’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 19
رات کے اعصاب شکن ایڈونچر کے بعد عنصر گھوڑے بیچ کے سو رہا۔
صبح دن چڑھے اٹھا تو ماسٹر حمید سکول جا چکے تھے۔ اماں اس وقت تہجد کی نماز پڑھ رہی تھیں جب عنصر لوٹا تھا لیکن انہوں نے اس وقت اس سے اتنی دیر باہر رہنے کی وجہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ عنصر غسل کر کے تازہ دم ہو کر واپس آیا تو اماں نے دسترخوان پر ناشتہ سجا دیا تھا۔
”رات کو کافی دیر بعد واپس آئے، کہاں تھے؟“
اماں نے پیار سے پوچھا۔
”وہ اماں میں .... میں ....ریاست کے ساتھ تھا۔“
عنصر گھبراکر بولا۔
”کیا واقعی؟“
”جی اماں۔ آپ ریاست سے پوچھ سکتی ہیں۔“
”پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ ریاست بہت اچھا لڑکا ہے۔ جب تم اس کے ساتھ ہوتے ہو تو مجھے کوئی فکر نہیں ہوتی۔“
عنصر نے بھی تائید میں سر ہلا دیا۔
اسی اثنا میں دروازے کی بیل بج اٹھی۔ عنصر ناشتے میں مصروف تھا اس لیے اماں اٹھیں اور باہر دیکھنے چلی گئیں کہ کون آیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئیں تو ان کے ساتھ ریاست بھی تھا۔
”بڑی لمبی عمر ہے تمہاری۔ ابھی تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا۔“
عنصر اسے دیکھتے ہی بولا۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 18 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اماں نے اسے بھی ناشتہ ڈال کر دیا اور محلے میں کسی عورت کی تیمارداری کا کہہ کر تھوڑی دیر میں واپس آنے کا کہہ کر چلی گئیں۔ ناشتہ کرتے ہوئے ریاست نے نوٹ کیا کہ عنصر کسی گہری سوچ میں گم ہے۔ بہرحال دونوں نے اطمینان سے ناشتہ کیا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر عنصر اسے نیلی حویلی میں بدروح کے قبر میں جانے سے لے کر کنویں میں انسانی ڈھانچوں کی موجودگی، خفیہ راستہ سے تہہ خانے میں جانے، کیتھرین کی حنوط شدہ لاش اور خزانہ ملنے تک تمام واقعات تفصیل سے بتاتا چلا گیا۔
ریاست منہ کھولے تمام واقعات سن رہا تھا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ کیا عنصر جو بتا رہا وہ واقعی سچ ہے۔ ایک لمحے کے لیے تو اس نے سوچ لیا کہ وہ اس کی تمام باتوں کو جھٹلا دے کیونکہ ایسی باتیں قصے کہانیوں میں اچھی لگتی ہیں لیکن عنصر جس وثوق سے بتا رہا تھا اسے جھٹلانا بھی اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
نیلی حویلی کے اندر تو ایک الگ ہی دنیا آباد تھی۔ اس کی پراسراریت کی کہانیاں پہلے ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اب تو ان میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔
”وہ ڈائری کہاں ہے؟“
ریاست نے اس کے خاموش ہوتے ہی بے تابی سے پوچھا۔
عنصر اپنے کمرے سے ڈائری اٹھا لیا۔ ڈائری کم از کم ڈیڑھ سو سال پرانی تھی اس لیے اس کے اوراق بہت بوسیدہ ہو چکے تھے تاہم اس پر لکھی تحریر اب بھی واضح پڑھی جا سکتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئے اور پہلے صفحے سے ڈائری پڑھنا شروع کر دی۔ چونکہ اس میں سے کافی اوراق عنصر پہلے ہی پڑھ چکا تھا اس لیے اس کے لیے اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن ریاست کے لیے اس میں لکھی تمام باتیں حیرت کا سامان لیے ہوئے تھیں لیکن ڈائری پڑھتے ہوئے ایک مقام ایسا بھی آیا جو عنصر کی نظروں سے اوجھل رہ گیا تھا۔ اس لیے اس کی دلچسپی، تجسس ایک بار پھر عود آیا تھا۔ دونوں دوست جیسے جیسے ڈائری کے صفحات پلٹ رہے تھے ویسے ویسے ان کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلتی جا رہی تھیں۔
آگے کے صفحات میں جارج فرنانڈس نے اپنی مزید کالی کرتوتوں کو بیان کیا تھا۔ اس نے بڑی تفصیل سے لکھا تھا کہ وہ اس علاقے کی دولت مند شخصیات کے بچوں کے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے اورجو اسے پیسے ادا نہیں کرتے تھے ان کے بچوں کووہ بیرون ممالک بیچ دیا کرتا تھا۔ اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول تھا۔ اور اس مقصد کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز کام کرنے پر آمادہ تھا۔
عنصر اور ریاست کی حیرت اس وقت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی جب انہوں نے پڑھا کہ نیلی حویلی کے نیچے خفیہ راستہ بھی موجود ہے جہاں سے وہ بچوں کی سمگلنگ نہایت آسانی سے کیا کرتا تھا۔ اس طرح کسی کو اس پر شک بھی نہیں ہوتا تھا۔
”نیلی حویلی کے نیچے خفیہ راستہ؟“
ڈائری ختم ہو چکی تو دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کے طرف دیکھا۔
”یاخدا! یہ کیا ماجرا ہے؟“
ریاست نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
”بہت ہی منحوس شخص تھا جارج فرنانڈس۔ جبھی تو اس کی کالی کرتوتوں کی سیاہی ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نیلی حویلی کے ذرے ذرے سے ابھی تک اس کی نحوست ٹپک رہی ہے۔ خفیہ راستے کے ذریعے وہ عرصہ دراز تک جرائم کرتا رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔“
ریاست بے خیالی میں بولتا چلا گیا۔
”لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان منحوس کاموں کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔“
عنصر سپاٹ لہجے میں بولا تو ریاست کی طرف دیکھنے لگا۔
”تمہارا کہنے کا مطلب ہے جارج فرنانڈس ابھی تک زندہ ہے؟“
”نہیں یار۔“
”تو کیا اس کی بدروح یہ کام کر رہی ہے؟“
”نہیں یار۔“
عنصر نے اس بار جھنجھلا کر جواب دیا۔
”تو پھر یہ کام کون کر رہا ہے؟“
ریاست نے حیرانی سے پوچھا۔
”چوہدری عمردراز۔“
”کیا....؟“
عنصر کی بات سن کر ریاست کو حیرت کا زوردار جھٹکا لگا۔
”خود سوچو۔ جارج فرنانڈس کا باب بند ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں لیکن اس ڈائری کے مطابق جو جو کام وہ کرتا تھا وہ سب ابھی تک جاری ہیں۔ کوئی تو ایسا ہے جو ابھی تک اس کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے اور میرے نزدیک وہ ایک ہی شخص ہے۔ چوہدری عمردراز۔“
ریاست ہونقوں کی طرح منہ کھولے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
”لازم تو نہیں کہ اس کام میں چوہدری عمردراز ہی ملوث ہو۔ کوئی اور بھی تو یہ کام کر سکتا ہے۔“
ریاست کی بات سن کر عنصر چونک اٹھا۔
”تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“
”وہ دراصل میں تمہیں ایک بات بتانا بھول گیا تھا۔ جب میں نیلی حویلی سے گزر کر بھاگ رہا تھا تو راستے میں کسی نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن میری ٹکر سے وہ کھیت میں جا گرا اور میں بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ تمہیں پتا ہے وہ شخص کون تھا؟“
ریاست کی بات ختم ہوئی تو عنصر سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”تھانیدار احسان اللہ۔“
ریاست کی بات سن کر اس بار حیران ہونے کی باری اس کی تھی۔ وہ حیرانی اور پریشانی کے سمندر میں ابھی تک غوطے کھا رہا تھا۔
”کیا کہہ رہے ہو؟“
”میں درست کہہ رہا ہوں۔ تھانیدار احسان اللہ پتا نہیں کہاں سے نکل کر اچانک پگڈنڈی پر میرے سامنے آ گیا تھا۔“
ریاست نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”اوہ .... اس نے تمہیں پہچانا تو نہیں؟“
عنصر نے پرتشویش لہجے میں پوچھا۔
”نہیں۔ میں نے منہ پر چادر ڈال رکھی تھی۔“
ریاست نے پورے وثوق سے کہا۔
”اس کا مطلب ہے اس کھیل میں وہ بھی شامل ہے۔“
عنصر نے پرخیال لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں۔ کون شامل ہے کون نہیں۔ لیکن ایک بات ہے یار۔ یہ بہت ہی پیچیدہ معاملہ ہے اور ہم اس میں خوامخواہ پھنستے جا رہے ہیں۔“
ریاست نے پریشانی سے کہا۔
عنصر نے ایک ٹھنڈی آہ بھری کیونکہ ریاست کی اس بات کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بہرحال اتنا دونوں کو یقین ہو چلا تھا کہ ان وارداتوں میں یا تو چوہدری عمردراز ملوث ہے یا تھانیدار احسان اللہ۔ اس بات کا پتا چلانے کا فی الحال ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اگر چوہدری عمردراز ملوث تھا تو پھر وہ ان کے لیے یقینا بہت ہی خطرناک انسان ثابت ہو سکتا تھا اور اگر تھانیدار احسان اللہ ملوث تھا تو پھر بھی وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے کیونکہ بہرحال وہ ایک تھانے کا انچارج تھا اور کسی بھی جھوٹے مقدمے میں ان کو پھنسا کر حوالات میں بند کر سکتا تھا۔ گاو¿ں دیہاتوں میں ایسے واقعات معمولی سمجھے جاتے ہیں۔ عنصر ایک بار پھر اپنے آپ کو اندھیری گلی میںبند تصور کر رہا تھا۔ ریاست کے جانے کے بعد اس نے سارا دن گھر میں ابا اور اماں کے ساتھ گزارا اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر غوروفکر کرتا رہا۔
اگلی صبح عنصر کو اماں کی پریشان کن آواز نے جگا دیا۔
انہوں نے اسے بتایا کہ تمہارے ابا فجر کی نماز پڑھنے گئے۔ اب سکول کا وقت ہونے کو آیا مگر وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹے۔ عنصر نے انہیں تسلی دی اور ہاتھ منہ دھو کر مسجد گیا تو امام مسجد نے بتایا کہ وہ آج نماز پڑھنے آئے ہی نہیں کیونکہ وہ روز نماز کے بعد ان سے مصافحہ کر کے گھر جاتے تھے۔ دیگر نمازیوں نے بھی یہی گواہی دی کہ وہ آج مسجد نہیں آئے حالانکہ اماں نے بتایا تھا کہ وہ گھر سے وضو کر کے نماز کیلئے گئے تھے۔ عنصر سکول گیا تو وہاں سے بھی یہی معلوم ہوا کہ وہ آج آئے ہی نہیں جس سے اس کی پریشانی بڑھتی گئی۔ وہ ماسٹر حمید کے جاننے والے ایک ایک آدمی کے پاس گیا مگر وہ کہیں بھی نہیں ملے۔
شام ڈھلنے لگی۔ عنصر نے گاﺅں کا کونہ کونہ چھان مارا مگر اسے ابا کہیں نہیں ملے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی نے ان کو دیکھا تھا نہ وہ کسی کو کچھ بتا کر گئے تھے۔ اب عنصر کے پاس سوائے اس بات کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی پولیس کو رپورٹ کرے۔ اس نے فون نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو یاد آیا فون تو پرسوں کا گم ہو چکا ہے۔ اس نے ریاست کو ساتھ لیا اور تھانے جا پہنچا۔ تھانیدار احسان اللہ ماسٹر حمید کی گمشدگی کا سن کر فوری حرکت میں آ گیا۔ اس نے چوکی فون کیا تو پتا چلا ماسٹر حمید نام کا کوئی شخص وہاں سے نہیں گزرا۔ اس کا مطلب تھا وہ گاﺅں میں ہی تھے مگر وہ کہاں تھے کسی کو معلوم نہ تھا۔ بہرحال تھانیدار احسان اللہ اس کے ساتھ گاﺅں آیا اور مختلف لوگوں کے بیانات لیے۔
”عنصر صاحب! آپ کو کسی پر شک وک تو نہیں ہے۔“
تھانیدا ر نے پوچھا۔
”جی ہے جناب۔ مجھے چودھری عمر دراز پر شک ہے۔ “
عنصر نے بلاتاخیر کہا۔
”دیکھیں عنصر صاحب !نہ آپ کا چوہدری عمر دراز سے کوئی خاندانی جھگڑا ہے۔ نہ کوئی جائیداد کا مسئلہ۔ تو پھر آپ ان پر الزام کیوں لگا رہے ہیں؟ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ آپ کے والد صاحب کو اغوا کر کے انہیں کیا فائدہ حاصل ہونا ہے۔“
تھانیدار نے کہا۔
”فائدے نقصان کا مجھے نہیں پتا مگر مجھے جس پر شک ہے میں نے اس کا نام بتا دیا ہے۔ اب آپ کا کام ہے تفتیش کرنا۔ ہماری اس کے علاوہ اور کسی سے کشمکش نہیں ہے۔“
عنصر نے تنک کر جواب دیا۔
”ٹھیک ہے جناب!چونکہ آپ کو چوہدری عمردراز پر شک ہے تو میں تفتیش کے تقاضے ضرور پورے کروں گا۔“
تھانیدار نے عنصر کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور چوہدری عمردراز کی حویلی کے آگے جا کر بریک لگا دی۔ وہ صحن میں ہی ملازموں کے جھرمٹ میں کرسی پر براجمان تھا۔
”السلام علیکم چوہدری صاحب !“
تھانیدار احسان اللہ نے اسے سلام کیا۔
چوہدری عمردراز نے سلام کا جواب دینے کے بجائے صرف ہاتھ اٹھانا ہی مناسب سمجھا۔
”آیئے آیئے تھانیدار صاحب! بڑی دیر بعد دیدار کرایا۔ ہماری خوش نصیبی جو آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے۔“
”چوہدری صاحب کیوں شرمندہ کر رہے ہیں۔ یہ تو آپ کی عاجزی ہے ورنہ بندہ کہاں اس قابل۔“
تھانیدار احسان اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تھانیدار جی آپ جب دل چاہیں یہاں آ سکتے ہیں۔ یہ آپ کا اپنا ہی ڈیرہ ہے۔ یہ بتایئے آج کیسے آنا ہوا؟“
چوہدری عمردراز نے عنصر کی جانب دیکھتے ہوئے مونچھوں کو تاﺅ دیا۔
”کچھ خاص نہیں چوہدری صاحب۔ یہ گاﺅں کا لڑکا ہے۔ عنصر نام ہے اس کا۔ شاید آپ اسے جانتے ہوں۔ ماسٹر حمید کا بیٹا ہے۔ ان کے والد صبح سے لاپتہ ہیں۔“
تھانیدار نے عنصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”تھانیدار صاحب! ماسٹر حمید بچے تو نہیں ہیں۔ کہیں کام سے گئے ہوں گے۔ انتظار کریں ہو سکتا ہے رات تک واپس آ جائیں۔ “
چوہدری عمردراز نے عنصر کی طرف گھور کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا مگر یہ کہتے ہیں ان کے والد لاپتہ نہیں ہوئے بلکہ انہیں اغوا کیا گیا ہے۔“
تھانیدار نے جواب دیا۔
”اغوا کیا ہے ؟ کون اغوا کر سکتا ہے ماسٹر حمید کو ؟“
چوہدری عمردراز نے اس بار قدرے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ بات تو کسی کو نہیں پتا۔ مگر ....؟“
تھانیدار بات کرتے کرتے رُک گیا۔
”مگر کیا تھانیدار صاحب؟“
چوہدری عمردراز نے تھانیدار کی جانب دیکھا۔
”چوہدری صاحب! برا محسوس نہ کیجئے گا۔ ان کو شک ہے ماسٹرحمید کو آپ نے اغوا کیا ہے۔“
تھانیدار احسان اللہ نے دبے دبے لہجے میں کہا۔
”ہیں....؟“
چوہدری عمردراز کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
اس کے چہرے پر سختی کے آثار ابھر آئے۔ اس نے اپنی موٹے شیشوں والی عینک ذرا نیچے کر کے غور سے عنصر کو دیکھا اور پھر یکدم قہقہے مارنے لگا۔ اس کے پانچوں ملازم بھی اِس معاملے میں اُس کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے۔
”تھانیدار صاحب ! میری ماسٹر حمید سے بھلا کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ وہ تو ہمارے محسن ہیں۔ گاﺅں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا ہے انہوں نے۔ ان کی گمشدگی کا سن کر مجھے افسوس ہوا ہے۔ یہ تو بچہ ہے ابھی۔ پتا نہیں کیوں مجھ پر الزام لگا رہا ہے۔ گاﺅں کا بچہ بچہ جانتا ہے میں سب کا کتنا خیرخواہ ہوں۔ بہرحال یہ قانونی معاملہ ہے۔ میں آپ کے سامنے رکاوٹ نہیں بنوں گا۔ آپ چاہیں تو میرے گھر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔“
بات ختم کر کے چوہدری عمردراز نے ایک ملازم کو اشارہ کیا تو وہ سرہلا کر آگے بڑھا۔
”چوہدری صاحب! مجبوری ہے۔ میں آپ سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔“
تھانیدار نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
”نہیں جناب! آپ بلاجھجک چیک کریں۔ ایک شریف شہری ہونے کے ناطے قانون کی مدد تو میرا فرض ہے تھانیدار صاحب۔ ماسٹر حمید کو ڈھونڈنے میں، میں آپ کی ہرممکن مدد کروں گا۔“
اس کے ساتھ ہی آگے بڑھنے والے ملازم نے انہیں پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ تھانیدار اور عنصر نے حویلی کا ایک ایک کمرہ کھول کر دیکھ لیا۔ پوری حویلی خالی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں تھا۔ عنصر کا سر چکرانے لگا۔ اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد وہ واپس چوہدری عمردراز کے پاس آ گئے۔ اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
”تھانیدار صاحب! آپ کو تو پتا ہے گاﺅں میں پراسرار وارداتیں ہو رہی ہیں۔ بہرحال پھر بھی میں ماسٹر حمید کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کروں گا۔ اوئے ماکھے سارے بندوں کو لگا دے ماسٹرجی کو ڈھونڈنے کیلئے۔ ماسٹر جی گاﺅں کیلئے اور ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں۔“
چوہدری عمردراز کی بڑی بڑی مونچھوں پر زہریلی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ عنصر کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اس کا دل یہی کر رہا تھا کہ ایک بار اِس کی خوب دُھلائی کر دے اور پھر اس سے ماسٹر حمید کا پوچھے۔
”چوہدری صاحب! ابا آپ سے زیادہ میرے لیے قیمتی ہیں اور یہ میرا وعدہ ہے آپ سے اپنے ابا کو ڈھونڈ نکالوں گا۔“
عنصر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
”میری بھی یہی خواہش ہے ماسٹر جی مل جائیں بچے۔ مگر ....“
چوہدری عمردراز نے چشمہ اتارا اور صاف کر کے آنکھوں پر لگاتے ہوئے کہا:
”اس گاﺅں کی روایتیں کچھ اچھی نہیں ہیں۔“
عنصر نے اسے جواب دینا چاہا مگر تھانیدار احسان اللہ نے مداخلت کر دی۔
”ٹھیک ہے چوہدری صاحب ! ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔ تکلیف کیلئے معذرت خواہ ہوں۔“
تھانیدار احسان اللہ نے عنصر کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ چوہدری عمردراز کی حویلی سے باہر آ کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور عنصر کو یقین دلایا کہ وہ ماسٹرحمید کو ضرور ڈھونڈ نکالیں گے اور چلا گیا۔ چوہدری عمردراز کی حویلی سے آ کر بھی عنصر گاو¿ں میں جگہ جگہ پھرتا رہا تاکہ اسے ابا کا کوئی سراغ ملے لیکن کسی کو ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ اپنے موبائل فون کے بغیر بھی وہ خود کو ادھورا محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ریاست کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ پتا لگائے کہ آخری وقت جب اس کا فون گرا تو اس کی لوکیشن کیا تھی کیونکہ اس کا ایک عزیز فون کمپنی میں ملازم تھا اس لیے اس بات کا پتا چلانا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
وہ رات عنصر نے آنکھوں میں جاگ کر کاٹی۔ ماسٹر حمیدکی کہیں سے خبر نہیں ملی تھی۔ اگلے روز صبح ناشتا کرنے کے بعد عنصر ریاست کے پاس پہنچا لیکن جو کچھ اس نے بتایا اسے سن کے اس کے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کے فون کی آخری لوکیشن نیلی حویلی تھی۔ عنصر کے ذہن میں اب گتھیاں سلجھنے لگی تھیں۔
ہوا یوں کہ جب وہ نیلی حویلی میں گیا تو اسی دوران کسی جگہ پر موبائل فون اس کی جیب سے نکل گیا تھا۔ چوہدری عمردراز کے کسی آدمی نے فون اُٹھایا اور جیسے ہی پاور بٹن آن کیا تو وال پیپر پر اس کی تصویر دیکھ کر اسے پہچان گیا۔ عنصر کے نیلی حویلی میں داخلے کی خبر چوہدری عمردراز کو طیش دلانے کیلئے کافی تھی اسی لیے اس نے عنصر سے بدلہ لینے کے لیے جواباً ماسٹرحمید کو اغوا کر لیا۔ چوہدری عمردراز نے ماسٹر حمید کو اغوا کر کے عنصر کو خاصا کرارا جواب دیا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا نیلی حویلی میں داخل ہونے کی اسے اِتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
عنصر وہاں سے سیدھا گھر پہنچا۔ اماں نے رو رو کر برا حال کر رکھا تھا۔ اس نے اماں کو تسلی دینے کے لیے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کہہ دیا کہ ابا قریبی گاﺅں کسی دوست سے ملنے گئے ہیں۔ اُنہیں ضروری کام تھا اس لیے انہیں اتنی جلدی نکلنا پڑا کہ گھر کسی کو بتانے کی فرصت نہیں ملی۔ وہ کل یا پرسوں آ جائیں گے۔ عنصر نے اماں کو اس بات پر راضی کر لیا کہ کل وہ انہیں دوسرے گاﺅں میں خالہ کے گھر چھوڑ آئے گا اور پھر ابا کو لے کر سیدھا اُدھر ہی آ جائے گا۔ کچھ دِن وہاں گزار کر واپس آ جائیں گے۔ اس کی باتیں سن کر اماں کو چین آ گیا اور انہوں نے خالہ کے گھر جانے کی ہامی بھر لی۔
وہ رات عنصر نے بڑی بے چینی سے کاٹی۔ اُسے پختہ یقین تھا کہ ماسٹر حمید کو چوہدری عمردراز نے ہی اغوا کیا ہے۔ اُسے ابا کی بے حد فکر ہو رہی تھی۔ اگلی صبح عنصر اماں کو خالہ کے گھر چھوڑ آیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا چوہدری عمر دراز ماسٹر حمید کے بعد اماں کو کوئی نقصان پہنچائے۔ گاﺅں آ کر وہ سیدھا ریاست کے گھر گیا۔ کافی دیر دونوں دوست یونہی سوچ میں غرق بیٹھے رہے۔
”اب تم نے کیا سوچا ہے؟“
بالآخر ریاست نے سکوت توڑا۔
”ابا کو ڈھونڈنے کیلئے میں ہر حد تک جاﺅں گا۔ اس کیلئے چاہے مجھے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے میں تیار ہوں۔“
عنصر نے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا تو ریاست سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھنے لگا۔
”میں آج رات دوبارہ نیلی حویلی جاﺅں گا۔ “
عنصر نے اٹل لہجے میں کہا۔
ایک لمحے کو ریاست گڑبڑا گیا۔ ”تمہیں لگتا ہے ماسٹر حمید وہاں ہیں۔“
”میرے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں بچا۔ پولیس کے مطابق ابا گاﺅں سے باہر نہیں گئے۔ وہ چوہدری عمردراز کی حویلی میں بھی نہیں ملے۔ میں نے اور تھانیدار احسان اللہ نے اس کی حویلی کا چپہ چپہ چھان مارا تھا۔ “
عنصر نے گہرا سانس لیا۔
”یار عنصر! مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“
ریاست پریشانی سے بولا۔
”مجھے سوفیصد یقین ہے ابا کو اُسی نے اغوا کرایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے انہیں نیلی حویلی کے نیچے موجود کسی خفیہ تہہ خانے میں ہی چھپا کر رکھا ہو۔“
عنصر نے ریاست کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
عنصر کی بات سن کر ریاست نے سر جھکا لیا۔ وہ جانتا تھا یہ کام جان جوکھوں والا ہے لیکن وہ اُسے روک بھی نہیں سکتا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ پھر میں بھی تمہارے ساتھ جاﺅں گا۔“
ریاست نے اٹل لہجے میں کہا۔
”نہیں ریاست! مجھے لگتا ہے آگے کا راستہ اب مجھے اکیلے ہی طے کرنا ہو گا۔ ابا کہا کرتے تھے انسان کی زندگی میں ایسے حالات آتے ہیں جب وہ یہ محسوس کرتا ہے اس کیلئے سارے دروازے بند ہو چکے ہیں مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔ اگر پریشانی انسان پر حاوی ہو جائے تو وہ خود کو ایک بند گلی میں تصور کرتا رہتا ہے اور اسی میں بھٹکتا رہتا ہے لیکن اگر وہ تھوڑی سی ہمت کرے اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لے تو اسے باہر نکلنے کا دروازہ مل جاتا ہے۔“
ابا کو یاد کر کے عنصر کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔
”فکر مت کرو عنصر! میری دعا ہے وہ جہاں بھی ہیں اللہ انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ “
ریاست بھی آبدیدہ ہو گیا۔
”آمین۔“
عنصر نے رومال سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
”میں آج رات نیلی حویلی جاﺅں گا۔ میرے وہاں جانے سے ہی ابا پر مصیبت نازل ہوئی ہے۔ امید ہے ابا کے بارے کوئی نہ کوئی کڑی بھی اُدھر سے ہی ملے گی۔“
”میں بھی چلوں گا تمہارے ساتھ۔“
ریاست نے پھر بااصرار کہا۔
”نہیں۔ تم بس میرے لیے دعا کرنا۔“
عنصر جانے کیلئے اُٹھا تو دونوں گرمجوشی سے ملے۔
وہاں سے رخصت ہو کر عنصر گھر آ کر سو گیا۔ جس مشن پر آج وہ روانہ ہونے والا تھا اس پر روانہ ہونے سے پہلے آرام کرنا ضروری تھا۔ اُسے ماسٹر حمید کی بہت یاد آ رہی تھی۔ انہیں یاد کر کے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
عنصر نے اللہ سے دعا مانگی ”وہ جہاں بھی ہیں ان کی حفاظت فرما۔“
دعائیں مانگتے مانگتے وہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔ آنکھ کھلی تو مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ عنصر مسجد گیا‘ نماز ادا کی اور اللہ سے خوب دعائیں مانگیں۔ جب فارغ ہوا تو اُس کے دِل میں عجیب سا اطمینان تھا۔ عشا کی نماز وہیں پر ادا کر کے گھر گیا۔ کھانا کھایا اور رات کا اندھیرا گہرا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ رات کا پہلا پہر ختم ہونے کو آیا تو وہ اُٹھا اور اندھیری گلی میں چل پڑا۔ عنصر کے سامنے اب ایک ایسا راستہ تھا جو بظاہر بہت پیچیدہ تھا مگر اسے اللہ کی ذات پر بھروسا تھا کہ وہ ذات اسے تنہا نہیں چھوڑے گی۔ ابا کو ڈھونڈنے کیلئے وہ ہر حد پار کرنے کو تیار تھا اور اس مقصد کو پانے کیلئے اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں تھی۔ شاید نفسیاتی طور پر اسی عزم نے اسے آج نیلی حویلی کے خوف سے آزاد کر دیا تھا۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 20 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں