میں بیٹھ کر اپنے دیس واپس چلے گئے جہاں وہ اب پوسٹ کاپ 29 اجلاسوں میں حسین تجربات تو بیان کریں گے لیکن کوئی فیصلہ پیش نہیں کر سکیں گے۔
ہر سال کانفرنس الگ الگ ممالک میں منعقد کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ مختلف خطوں کے ممالک اپنی آواز بلند کر سکیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی توجہ مرکوز رہے، لیکن اب تک زیادہ یہ حکمت عملی ناکام رہی۔
اب تک کے تقریباً تمام اجلاسوں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد دینے کا معاملہ سب سے بڑا اختلاف بن کر سامنے آیا ہے۔ متاثرہ غریب ملک کلائمٹ جسٹس اور مالی معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن امیر ممالک کان ہی تک نہیں دھرتے یا پھر بہت کم رقم دینے پر تیار ہوتے ہیں۔ اگر کاپ ذمہ دار ممالک کو متاثرہ معاشروں کی مدد کا کہتی بھی ہے، لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہو پاتا کہ مدد کس شکل میں اور کتنی مقدار میں دی جائے؟
اس سوال کے کئی جوابات ہیں کہ اب تک متاثرہ ممالک کی مدد میں بڑی کامیابی کیوں نہیں ہوسکی؟ اول یہ کہ ترقی یافتہ ممالک وعدے کے مطابق مالی امداد نہیں دے رہے۔ دوئم مختلف ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہیں جس کی وجہ سے مشترکہ حل تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے اور امیر ملک ایک پیکج پر نہیں آسکتے۔ انصاف پر مبنی فیصلے اور کلائمٹ جسٹس نہ ہونے کی سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے امیر ملک سرمایہ کاری کے جواب میں منافع نہ ملنے کی وجہ سے بھی انویسٹمنٹ نہیں کرتے۔ بعض ممالک کا ایجنڈا اور ترجیح ہی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے سے زیادہ اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوتی ہے۔
کوپس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی میں کمی کیوں نہیں ہورہی؟ یہ بھی اہم سوال ہے جس کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو کانفرنس کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، پھر کوئی ایسا فورم بھی نہیں جو وعدے کرنے والے ممالک کو عمل پر مجبور کر سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جو نئی ٹیکنالوجی درکار ہے، وہ ابھی دستیاب نہیں۔ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملے کو سنگین بنا رہی ہے۔
کاپ کے اتفاق رائے اور فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونا بذات خود الگ ایک مسئلہ ہے۔ فوسل فیول کمپنیاں، کار انڈسٹریز اور دیگر بڑے کاروباری ادارے اکثر کوپ میں سخت فیصلے ہونے سے روکتے ہیں کیونکہ کلائمٹ سے ہم آہنگ فیصلوں پر عمل کی صورت میں ان کے بزنس مفادات اور کاروبار کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن کاربن پیدا کرنے والے دنیا کے تین سب سے بڑے ملک، امریکا، چین اور یورپی یونین سنجیدہ اقدامات کریں تو کوپ کو بڑی کامیابی مل سکتی ہے۔
سائنس دانوں، میـڈیا اور کلائمٹ ایکٹوسٹس کی کوششوں و چیخ و پکار کے باوجود کاربن کا اخراج بڑھتا جا رہا ہے جبکہ کنٹرول کے اقدامات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین اور سائنسدان واضح کر رہے ہیں کہ محض کاربن کے اخراج میں کمی ہی کافی نہیں بلکہ حقیقی عمل کا وقت آن پہنچا ہے، اب فوسل فیول انڈسٹریز کو ریگولیٹ کرنا اور اخراج پر ٹیکس کا نفاذ ناگزیر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی آج کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور تقریباً ہر ملک سنگین صورتحال سے دو چار ہے، اسی لئے کاپ سے 29 بہت توقعات وابستہ ہیں۔ دعا تو یہ ہے کہ امیر ملک ماضی کے وعدے پورے کریں۔ امید کی کرن تو بس سائنس دانوں کی یہ پیش گوئی دکھائی دیتی ہے کہ امیر ممالک کی لاپرواہی کے باوجود ہم ناقابل واپسی نشان سے دور ہیں جہاں تک پہنچنے کے بعد واپسی تقریباً ناممکن ہو جائے گی، لیکن عالمی برادری کو مل کر کوششیں کرنی چاہئیں کہ کرہ ارض مزید گرم نہ ہو۔ اس مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے مفادات کو پس پشت ڈال کر شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہو گا۔
ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج عالمی برادری سے متحد ہو کر بحران کے مقابلے کا متقاضی ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں حالات بے قابو ہو جائیں گے۔ اس کا واحد راستہ خود ملکوں کے اندر اور عالمی سطح پر کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ مشترکہ منصوبے ہیں جو اس صدی کے اختتام تک کے مخدوش حالات کا جامع، دیرپا اور عملی حل پیش کر سکیں۔ ایسا حل جو ہر ملک کے لئے مساوی ہو، ہر قسم کے موسمی حالات سے ہم آہنگ، سستا، جدید، ماحول دوست اور جامع ہو۔ دنیا کی بقاء کے لئے ایسی انقلابی ٹیکنالوجی اور تکنیکس متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے جو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے تمام خطوں کی دسترس میں بھی ہو اور سب کے لئے یکساں مفید بھی.
.
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔