ساقی امروہوی:
نام سیدقائم رضا اور تخلص ساقیؔ تھا۔ 1925ء کو اترپردیش کے امروہا شہر میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد سید علی قاسم اور دادا سید علی اسلم جاگیردار تھے۔
ساقیؔ کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا مقام حاصل کرے۔ جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو لکھنا پڑھنا چھوڑ کر اکھاڑوں میں کشتی لڑنے اور مشاعروں میں جانے کا شوق پیدا ہو گیا۔ الغرض ساقیؔ شاعری کی طرف راغب ہو گئے۔
تقسیم ہند کے بعد ساقیؔ امروہوی ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی۔ کراچی میں ذریعۂ معاش کی تلاش کے لئے سرگرداں رہے۔ تعلیم نہ ہونے کے سبب کوئی ملازمت وغیرہ نہ مل سکی۔ البتہ کچھ دن میونسپل کارپوریشن میں ملازم رہے۔
ساقیؔ امروہوی نے شاعری تو بچپن ہی سے شروع کر دی تھی لیکن باقاعدہ اصلاح پاکستان میں کہنہ مشق شاعر میر جواد علی سے لی۔ انہیں کو وہ اپنا استاد کہتے تھے۔
ساقیؔ امروہوی 12دسمبر 2005 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
نمونۂ کلام
منزلیں لاکھ کٹھن آئیں گُزر جاؤں گا
حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مر جاؤں گا
چل رہے تھے جو مرے ساتھ کہاں ہیں وہ لوگ
جو یہ کہتے تھے کہ رستے میں بِکھر جاؤں گا
در بدر ہونے سے پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا
گھر مجھے راس نہ آیا تو کِدھر جاؤں گا
یاد رکھے مجھے دنیا تری تصویر کے ساتھ
رنگ ایسے تری تصویر میں بھر جاؤں گا
لاکھ روکیں یہ اندھیرے مرا رستہ لیکن
میں جِدھر روشنی جائے گی اُدھر جاؤں گا
راس آئی نہ محبت مجھے ورنہ ساقیؔ
میں نے سوچا تھا کہ ہر دِل میں اُتر جاؤں گا
شاعر: ساقی امروہوی
Manzalen Laakh Kathhan Aaen Guzar Jaaun Ga
Haosla Haar K Baithun Ga To Mar Jaaun Ga
Chall Rahay Thay Jo Miray Saath Kahan Hen Wo Log
Jo Yeh Kehtay Thay Keh Rastay Men Bikhar Jaaun Ga
Darbadar Honay Say Pehlay Kabhi Socha Bhi Na Tha
Ghar Mujhay Raas Na Aaya To Kidhar Jaaun Ga
Yaad Rakhay Mujhay Dunya Tiri Tasveer K Saath
Rang Aisay Tiri Tasveer Men Bhar Jaaun Ga
Laakh Roken Yeh Andhairay Mira Rasta Lekin
Main Jidhar Roshni Jaaey Gi Udhar Jaaun Ga
Raas Aai Na Muhabbat Mujhay Warna Saaqi
Main Nay Socha Tha Keh Har Dil Men Utar Jaaun Ga
Poet: Saqi Amrohvi