’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 18

Apr 14, 2020 | 02:03 PM

اصغر علی عطاری

ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے حویلی کے اندر دو قبروں کی زیارت کی تھی۔ کنویں کی تہہ سے آنے والی گڑگڑاہٹ کی آواز اور باہر موجود قبروں کی گڑگڑاہٹ میں بہت حد تک مماثلت تھی لیکن کنویں سے آنے والی آواز یقینا کافی طاقتور تھی جبھی تو اس نے زمین پر ہلکا سے ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔
”کیا کنویں کے اندر بھی قبریں ہیں ؟“
ریاست کی زبانی اس نے قیام پاکستان سے پہلے اس حویلی میں رہائش پذیر درندہ صفت انگریز افسر کے واقعات سنے تھے جو اپنے مخالفین کو اذیتیں دے کر قتل کرتا اور اس کنویں میں پھینک دیا کرتا تھا اور لوگوں کے بقول ان کی بے چین بدروحیں بھی نیلی حویلی میں پھرتی رہتی ہیں۔
گڑگڑاہٹ کا راز جاننے کیلئے عنصر نے ویران کنویں میں اُترنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے کنویں کی منڈیر سے اندر جھانکا۔ کنویں کی ایک تہائی جگہ کو پیپل کے درخت نے گھیر رکھا تھا۔ درخت کی لمبی لمبی شاخیں کنویں کے اندر جھکی ہوئی تھیں جبکہ اس کا لچکدار تنا کسی اژدہے کی مانند خم کھاتا ہوا اندھیری تہہ میں گم ہو گیا تھا۔ اس نے نظر گھما کر دیکھا تو اسے ایک جانب کنویں کی دیوار میں لوہے کی زنگ آلود سیڑھی نظر آئی جو تہہ تک جا رہی تھی۔ عنصر نے روشن ٹارچ کو منہ میں دبایا اور اللہ کا نام لیکر لوہے کی زنگ آلود سیڑھی پر ہاتھ جما کر زینے طے کرنے لگا۔

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 17 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
محتاط انداز میں ایک کے بعد ایک وہ زینے طے کرتا چلا گیا۔ جوں جوں وہ نیچے اترتا جا رہا تھا توں توں کنویں کی تہہ سے اٹھنے والی تعفن زدہ بو اس کی ناک میں زبردستی گھسے جا رہی تھی۔ آخرکار مجبور ہو کر اس نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیا مگر یہ طریقہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ ویسے بھی بو کی اذیت سے چھٹکارے کا یہ کوئی دیرپا حل نہیں تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے زنگ آلود سیڑھی تھام رکھی تھی اس لیے وہ اسے چھوڑ کر ناک پر رومال بھی نہیں باندھ سکتا تھا۔ عنصر نے نہ چاہتے ہوئے بھی لمبا سانس کھینچ کر پھیپھڑوں میں ہوا بھری اور تیزی سے نیچے اترنے لگا۔ اس کے یوں تیزی سے اترنے سے زنگ آلود سیڑھی زور زور سے ہلنے لگی مگر اس نے پروا نہ کی اور نیچے کی جانب اترنے کا سفر جاری رکھا۔ اچانک اس کا پاﺅں پھسلا اور ٹارچ اس کے ہونٹوں سے نکل کر چھناکے سے نیچے جا گری۔ اس نے مضبوطی سے لوہے کی سیڑھی کو تھام لیا اور رک کر تہہ میںدیکھا۔ اسے وہاں موہوم سی روشنی نظر آ رہی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ نیچے گرنے کے باوجود ٹارچ سلامت رہی تھی۔
اس نے سر اٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا۔ پیپل کا درخت کنویں پر پوری طرح چھایا ہوا تھا اس لیے اوپر گھپ اندھیرا تھا۔ چاند کی رہی سہی روشنی بھی غائب ہو چکی تھی۔ ایک طرف تعفن نے اس کا سانس لینا محال کر رکھا تھا اوپر سے ٹارچ بھی نیچے گر پڑی تھی۔ اس نے باقی ماندہ سفر جلدی طے کرنے کیلئے اپنی رفتار تیز کر لی۔ لوہے کا زنگ آلودہ زینہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ ابھی یہ مصیبت ٹلی نہیں تھی کہ اچانک عنصر پر ایک اور بلا نازل ہو گئی۔
کنویں کی اوپری جانب سے لوہے کی زنگ آلود سیڑھی کا ایک پایہ اکھڑ گیا اور وہ کنویں کی فضا میں معلق ہو کر رہ گیا۔ جلد ہی اسے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا کیونکہ سیڑھی نیچے سے بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اب وہ نہ نیچے اتر سکتا تھا نہ اوپر جا سکتا تھا۔ سیڑھی سے جھولتے ہوئے اس نے نیچے کی جانب دیکھا تو دھک سے رہ گیا۔ تاریکی کا عفریت منہ کھولے اس کے گرنے کا منتظر تھا۔ خوف کی لہر اس کے اعصاب کو لرزا گئی۔ اس نے دل ہی دل میں اس مصیبت سے نجات کی دعا مانگی مگر شاید ایک نیا امتحان اس کا منتظر تھا۔
فضا میں جھولتا ہوا زنگ آلود سیڑھی کا دوسرا پایہ بھی اس کا وزن برداشت نہ کر سکا، ایک چٹاخ دار آواز سے اکھڑا اور عنصر سیڑھی سمیت نیچے جا گرا۔ اس کے نیچے گرنے کی آواز سے درخت کی شاخوں پر بسیرا کیے چمگادڑوں نے وہ اودھم مچایا کہ خدا کی پناہ۔
چیختی چنگھاڑتی غضبناک چمگادڑوں کی ہلچل نے درخت کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ درخت کے پتے ٹوٹ ٹوٹ کر بارش کی بوندوں کی مانند کنویں میں گر رہے تھے۔ کنویں کی تہہ میں گرتے ہی عنصر کی بھی چیخ بلند ہوئی۔ اسے ایسے لگا جیسے وہ لکڑیوں کے ڈھیر پر گرا ہے جس نے اس کی کمر کو چھیل کر رکھ دیا ہے۔ اس کے لیے خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ زنگ آلود زینہ اس وقت ٹوٹا تھا جب وہ کنویں کی تہہ کے قریب تھا ورنہ اگر وہ اوپر سے گرتا تو اس کی ہڈیوں کا بھی سرمہ بن چکا ہوتا۔ بہرحال آج کی رات اس کے لیے اس لحاظ سے بدقسمت ثابت ہوئی تھی کہ وہ دوسری بار پیٹھ کے بل زمین پر گرا تھا۔ پہلی بار جب وہ گرا تو کسی طرح برداشت کر گیا تھا مگر اب اس کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا تھا۔
عنصر کی کمر سے درد کے مارے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اس لیے وہ ہولے ہولے کراہ رہا تھا۔ ویران کنواں مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے گرنے سے ٹارچ کی روشنی بھی نجانے کہاں دفن ہو چکی تھی۔ ایک جانب وہ تکلیف سہنے پر مجبور تھا اور دوسری جانب تہہ سے اٹھنے والی ناقابل برداشت تعفن زدہ بو نے اس کا جینا محال کر دیا تھا۔ اذیت ناک بو سے بچنے کے لیے عنصر نے وہیں لیٹے لیٹے جیب میں ہاتھ ڈال کر رومال نکالا اور ناک پر باندھ لیا۔ اس سے اسے بدبو کی اذیت سے کچھ حد تک راحت نصیب ہوئی۔ حواس بحال کرنے کی خاطر اس نے لمبے لمبے سانس لیے اور کچھ دیر یوں ہی پڑا رہا۔ اس کا جسم بری طرح اینٹھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم میں باریک باریک سی سوئیاں چبھ رہی ہیں۔ وہ گھبرا کر فوراً اٹھا اور اپنے آپ کو جھاڑنے لگا۔ اس کے اٹھتے ہی کنویں کی تہہ سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ پڑی۔ اس نے تہہ میں پڑی لکڑیوں کو کریدا تو نیچے سے اس کی ٹارچ برآمد ہو گئی جو اس کے گرنے سے اسی کے نیچے آ کر دب گئی تھی۔ اس نے جلدی سے ٹارچ کو اٹھا کر دیکھا تو اس کے جسم میں سنسنی کی لہڑ دوڑ گئی۔ جسے وہ سوئیاں سمجھ رہا تھا وہ لاتعداد چھوٹی چھوٹی چیونٹیاں تھیں جو اس کے جسم کے ساتھ چمٹی اسے نوچ رہی تھیں۔ اس نے جلدی جلدی انہیں جھاڑا اور ٹارچ تھام کر اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا تو اسے اپنی رگوں میں خون منجمد ہوتا محسوس ہوا جنہیں وہ لکڑیاں سمجھ رہا تھا وہ لکڑیاں نہیں بلکہ ہڈیاں تھیں۔ وہ بھی انسانی ہڈیاں۔
عنصر کا خون خشک ہو گیا۔ وہ ہڈیوں کے ڈھیر پر گرا تھا۔ کچھ انسانی کھوپڑیاں بھی ہڈیوں میں پڑی تھیں۔ اس کا جی متلانے لگا۔ اتنا ہولناک منظر کو دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ اگرچہ وہ تجسس سے مجبور ہو کر کنویں میں اتر آیا تھا مگر اسے امید نہیں تھی کہ اس کا سامنا ایسے ہولناک منظر سے ہو گا۔ وہ دم سادھے پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے آس پاس بکھری ہڈیوں اور کھوپڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ ظالم انگریز کی کہانیاں جھوٹی نہیں تھیں۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا سچ مچ بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ اس سچ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
روشنی کی وجہ سے مکڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ معاً اس کے ذہن میں آیا انسانی ہڈیاں ان چیونٹیوں کی آماجگاہ ہیں، ایسا نہ ہو کہ یہ آدم خور ہوں اور اسے منٹوں میں چٹ کر جائیں۔ ایسی صورتحال میں اس کی موت یقینی تھی۔ اب عنصر جلدازجلد اس ویران کنویں سے نکلنا چاہتا تھا مگر اوپر جانے کا واحد ذریعہ یعنی زنگ آلود سیڑھی ٹوٹ چکی تھی اور اس کے پاس ہی ترچھی پڑی تھی۔ اس نے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی ایسی چیز مل جائے جو اسے کنویں سے باہر نکالنے میں مددگار ہو مگر وہاں ہڈیوں اور کھوپڑیوں اور پیپل کے ٹوٹے پتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
”یاخدا! مجھے اس مصیبت سے نجات کی راہ دکھلا دے۔“
اس کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی۔
یکبارگی اس کے ذہن میں ریاست کا خیال آیا۔ اس نے سوچا ریاست کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ میں یہاں مصیبت میں پھنسا ہوا ہوں۔ طے شدہ منزل پر پہنچ کر وہ میرا انتظار کر رہا ہو گا اور میں یہاں کنویں کا قیدی بنا بیٹھا ہوں۔ اس نے ریاست کو نیلی حویلی کے اندر آنے سے منع کیا تھا اس لیے اس بات کا امکان نہیں تھا کہ وہ اس کی مدد کو آئے گا لہٰذا یہاں گل سڑ کر مرنے سے بہتر ہے جان بچانے کی کوئی تدبیر کی جائے۔
اسے اس بات پر بھی حیرت ہو رہی تھی کہ گڑگڑاہٹ کی آواز کنویں کی تہہ سے ہی آ رہی تھی کہ شاید یہاں بھی کوئی قبر ہو لیکن یہاں تو کوئی چھوٹا سا رخنہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ یہاں کے حالات و واقعات دیکھ کر اسے گمان ہونے لگا کہ یہ سب اس کی غلط فہمی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر ایک بار پھر ٹارچ کی روشنی میں کنویں کا معائنہ لیا۔ کنویں کی دیواریں کائی جمنے سے سبز رنگ کی ہو چکی تھیں۔ اس لیے ان پر ہاتھ جما کر اوپر چڑھنا ممکن نہیں تھا۔درخت کا تنا آدھے سے زیادہ کنویں کی دیوار کے اندر دھنسا ہوا تھا اور جوحصہ باہر تھا وہ بھی اتنا سپاٹ تھا کہ اس کے سہارے وہ اوپر نہیں جا سکتاتھا۔ پھر اسے ایک تدبیر سوجھی۔
درخت کی لمبی لمبی ڈاڑھیاں بالوں کی لٹوں کی مانند کنویں کے اندر لٹکی ہوئی تھیں جو اس سے تقریباً نو دس فٹ بلندی پر تھیں۔ اگر وہ کسی طرح ان تک پہنچ جاتا تو ان کے ذریعے کنویں سے باہر نکل سکتا تھا۔ سیڑھی استعمال کرنے کا خیال اس نے ناقابل بھروسہ قرار دے کر دماغ سے جھٹک دیا۔ تہہ میں بکھری ہڈیاں بھی اس کی کوئی معاونت نہیں کر سکتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر ویسے بھی اسے گھن آ رہی تھی۔
عنصر اضطرابی کیفیت میں کوئی وسیلہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کونے میں پڑے ایک بڑے سے پتھر پر پڑی۔ اس نے سوچا اگر کسی طرح پتھر کو کھینچ کر درخت کے پاس لائے اور اس پر کھڑے ہو کر چھلانگ لگائے تو ممکن ہے اس کا کام بن جائے۔ اس نے اپنے منصوبے پر عملدرآمد کے لیے بھاری بھرکم پتھر پر ہاتھ جمائے اور اسے ایک جانب دھکیلا مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ نجانے کتنی مدت سے پڑے پڑے وہ تہہ کے ساتھ جم چکا تھا۔ اس نے ایک بار پھر پوری قوت سے پتھر کو ایک جانب دھکیلا تو فضا میں گڑگڑاہٹ کی تیز آواز گونجی۔
عنصر نے گھبرا کر اسے چھوڑ دیا۔ جو منظر اس کے سامنے تھا اسے دیکھ کر اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ قدآدم کے برابر کنویں کی دیوار اندر کو دھنس رہی تھی۔ کچھ دیر مبہوت کھڑا رہنے کے بعد اس نے دوبارہ پتھر کو دھکیلا تو دیوار مزید اندر کو دھنس گئی۔ وہ پوری قوت سے پتھر کو دھکیلتا رہا حتی کہ وہ ایک جگہ پر جم گیا۔ اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ کنویں کی دیوار تقریباً چھ سات فٹ تک اندر دھنس چکی تھی۔ عنصر نے ٹارچ کی روشنی شگاف کے اندر ڈالی تو اسے ایک راہداری نظر آئی لیکن وہ اندر جانے کے بجائے ایک جانب کھڑا ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ برسوں بند رہنے کی وجہ سے یہاں زہریلی گیس جمع ہو سکتی ہے جو اسے نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اس لیے وہ ایک جانب کھڑا ہو گیا تاکہ زہریلی گیس اوپر نکل جائے یا اس کے اثرات کم ہو جائیں۔
کافی دیر یونہی رہنے کے بعد وہ اللہ کا نام لے کر راہداری کے اندر داخل ہو گیا۔ راہداری زیادہ بڑی نہیں تھی۔ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا وہ اس کے آخری کونے تک پہنچا تو وہاں اسے ایک بغلی دروازہ نظر آیا۔ اس نے کچھ توقف کیا پھر اس پر دباﺅ ڈالا تو وہ بغیر مزاحمت کیے آرام سے کھلتا چلا گیا۔
عنصر کمرے میں داخل ہوا تو ششدر رہ گیا۔ کمرہ روشن تھا۔ بلب کی ملگجی روشنی ہرسو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ٹارچ بند کر کے جیب میں ڈالی۔ کمرہ چھوٹے بڑے قدیم طرز کے کئی صندوقوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک کونے میں خوبصورت نقش و نگار والا ایک تابوت رکھا ہوا تھا جس کے اوپر چھوٹی سے مرصع صندوقچی پڑی تھی۔ عنصر پہلے ہی کمرے میں روشنی دیکھ کر سوچ میں پڑا تھا اوپر سے تابوت کی موجودگی نے اس کے تجسس کو مزید بڑھا دیا۔
وہ تابوت کے پاس گیا۔ اس کے اوپر پڑی صندوقچی کو کھولا تو اس میں پڑے ہیرے جواہرات کی چمک سے اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ صندوقچی بیش قیمت زیورات سے لبالب بھری تھی۔ عنصر نے مزید ٹٹولا تو اسے محسوس ہوا صندوقچی کی تہہ میں کچھ اور بھی پڑا ہے۔ اس نے جواہرات ہٹا کر دیکھا تو سرخ رنگ کی ایک ڈائری نظر آئی جو اس نے احتیاط سے نکال لی۔ پرانے زمانے کی ڈائری تھی جس کے اوراق بھی بوسیدہ ہو چکے تھے۔ اس نے ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا اور پڑھتا چلا گیا۔ جوں جوں پڑھتا رہا توں توں حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتا گیا۔ ڈائری میں لکھے مضامین کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ:
”میرا نام جارج فرنانڈس ہے اور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم ہوں۔ مجھے یہ ٹاسک سونپا گیا ہے کہ میں ہندوستان کے اس علاقے میں کمپنی کی نمائندگی کروں۔ جب میں یہاں آیا تو اس علاقے کی خوبصورتی اور یہاں دولت کی فراوانی نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ ابتداً یہاں قدم جمانے کے لیے میں نے نیلی حویلی کے نواب گنپت رائے سے راہ و روسم بڑھایا اور اسے کاروبار میں بھاری منافعے کا جھانسہ دے کر یہیں مقیم ہو گیا۔ جلد ہی میں اس کی تمام کمزوریوں اور خامیوں سے واقف ہو گیا۔ اگلے قدم کے طور پر میں نے اس علاقے کے ساتھ ملحقہ ریاست کے فرمانروا نواب اشوک کمار سے ملاقات کی جو گنپت رائے کا بدترین دشمن تھا۔ اشوک کمار کو بھاری دولت کا لالچ دے کر گنپت رائے پر حملے کے لیے اکسایا تو وہ بخوشی راضی ہو گیا۔ اپنے دشمن کو ملیامیٹ کرنے کے لیے وہ پہلے سے ہی پیچ و تاب کھا رہا تھا، میری مدد کی پیشکش سے گویا اس کی دلی مراد پوری ہو گئی۔ اوپر سے ڈھیر ساری دولت کا لالچ۔ اگلی چند ملاقاتوں میں، میں نے اسے گنپت رائے کی تمام کمزوریوں سے آگاہ کیا اور حملے کی تاریخ اور مقام طے کر کے بقیہ منصوبہ بنایا۔ میرے اور اشوک کمار کے طے شدہ معاہدے کے مطابق اس نے حملے کے بعد دولت میں اپنا حصہ لے کر واپس چلے جانا تھا جبکہ ریاست کی فرمانروائی میرے حصے میں آنا تھا۔ بالآخر وہ گھڑی آن پہنچی۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ میری مدد کی بدولت اشوک کمار نے علاقہ فتح کر لیا اور حسب معاہدہ اپنا حصہ لے کر چلا گیا۔
اب میں اس خوبصورت نیلی حویلی کا جو میری بیوی کیتھرین کی طرح ہی خوبصورتی میں لاثانی تھی، بلاشرکت غیرے اکیلا ہی مالک تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے میری کارکردگی سے خوش کر ناصرف مجھے اگلے عہدے پر ترقی دی بلکہ بہت سے انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ اب میں اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا دوں گا۔“
عنصر تیزی سے ڈائری کے اوراق پلٹتا گیا۔ اگلے صفحات میں اس نے تاریخ وار ذکر کیا تھاکہ کیسے اس نے اس علاقے کا سکون غارت کیا۔ مسلمان اور ہندو دولت مند گھرانوں کو لوٹا۔ وہ اپنے مخالفوں کو اذیت ناک سزا دے کر حویلی کے کنویں میں پھینک دیتا تھا۔ اس نے ان قبیح حرکتوں کو قابل فخر کارناموں کے طورپر ذکر کیا تھا۔ ڈائری میں اسی قسم کے واقعات کا ذکر تھا۔ حیرانی و پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے عنصر ڈائری کے چیدہ چیدہ صفحات پڑھتا چلا گیا۔ آخری صفحے پر درج تھا:
”کیتھرین مر گئی۔ اس صدمے نے مجھے نڈھال کر دیا ہے لیکن میں چاہتا ہوں جب تک میں زندہ رہوں کیتھرین میری نظروں کے سامنے رہے۔ اس لیے میں اسے ہرگز دفن نہیں کروں گا۔ میں اسے مرتے دم تک اپنے پاس رکھوں گا۔“
آگے کچھ نہیں لکھا تھا۔ ڈائری ختم ہو چکی تھی۔ عنصر نے صندوقچی اور ڈائری زمین پر رکھی اور لرزتے ہاتھوں سے تابوت کھولا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تابوت میں ایک حنوط شدہ لاش پڑی تھی۔ لاش کی کھوپڑی پر ایک طلائی تاج چمک رہا تھا اور گلے میں بیش قیمت ہار لٹک رہا تھا جس پر کیتھرین لکھا تھا۔ عنصر نے تابوت بند کیا‘ صندوچی اس کے اوپر ویسے ہی رکھ دی جیسے پہلے پڑی تھی۔ البتہ ڈائری اس نے اپنی پینٹ میں اڑس لی تھی۔ اس نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
”یاخدا! یہ سب میں کیا دیکھ رہا ہوں۔“
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ اس بات پر اس کا پختہ ایمان تھا کہ یہ سب چیزیں ظاہر ہونے کا یقینا کوئی نہ کوئی مقصد ہو گا ورنہ یہ معاملات کبھی اس کے سامنے ظاہر نہ ہوتے۔ اس نے اسے قدرت کی مصلحت جانا اور واپسی کے لیے مڑا۔ ابھی اسے یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ وہ اوپر کیسے جائے گا کیونکہ زنگ آلود سیڑھی ٹوٹ چکی تھی۔ دفعتہ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کنویں کی حالت دیکھ نہیں لگتا کہ اسے کوئی ادھر آنے کے لیے استعمال کرتا ہو گا یقینا اس کمرے میں آنے کا کوئی اور راستہ بھی ہو گا۔ اس نے بلب کی ملگجی روشنی میں کمرے کا طائرانہ جائزہ لیا۔ کمرے میں صرف ایک ہی دروازہ تھا جس سے وہ اندر آیا تھا۔ اس بات نے اس کی پریشانی میں اضافہ کر دیا۔ وہ اسی سوچ بچار میں گم تھا کہ کمرے میں تیزگڑگڑاہٹ کی آواز گونجنے لگی۔
کمرے کی وسطی دیواریں متوازی سمت میں سرک رہی تھیں۔ عنصر تیزی سے تابوت کے پیچھے گیا اور دم سادھ کر اس کی آڑ میں لیٹ گیا۔ گڑگڑاہٹ ختم ہوئی تو کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو سیدھا چلتا ہوا صندوقوں کے پاس پہنچ گیا۔ اپنی ہی دھن میں مگن وہ گانا گنگنا رہا تھا۔ اچانک کمرے میں پڑے ایک صندوق کے کھلنے کی آواز آئی۔ نووارد نے اس کے اندر کچھ رکھا اور چلا گیا۔ گڑگڑاہٹ کی آواز دوبارہ آنے لگی اور دیوار آپس میں مل گئی۔ عنصر کو جب اطمینان ہو گیا کہ نووارد چلا گیا ہے تو وہ تابوت کے پیچھے سے نکل آیا۔ اس نے عنصر کی موجودگی کو محسوس نہیں کیا تھا۔ چونکہ وہ تابوت کی آڑ میں لیٹا ہوا تھا اس لیے یہ نہیں دیکھ سکا تھا کہ اندر آنے والا کون تھا۔ بہرحال نیلی حویلی اس کے لیے بہت سارے اسراروں کا مجموعہ بن چکی تھی۔ خوش قسمتی سے نووارد کی نظر دروازے پر بھی نہیں پڑی تھی۔ جو تھوڑا سا کھلا رہ گیا تھا۔ اگر اس کی نظر دروازے پر پڑ جاتی تو اسے شک ہو جاتا کہ کمرے میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہے اور عنصر پکڑا جا سکتا تھا۔ یہ سوچ کر اس نے جھرجھری لی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس معاملے میں اس کی پردہ پوشی فرمائی۔
عنصر نے تمام خیالات کو ذہن سے جھٹک کر اس صندوق کو کھولا جس میں نووارد نے کچھ رکھا تھا۔ اس پر قفل نہیں پڑا تھا۔ شاید نووارد کو مکمل اطمینان تھا کہ یہاں کوئی نہیں آئے گا اس لیے اس نے قفل لگانے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ صندوق کھولتے ہی عنصر ششدر رہ گیا۔ پورا صندوق رائج الوقت روپوں اور زیورات سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تمام صندوق دیکھ لیے۔ تمام صندوق روپوں اور قدیم و جدید طرز کے جواہرات سے بھرے ہوئے تھے۔
ایک ویران کنویں کے تہہ خانے میں دولت کے اتنے انبار دیکھ کر حیرانی و پریشانی کی ملی جلی کیفیات عنصر کے چہرے پر ابھر آئیں۔ ڈائری کے لحاظ سے قدیم جواہرات تو جارج فرنانڈس کے تھے جو اس نے لوٹ مار سے جمع کیے تھے لیکن نئے ڈیزائنوں کے زیورات اور نوٹ یہاں کون جمع کر رہا تھا۔ اس بات نے اسے ایک نئی فکر میں مبتلا کر دیا۔ وہ یہاں چوہدری عمردراز کو بے نقاب کرنے آیا تھا مگر یہاں تو ہر آن نئی سے نئی پہیلی تہہ در تہہ کھلتی جا رہی تھی۔
چونکہ عنصر ایک ایماندار اور نیک جوان تھا لہٰذا اس نے اس خزانے میں سے ایک دھیلا بھی نہ اٹھایا۔ ویسے بھی اسے مال و دولت کی کوئی حرص نہیں تھی۔ ماسٹر حمید نے اسکی بڑی اچھی تربیت کی تھی۔ وہ خود بھی یونان میں اچھی خاصی کمائی کر رہا تھا۔ اس لیے اس خزانے نے اسے حیرت میں تو ضرور ڈالا مگر اسے لبھانے میں ناکام رہے۔ اس نے احتیاط سے دروازہ بند کیا۔ کنویں میں واپس آ کر پتھر سرکا کر راہداری بند کر دی۔ اسے تلاش بسیار کے باوجود وہ راستہ نہیں ملا تھا جہاں سے نووارد کمرے میں داخل ہوا تھا اس لیے اس نے کنویں سے ہی واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے دل کڑا کر کے زنگ آلود سیڑھی کو زمین سے جمایا اور اوپر چڑھنے لگا۔ بالآخر وہ اتنا اوپر جانے میں کامیاب ہو گیا جہاں سے وہ آسانی سے درخت کی لٹکتی ڈاڑھوں کو پکڑ سکتا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے اللہ کو یاد کیا اور جست لگا کر انہیں پکڑلیا۔ عنصر کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی کیونکہ درخت کی ایک ڈاڑھ نے اس کا وزن برداشت کر لیا تھا۔ البتہ اب وہ اس کے ساتھ لٹکا ادھر ادھر جھول رہا تھا۔ اس نے اپنی تمام تر ہمت جمع کی اور اوپر چڑھنے لگا۔ کچھ دیر کی مسلسل کوشش کے بعد اس نے کنواں پار کر لیا اور منڈیر پھلانگ کر بحفاظت باہر نکل آیا۔
پو پھٹ چکا تھا اور آسمان کے ایک کنارے پر سرخ سی لکیر پھیلی ہوئی تھی۔ نیلی حویلی کے عقب سے ہوتا ہوا وہ پگڈنڈی کے ذریعے ریاست کے پاس پہنچ گیا جو پکی سڑک پر طے شدہ مقام پر موٹرسائیکل لیے بے تابی سے اس کا منتظر تھا۔ واپسی کے لیے انہوں نے موٹرسائیکل پہلے ہی سرکنڈوں کے پیچھے چھپا دی تھی تاکہ بھاگنے میں آسانی رہے۔ راستے میں دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی۔ دونوں میں طے ہوا کہ چونکہ رات بہت ہو چکی ہے اس لیے صبح اٹھ کر ایک دوسرے پر بیتنے والے واقعات سنائیں گے۔ ریاست کو گھر چھوڑ کر عنصر اپنے گھر چلا گیا۔ کپڑے بدلتے ہوئے اُسے یاد آیا اس کا موبائل اس کی جیب میں نہیں ہے۔ وہ کہیں راستے میں ہی گر گیا تھا۔(جاری ہے)

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 19 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں