’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 20

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 20
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 20

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چودھویں تاریخ کا چاند پورے جوبن پر تھا۔
عنصر کھیتوں میں چھپتا چھپاتا نیلی حویلی کے قریب پہنچا۔ نیلی حویلی کے باہر والی چوکی آج پھر خالی تھی۔ چوہدری عمردراز کا کوئی ملازم نظر نہیں آ رہا تھا۔ چلتا چلتا وہ عقبی سمت میں جا پہنچا اور شگاف سے اندر داخل ہو گیا۔ اس کے سامنے وہی کیچڑ سے آلودہ دلدلی گھاس تھی۔ وہ احتیاط سے چلتا رہا حتیٰ کہ اسی فرش پر آ گیا جہاں وہ پچھلی بار گرا تھا مگر آج اُس کے پاس گرنے کا آپشن نہیں تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اگر آج گرا تو پھر کبھی اُٹھ نہیں سکے گا۔ عقبی سمت سے ہوتا ہوا وہ حویلی کے مرکزی دروازے کے پاس آ گیا۔
نیلی حویلی میں ہر طرف گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ عنصر نے ٹارچ روشن کر کے پیپل کے درخت پر ڈالی اور یکدم آف کر دی۔ ٹارچ کی روشنی ڈالتے ہی اسے یوں محسوس ہوا جیسے درجنوں آنکھیں اسے گھور رہی ہیں۔ ان آنکھوں کی چمک سے اس نے اندازہ لگا لیا کہ درخت پر الٹا لٹکی یہ وہی منحوس چمگادڑیں ہیں جنہوں نے پچھلی بار اس پر حملہ کیا تھا۔

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 19 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
نیلی حویلی کے اندر کسی ذی روح کی حرکات و سکنات کے کوئی آثار نہیں تھے۔ نیلی حویلی کے اندر کوئی موجود ہے یا نہیں اس بات کا پتا چلانے کے لیے اسے ایک انوکھی تدبیر سوجھی۔ وہ دبے قدموں تھوڑا سا آگے بڑھا اور ایک قدرے بڑا پتھر ہاتھ میں تھام لیا، تاک کر پیپل کے درخت کا نشانہ باندھا اور اس پر دے مارا۔
اگلے ہی لمحے اسے ایسا لگا جیسے درخت جاگ اٹھا ہے کیونکہ اس کی شاخیں لہرا رہی تھیں اور فضا خوفناک چیخوں سے تھرا رہی تھی۔ سیکڑوں کی تعداد میں چمگادڑیں چنگھاڑتی ہوئی اُڑ رہی تھیں۔ عنصر نے بچاﺅ کے لیے اپنے آپ کو ایک جھاڑی کے پیچھے چھپا لیا۔ چمگادڑیں فضا میں چیختی چلاتی نیلی حویلی کے اردگرد منڈلا رہی تھیں۔ وہ ان سے بچتا بچاتا چوہدرانی نیک بخت کی قبر کے پاس پہنچ گیا۔ اسے یقین تھا کہ جارج فرنانڈس نے اپنی ڈائری میں جس خفیہ راستے کا ذکر کیا اس کا کوئی نہ کوئی سراغ ان قبروں کے نیچے بھی موجود تھے کیونکہ پچھلی بار جب وہ آیا تھا تو انہی سے روشنی پھوٹی تھی اور بدروحیں ان میں داخل ہوئی تھیں۔ اس نے قبر کے پاس جا کر اسے اچھی طرح ٹھونک بجا کر دیکھ لیا مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔پھر اسے کنویں کے تہہ میں موجود پتھر کا خیال آیا جسے دھکیل کر وہ راہداری کے ذریعے خفیہ کمرے میں گیا تھا۔ شاید یہاں بھی کوئی ایسا معاملہ ہو لیکن یہاں اسے ایسا کوئی پتھر دکھائی نہ دیا جسے دھکیل کر وہ قبر کھول سکے۔
خون آشام چمگادڑوں کی سیٹی جیسی منحوس چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھیں اور وہ اپنی کمین گاہوں کا رخ کر رہی تھیں۔ وہ وہیں بیٹھا سوچ میں گم تھا کہ اس کی محنت رنگ لے آئی۔ چمگادڑوں کی چیخیں سن کر اچانک حویلی کا اندرونی دروازہ ایک چڑچڑاہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اگلا منظر اس کے لیے خاصا حیران کن تھا۔ چوہدری عمردراز کا ایک ملازم جو باہر حفاظتی چوکی پر مامور تھا، ادھرادھر دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو تلاش کر رہا ہو۔
”ان چمگادڑوں کو کس نے چھیڑ دیا؟“
اس نے خودکلامی کی۔ جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو اس نے خود ہی کندھے اچکائے اور جیب سے سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔ عنصر چونکہ بیلوں کے اندر چھپا ہوا تھا اس لیے وہ اسے نظر نہیں آیا تھا۔ بہرحال عنصر سوچ میں پڑ گیا اگر حویلی آسیب زدہ ہے تو پھر یہ یہاں پر کیا کر رہا ہے؟ وہ شخص بلاخوف بڑے اطمینان سے کش لگا رہا تھا۔ عنصر اسے بیلوں میں سے دیکھتا رہا اور پھر اچانک بیلیں ہٹا کر باہر نکل کر اس کے سامنے آ گیا۔ عنصر کو دیکھ کر ایک لمحے کیلئے وہ ٹھٹک گیا۔
”تم....؟ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“
اس نے کرختگی سے پوچھا۔
”یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیے۔“
عنصر نے آگے بڑھتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
”جناب کی ڈیوٹی تو باہر ہے۔ “
”میں....؟“ وہ گڑبڑا گیا۔
”میں یہاں بیت الخلا جانے کیلئے آیا ہوں۔“
”ہوں ....“
عنصر نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
” بیت الخلا جانے کے لیے یقینا اس سے محفوظ جگہ پورے گاﺅں میں نہیں ہے۔ کیوں میں درست کہہ رہا ہوں ناں؟“
اُسے کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔
”تم کون ہوتے ہو مجھ سے سوال پوچھنے والے؟ میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا۔“
اس نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔
”ایک منٹ....ایک منٹ ٹھہرو بھائی۔“
عنصر نے دونوں ہاتھوں سے اسے رُکنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اتنا غصہ صحت کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ میری صرف ایک بات کا جواب دے دو۔ پھر میں خاموشی سے یہاں سے چلا جاﺅں گا۔“
”کون سی بات؟“
اس نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اسے نیچے پھینک کر مسل دیا۔
”میرے ابا کہاں ہیں؟“
عنصر نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”اچھا ! ابا سے ملنے آئے ہو ؟“
اس نے طنزیہ کہا۔
”چلو پھر تمہیں بھی تمہارے ابا کے پاس چھوڑ کر آتا ہوں۔“
اتنا کہہ کر وہ دوڑتا ہوا آیا اور عنصر سے ٹکرا گیا۔ عنصر اس کے اچانک حملے کی تاب نہ لا سکا اور نیچے گر گیا۔ ابھی وہ ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہٹے کٹے بدمعاش نے زوردار تھپڑ اس کی گال پر جڑ دیا۔ ایک لمحے کیلئے عنصر کا دماغ گھوم گیا۔ بدمعاش کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ وہ اپنے دو خطرناک داﺅ اس پر آزما چکا تھا اور اب اپنے دونوں بازو پھیلا کر اُسے پکڑنے کیلئے آگے بڑھ رہا تھا لیکن جیسے ہی وہ عنصر کے قریب پہنچا۔ عنصر پھرتی سے گھوما اور زوردار مکا اس کے منہ پر رسید کر دیا۔ مکا ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور اس کے چہرے کا نقشہ بدل گیا۔ چوہدری عمردراز کے ملازم کی ناک سے خون فوارے کی طرح اُبلنے لگا۔
”اسے کہتے ہیں سو سنار کی ایک لوہار کی۔“
عنصر منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
چوہدری عمردراز کے ملازم نے فوارے کی طرح بہتے خون کے بہاﺅ کو روکنے کیلئے اپنی ناک پکڑ رکھی تھی۔ وہ سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن عنصر نے اسے مزید مہلت نہ دی اور اس کے پیٹ پر زوردار لات ماری۔ وہ اُڑتا ہوا کچھ دور جا گرا اور درد سے کراہنے لگا۔ اس میں اب اُٹھنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔
”آج پتا چلا اماں مجھے اتنا دیسی گھی کیوں کھلاتی تھیں۔“
عنصر پھر بڑبڑایا۔
اس نے بدمعاش کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا۔
”بتاﺅ میرے ابا کہاں ہیں؟“
”میں.... “
اس نے مری مری آواز میں کہا۔ ”وہ ....“
اس کی بات ادھوری رہ گئی اور گردن ایک جانب ڈھلک گئی۔ وہ بیہوش ہوچکا تھا۔
”اُٹھو!....“
عنصر چلایا۔
”آنکھیں کھولو۔“
اس نے بدمعاش کے گال تھپتھپائے لیکن اس میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔ عنصر نے ادھر ادھر دیکھا۔ اپنے دونوں بازو اس کی کمر میں پھنسا کر اسے اٹھایا اور دھکیلتا ہوا اندر لے گیا۔ حویلی کی کھڑکیوں سے چاند کی صاف شفاف چاندنی مچل مچل کر اندر آ رہی تھی۔ اس نے پھر بھی اپنی ٹارچ روشن کی۔ حویلی کے وسیع و عریض ہال میں دائیں بائیں دو کمرے تھے۔ ہال کے وسط سے سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ عنصر اسے بائیں جانب موجود کمرے میں لے گیا۔ وہاں اسے رسی مل گئی۔ عنصر نے اسے رسی سے کس کر باندھ دیا۔ وہ ادھ موا پڑا تھا۔ عنصر اس کی مشقیں کسنے کے بعد مڑا تو ٹھٹک گیا۔ دروازے پر اس کا دوسرا ساتھی کھڑا اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔ وہ اس کے خون کے قطروں کا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آ گیا تھا۔
”تم....؟“
اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
”ہاں میں۔“
عنصر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ویسے میرا نام عنصر ہے ’تم‘ نہیں۔“
اپنے ساتھی کی حالت دیکھ کر اس کی حیرانی کو غصے میںبدلنے میں دیر نہ لگی۔
”میں سمجھا پیجو نے آج میرے بغیر ہی نیا شکار کر لیا ہے۔ تم نے اسکی یہ حالت کر دی، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“
وہ سانڈ کی طرح بھاگتا ہوا آیا۔ عنصر کے قریب پہنچ کر اس نے مکا مارنے کیلئے دایاں ہاتھ گھمایا لیکن عنصر نے جھک کر اس کا وار ناکام بنا دیا اور دونوں ہاتھ اس کی کمر کے گرد ڈال کر اسے فضا میں بلند کیا اور زمین پر پٹخ دیا۔ دھڑام کی آواز کے ساتھ اس کا فرش کے ساتھ تصادم ہوا اور وہ لیٹا لیٹا کراہنے لگا۔ عنصر گاو¿ں پورے گاو¿ں میں کبڈی کا بہترین کھلاڑی تھا اور یہی داو¿ پیچ آج اس کے کام آ رہے تھے۔ چند لمحے تک عنصر اسے دیکھتا رہا پھر اسے اٹھانے کیلئے اس کے اوپر جھکا مگر اس بار ناکام ہو گیا۔ اس نے زوردار لات عنصر کے پیٹ پر مار ڈالی اور وہ اُچھل کر کئی فٹ دور جا گرا۔ درد سے اس کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ دیوار کے سہارے اٹھا۔ درد کی وجہ سے وہ سیدھا کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔ کمبخت نے گھات لگا کر بہت ہی زوردار لات رسید کی تھی۔
”میرا نام کالا ہے کالا۔“
اس نے مکروہ انداز میں قہقہہ لگایا اور اپنا گھٹنا عنصر کے پیٹ پر مار دیا۔ اس کی چیخ پھر بلند ہوئی اور وہ درد سے دہرا ہو گیا۔
”تم نے جرات کیسے کی مجھے مارنے کی۔ میں آج تک کسی سے نہیں ہارا۔ تم کس کھیت کی مولی ہو۔“
وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔ کالا آگے بڑھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سر سے اوپر اٹھا لیا۔ عنصر نے اس کا ارادہ بھانپ لیا۔ وہ اسے دیوار پر مارنا چاہتا تھا۔
”تمہیں مارنے کے بعد سب سے پہلے میں تمہارے بازو کاٹوں گا جن سے تم نے مجھے زمین پر پٹخا پھر تمہارا سر۔ کل جب لوگ پیپل پر تمہاری لاش لٹکی دیکھیں گے تو پھر کوئی ادھر آنے کی جرات نہیں کرے گا۔ “
اس نے چیختے ہوئے کہا۔
یقینی موت سامنے دیکھ کر عنصر زور سے پھڑپھڑایا۔ اس کے ہلنے کی وجہ سے کالے کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ نتیجتاً اس نے عنصر کو چھوڑ دیا۔ زمین پر پاﺅں لگتے ہی عنصر کمرے سے باہر بھاگا۔ کالا بھی زخمی سانڈ کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ ہال میں جا کر عنصر پلٹ کر رک گیا۔ اسے کھڑا دیکھ کر کالا بھی رک گیا۔ عنصر اس کے متوقع وار کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا عنصر کی طرف آیا لیکن وہ ایک جانب ہٹ گیا۔ کالا کافی بھاری بھرکم تھا اس لیے دوڑتا ہوا اس سے کچھ قدم آگے جا کر رک دیا۔ اس نے غضبناک نظروں سے عنصر کو گھورا اور دوبارہ بھاگتا ہوا آیا۔ عنصر پھر اس کے راستے سے کسی بل فائٹر کی طرح پیچھے ہٹ گیا۔ وار خالی جانے پر کالا پھر تیزی سے آگے نکل گیا مگر اس بار توازن برقرار نہ رکھ سکا اور منہ کے بل نیچے جا گرا۔
عنصر نے موقع غنیمت جانا اور اس کے سر پر پہنچ گیا۔ کالا بمشکل اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ عنصر نے پوری قوت سے لات اس کے پیٹ پر جڑ دی۔ اب کی بار اس نے زوردار چیخ ماری اور کمر کے بل جا گرا۔ کالا زمین پر پڑا تکلیف سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ عنصر نے اس کی گردن اپنے بازو میں شکنجے کی طرح دبا لی اور زور لگانا شروع کر دیا۔ جوں جوں وہ اپنی گرفت سخت کرتا گیا توں توں کالا اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ وہ بالکل ساکت ہو گیا۔ وہ بیہوش ہو چکا تھا۔ عنصر نے اسے چھوڑا تو وہ فرش پر بے سدھ گر پڑا۔ عنصر اس کے پاس ہی دراز ہو گیا۔ گتھم گتھا ہونے سے اس کی سانس پھول رہی تھی۔ طبیعت بحال ہوتے ہی وہ اسے بھی گھسیٹ کر اسی کمرے میں لے گیا جہاں اس کا پہلا ساتھی بدستور بیہوش پڑا تھا۔ عنصر نے اسے بھی رسی سے اچھی طرح باندھ دیا اور باہر آ گیا۔
”سانڈ کی اولاد مجھے مارنے چلا تھا۔“
اس نے دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
”اس کا مطلب ہے اس گھناﺅنے کھیل کے پیچھے سچ مچ چوہدری عمردراز کا ہاتھ ہے۔“
اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
کالے کے اعتراف کے بعد یہ بات پوشیدہ نہیں رہی تھی کہ یہ دونوں ہی نیلی حویلی کے اندر آنے والوں کو بیدردی سے مار کر پیپل کے درخت پر لٹکایا کرتے تھے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ بدروحوں کا کام ہے۔ آج دونوں بدروحیں ادھ موئی اس کے سامنے بیہوش پڑی تھیں۔ معاً اسے خیال آیا اگر یہ لوگ گاﺅں والوں کو ڈرایا کرتے تھے تو جس لڑکی کی چیخیں عمردین نے سنی تھیں وہ کون تھی ؟ گھنگھرﺅں والی چڑیل کون ہے جسے اس نے دیکھا تھا ؟ اور پھر قبر سے نکلنے والی پراسرار روشنی ؟ ان باتوں کے ذہن میں آتے ہی وہ پھر اچنبھے میں پڑ گیا۔(جاری ہے)

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 21 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں