’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 21
اگرچہ عنصر اب تک ماسٹر حمید کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا مگر چوہدری عمردراز کے بدمعاشوں کا راز اس کے سامنے کھل چکا تھا۔ اس لیے اب وہ خود کو خاصا پراعتماد محسوس کر رہا تھا۔ اس نے نیلی حویلی کے ہال کا بغور جائزہ لینا شروع کر دیا۔ بایاں کمرہ اس نے دیکھ لیا تھا جس میں چوہدری عمردراز کے بدمعاش بیہوش پڑے تھے۔ وہ دائیں کمرے میں داخل ہوا۔ وہ کمرہ بالکل خالی تھا۔ واپس ہال میں آیا تو وہاں گرد سے اٹے ایک دو صوفوں کے علاوہ کچھ نہیں رکھا تھا۔ ایک طرف بڑی سی کرسی پڑی تھی۔ اس کے علاوہ پورا ہال خالی تھا۔
سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے کے علاوہ عنصر کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ ایک ایک کر کے بل دار سیڑھی کے تمام زینے چڑھ کر اوپر پہنچ گیا۔ اس کے چاروں طرف گولائی میں کمرے تھے اور راستہ گھوم کر سیڑھیوں پر ہی ختم ہو رہا تھا۔ وہ دائیں جانب جاتا یا بائیں جانب گھوم کر اسی مقام پر واپس آتا جہاں وہ کھڑا تھا۔ ٹارچ اس کے پاس تھی۔ اس نے اللہ کا نام لیکر دائیں طرف چلنا شروع کیا۔ پہلا دروازہ کھول کر دیکھا تو وہاں فالتو سامان کا ڈھیر لگا تھا جو شاید کسی زمانے میں سٹور روم تھا۔ اس سے ملحق دوسرے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہاں ایک ٹوٹے ہوئے پلنگ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھتا گیا۔ تمام کمروں میں مشترک بات یہ تھی کہ وہ گرد سے اٹے ہوئے تھے اور مکڑیوں نے موقع غنیمت جان کر جگہ جگہ جال بُن لیے تھے۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 20 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
عنصر چلتا چلتا درمیانی کمرے کے سامنے آ گیا۔ دروازہ کھول کر بے دھیانی میں دوچار قدم ہی اندر گیا تھا کہ نہایت تیز بدبو نے اس کا استقبال کیا۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھا اور واپس جانے کیلئے مڑا تو اس کا کندھا راستے میں ترچھی کھڑی الماری سے ٹکرا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ڈھیر ساری مٹی اور گرد اس پر آ گری۔ کراہت کا احساس ہوتے ہی وہ تیزی سے باہر کی جانب بھاگا۔ کمرے سے نکل کر اس نے دروازے کے دونوں پٹ کھول دیے تاکہ بو کی شدت میں کمی ہو سکے۔ کمرہ نجانے کتنی دیر سے مقفل تھا۔ اچھی خاصی گرد اس پر گری تھی۔ اس نے کھانستے ہوئے اپنے آپ کو جھاڑا۔ دروازہ کھولنے کا اسے خاطرخواہ فائدہ ہوا اور بُو کی شدت میں خاصی کمی آ گئی۔ عنصر منہ پر رومال رکھ کر دوبارہ اندر داخل ہوا۔ بناوٹ کے لحاظ سے کمرہ کافی شاہانہ معلوم ہو رہا تھا۔ دوسرے کمروں کی نسبت یہ کافی بڑا تھا۔ اچانک اس کی نظر دیوار کے ساتھ بچھے پلنگ پر پڑی۔
وہ پلنگ کے قریب گیا تو اسے اپنا سانس رُکتا ہوا محسوس ہوا۔ بدبو کا محور وہی پلنگ تھا کیونکہ وہاں ایک ڈھانچہ پڑا تھا۔ ایک انسانی ڈھانچہ جو پلنگ پر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ ڈھانچے کا سر تکیے پر ہونے کی وجہ سے کچھ اُوپر تھا جو ایک جانب ڈھلکا ہوا تھا۔ اس کے گلے میں سونے کا ہار چمک رہا تھا۔ ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے۔ کمرے کی بناوٹ‘ سازوسامان اور لاش کا حلیہ بتا رہا تھا اس کا نیلی حویلی سے گہرا تعلق رہا ہے۔
عنصر کے لیے نیلی حویلی بہت سی پہیلیوں کا مجموعہ بن چکی تھی۔ یہ ڈھانچہ کس کا ہو سکتا ہے ؟ یہ سوچ کر اس کا سر چکرانے لگا۔ حویلی میں ایک انسانی ڈھانچے کی موجودگی نے اسے کسی قدر خوف میں مبتلا کیا مگر جلد ہی اس نے اپنی اس کیفیت پر قابو پا لیا۔ اس نے بغور ڈھانچے کا معائنہ کیا۔ پلنگ پر پڑا پڑا وہ ایک حنوط شدہ لاش کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ ڈھانچے کو وہیں چھوڑ کر وہ کمرہ بند کر کے باہر نکلا۔ اس کو ابھی تک پوری حویلی میں ماسٹر حمید کی موجودگی کے کوئی آثار ملے تھے نہ سراغ۔ کتنی دیر گہری سانسیں لینے کے بعد اس نے حویلی کے تمام کمرے دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ عنصر باقی ماندہ کمروں میں بھی گیا مگر وہ خالی تھے۔
صرف آخری کمرہ رہ گیا جہاں پر جانا باقی تھا۔ بالآخر آخری کمرہ آ گیا۔ عنصر اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہوا تو ششدر رہ گیا۔ کونے میں پیلے کپڑوں میں ملبوس ایک لڑکی بیہوش پڑی تھی۔ لڑکی داہنی کروٹ لیٹی تھی اور اس کی پشت چونکہ دروازے کی جانب تھی اس لیے عنصر کو اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا اس کے قریب پہنچا اور کندھے سے پکڑ کر اسے سیدھا کیا۔ لڑکی نے پیلے رنگ کا گوٹی دار لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس کے دراز بال فرش پر بکھرے ہوئے تھے۔ روشن پیشانی، نوک دار بھنویں، پتلا ناک، گلابی ہونٹ، صراحی دار گردن غرض وہ بے حد خوبصورت تھی۔
اس نے لڑکی کی نبض دیکھی۔ وہ زندہ مگر بیہوش تھی۔ عنصر نے اسے آوازیں دیں لیکن اُس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ اس کے منہ سے خون کی لکیر نکل کر گال پر جم گئی تھی۔ چہرے پر زخموں کے تازہ نشان تھے جیسے کسی نے اس کو پیٹا ہو۔ عنصر تیزی سے نیچے آیا۔ باہر اسے مٹی کا ایک پیالہ مل گیا۔ اس نے اسے پانی سے بھرا اور سیدھا اسی کمرے میں وارد ہوا جہاں وہ لڑکی بیہوش پڑی تھی۔ اس نے لڑکی کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ پہلی بار اس کے چہرے پر جنبش ہوئی۔
دو تین بار چھینٹے مارنے پر لڑکی نے ہلکی سی کھانسی کی اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں لیکن عنصر پر نظر پڑتے ہی اس نے چیخیں مارنی شروع کر دیں۔ سنسان حویلی میں چیخوں کی آواز گونجی تو ایک لمحے کے لیے تو عنصر کے پیروں تلے سے زمین ہی کھسک گئی مگر اس نے اپنے حواس پر قابو پایا اور اسے چپ ہونے کیلئے کہا۔ لڑکی مسلسل چیخیں مار رہی تھی۔ عنصر کو اور تو کچھ نہ سوجھا اس نے لڑکی کو کندھوں سے پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا اور کہا کہ وہ چپ ہو جائے۔ بالآخر وہ چپ ہو گئی مگر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر ڈرے ڈرے انداز میں اس کی طرف غور سے دیکھنے لگی۔
”ڈرو نہیں مجھ سے۔ میں کوئی بھوت نہیں ہوں۔“
عنصر نے منہ بنا کر کہا۔
”مم .... مگر تم بھوت کی طرح دکھائی دے رہے ہو۔“
وہ ہکلا ہکلا کر بولی۔
”اللہ معاف کرے۔ چند گھنٹے پہلے تک تو میں انسان تھا۔“
اس نے گھبرا کر اپنے آپ کو ٹٹولتے ہوئے کہا۔ اسے شک ہونے لگا نیلی حویلی میں آ کر کہیں وہ سچ مچ بھوت تو نہیں بن گیا۔
”میرا یقین کرو میں واقعی بھوت نہیں ہوں۔“
عنصر نے پریقین لہجے میں کہا۔
”میں ماسٹر حمید کا بیٹا ہوں۔ یہاں اپنے ابا کو ڈھونڈنے آیا تھا۔ اس کمرے میں دیکھا تو آپ مل گئی۔ بس خاکسار نے آپ کو ہوش میں لانے کی غلطی کی ہے۔“
اس نے منہ بسوڑتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے لیکن آپ کا حلیہ ایسا ہے کہ میں ڈر گئی۔“
اس نے آہستگی سے کہا۔
عنصر نے اس کی بات پر دھیان نہ دیا۔ اسے یاد آیا اس نے ابھی تک اس سے یہ پوچھا ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہے اور یہاں پر کیا کر رہی ہے۔
”برا نہ مانیں تو آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں۔“
عنصر نے نرمی سے پوچھا۔
”میرا نام پروین ہے۔“
اس نے بڑی بڑی پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔
”اور میں فرمان علی کی بیٹی ہوں۔“
”کیا....؟“
عنصر کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
”مگر تم یہاں پر کیا کر رہی ہو؟“
”میں نہیں جانتی یہ کونسی جگہ ہے۔ میں گلی کی آخری نکڑ پر واقع سہیلی کے گھر جا رہی تھی۔ اچانک کوئی میرے سامنے اور مجھے کچھ سنگھایا۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا اور پھر خود کو ایک تہہ خانے میں پایا۔“
پروین نے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”تہہ خانہ ....؟ کون سا تہہ خانہ؟“
عنصر نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔
پروین نے لب ہلائے ہی تھے کہ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ عنصر نے منہ پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ چونکہ یہ کمرہ سیڑھیوں کے بائیں جانب سرے پر واقع تھا اس لیے اوپر چڑھنے کی آواز واضح سنائی دے رہی تھی۔ نووارد نے ادھرادھر دیکھا تو اسے کمرے کا ادھ کھلا دروازہ نظر آیا۔ عنصر اور پروین دروازے پر ہی نظریں گاڑے ہوئے تھے۔ اچانک ایک دھماکے سے دروازہ کھل گیا۔ نووارد نے دروازے کو بڑی بے رحمی سے لات رسید کی تھی۔ وہ چوہدری عمردرا ز کا ہی آدمی تھا اور بڑے غضب ناک موڈ میں لگ رہا تھا۔ نیچے وہ اپنے دونوں ساتھیوں کی حالت دیکھ کر عنصر کو ڈھونڈتا ہوا اوپر آیا تھا۔
دانت کچکچاتے ہوئے وہ دونوں کی جانب بڑھا تو عنصر نے پروین کو پرے ہٹا دیا۔ اس نے عنصر کے قریب آ کر پوری طاقت سے مکا گھمایا۔ عنصر ذرا سا پرے ہٹا تو اس کا مکا دیوار کو جا لگا۔ ہلکی سی لڑکھڑاہٹ سے وہ پیچھے ہٹا تو عنصر نے اس کے سر پر کہنی مار دی۔ وہ تھوڑا اور لڑکھڑا کر پیچھے ہٹ گیا۔ پہلے بدمعاشوں کی طرح یہ بھی کافی ہٹاکٹا تھااس لیے عنصر کی ضرب کا اس پر زیادہ اثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے قہرآلود نظروں سے عنصر کو دیکھا۔ دوڑتا ہوا آیا اور عنصر سے ٹکرا گیا۔ عنصر کو جھٹکا لگا اور وہ دیوار سے جا ٹکرایا۔ دیوار میں ٹکرانے کی وجہ سے وہ چکرا گیا۔ ابھی وہ سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے عنصر کا بازو پکڑ کر گھمایا اور پوری قوت سے دروازے کی جانب ایسے پھینکا جیسے نیزہ باز نیزے کو پھینکتے ہیں۔ عنصر اپنا توازن کھو چکا تھا۔
وہ بے توازن سیدھا دروازے سے باہر جالیوں سے دھڑام سے ٹکرایا۔ جالیاں چونکہ کافی مضبوط تھیں اس لیے وہ بچ گیا ورنہ نیچے ہال میں جا گرتا۔ وہ بدمعاش زخمی سانڈ کی طرح ناک سے پھوں پھوں کی آوازیں نکالتا عنصر کی جانب بڑھا۔ جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچا عنصر مضبوطی سے اس کیساتھ چمٹ گیا۔ اس نے خود کو عنصر کی گرفت سے چھڑانے کی بھرپور کوشش کی مگر عنصر نے اسے سختی سے دبوچ لیا اور پوری طاقت سے اسے پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ عنصر پوری قوت سے زور لگا کر اسے دھکیلتا رہا۔ حتیٰ کہ سیڑھیاں آ گئیں۔ دونوں کا توازن بگڑا اور سیڑھیوں پر جا گرے۔ دونوں سیڑھیاں لڑھکتے ہوئے ہال کے فرش پر جا پہنچے۔ فرش پر گرتے ہی عنصر کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ اس نے دونوں با زو پھیلا کر جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اس کے کچھ ہی فاصلے پر چوہدری عمردراز کا آدمی پڑا تھا۔ اوپر سے گرنے کی وجہ سے اس کی حالت بھی خراب تھی۔ کچھ لمحوں بعد گرتے پڑتے وہ ہمت کر کے اٹھا اور عنصر کے اوپر آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے عنصر کے منہ پر مکا مارنے کیلئے ہاتھ بلند کر لیا۔ عنصر نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس میں مزاحمت کیلئے مزید سکت باقی نہیں رہی تھی۔
اچانک تڑاخ کی زوردار آواز آئی۔ عنصر نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔ ہٹے کٹے بدمعاش کی دونوں آنکھوں ایسے کھلی ہوئی تھیں جیسے دونوں ڈیلے ابھی باہر آ گریں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ایک جانب گرتا چلا گیا۔ جیسے جیسے وہ ہٹتا گیا اسے پروین کا سراپا نظر آتا گیا جس نے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے ڈنڈا پکڑ رکھا تھا۔
کمرہ زیادہ بڑا نہیں تھا مگر روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ ماسٹرحمید فرش پر غنودگی کی حالت میں اوندھے منہ پڑے تھے۔ آج ان کی گمشدگی کا دوسرا روز تھا اور ان کی حالت دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے انہیں کھانے کیلئے کچھ نہیں دیا گیا۔ ہوش میں آتے ہی وہ تھوڑا سا کسمسائے لیکن جلد ہی انہیں اپنی یہ کوشش بے سود معلوم ہوئی۔ انہیں رسیوں سے مضبوطی سے باندھا گیا تھا۔ کرسی پر بیٹھا آدمی اُن کے جسم میں جنبش دیکھ کر پاس آیا اور اُن کے منہ پر پانی پھینک دیا۔
ماسٹر حمید نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔ ان کی آنکھیں بہت بوجھل ہو رہی تھیں۔ آدمی نے انہیں پکڑ کر بٹھا دیا۔
”ماسٹر جی ! ہوش آ گیا۔ میری مہمان نوازی میں کوئی کمی تو نہیں آئی۔“
وہ آدمی زہریلے انداز میں مسکرایا۔
ماسٹر حمید نے بمشکل سر اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
”تم .... تم دنیا کے کمینے ترین انسان ہو عمردراز۔“
”ہاہاہاہاہا۔“
اُس نے بلند شگاف قہقہہ لگایا۔
”اِتنا بھی کمینہ نہیں ہوں ماسٹر جی۔ آپ نے ابھی تک مجھے پہچانا ہی کہاں ہے۔ گاﺅں والوں سے جا کر پوچھو میں کتنا نیک ہوں۔“
”تمہارے پاس اب بھی وقت ہے عمر دراز۔ اپنے جرموں سے توبہ کر کے خود کو قانون کے حوالے کر دو۔ شاید تمہاری شیطانیوں کا کچھ کفارہ ادا ہو جائے۔“
ماسٹرحمید بولے۔
چوہدری عمردراز نے پھر زوردار قہقہہ لگایا۔
”پورے گاﺅں پر میرا حکم چلتا ہے ماسٹرجی۔ یہ سلطنت میں نے دن رات محنت کر کے بنائی ہے اور آپ کہتے ہیں توبہ کر کے سب مٹی میں ملا دوں۔“
”تمہاری ہوشیاری تمہیں بچاتی آئی ہے عمردراز مگر بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔“
ماسٹرحمید نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
”بکرے کو چھوڑو اپنا انجام سوچو ماسٹرجی۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔“
چوہدری عمردراز نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”جو ایک بار میری پکڑ میں آ جاتا ہے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا۔ تمہیں پتا ہے میں بندے کو مارنے کے بعد کیا کرتا ہوں؟“
ماسٹرحمید کو خاموش دیکھ کر وہ خود ہی بول اٹھا۔
”میں ان کے اپنے ہاتھوں سے ٹکڑے کرتا ہوں اور پھر درخت پر لٹکا دیتا ہوں تاکہ لوگ نیلی حویلی کا نام سن کر ہی کانپتے رہیں۔ اس سے میں گاﺅں کی آدھی سے زیادہ زرخیز زمین کا مالک بن گیا ہوں۔ لوگ مجھے اپنی زمینیں بخوشی بیچ دیتے ہیں۔ تم نہیں جانتے اب میں کتنی دولت کا مالک بن گیا ہوں۔ میں نے لوگوں کو ڈرا کر لُوٹا اور تھوڑی سی مدد کر کے انہی کے دل جیت لیے تاکہ کسی کو مجھ پر شک بھی نہ ہو۔ ہاہاہاہاہا۔“
وہ بلند آہنگ قہقہے لگا رہا تھا۔
ماسٹر حمید کا دل غم میں ڈوب گیا۔ اُن کے لیے یہ بہت بڑا انکشاف تھا۔ گاﺅں میں گھناﺅنی وارداتیں کرنے والا شیطان آج اُن کے سامنے تھا مگر وہ بہت بے بس تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ آج انہیں یقین ہو گیا کہ چوہدرانی نیک بخت کا قاتل بھی یہی ہے۔
”بچوں کی گمشدگی میں بھی تمہارا ہی ہاتھ ہے؟“
ماسٹرحمید نے کانپتی آواز سے پوچھا۔
”جی ماسٹر جی۔ انہیں انسانی سمگلروں کو بیچ دیتا ہوں۔ اس کام میں تو زمینوں سے بھی اچھی کمائی ہو جاتی ہے۔ زمینوں سے تو فصلیں کٹنے کے بعد پیسے ملتے ہیں مگر یہاں تو راتوں رات جیب بھر جاتی ہے۔ منہ مانگے دام ملتے ہیں ماسٹر جی۔ ہا ہا ہا ہا۔“
وہ مکروہ انداز میں قہقہے لگا رہا تھا۔
”آخ تُھو۔“
ماسٹر حسین نے نفرت سے چوہدری عمردراز کے منہ پر تھوک دیا۔
”تمہارے ظلموں کی رات ختم ہونے والی ہے شیطان۔“
چوہدری عمردراز کو ماسٹر حمید سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ اس کے دو ملازم پاس کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ چوہدری عمردراز کو اپنی توہین محسوس ہوئی۔ اس سے نہ رہا گیا تو آگے بڑھ کر ماسٹر حمیدکے پیٹ پر غصے سے لات مار دی۔ ماسٹر حمید کی چیخ نکلی اور وہ درد سے دہرے ہو گئے۔ چوہدری عمردراز نے ماسٹر حمید کو سر کے بالوں سے پکڑا اور زور سے زمین پر دے مارا۔ اُن کی چیخ بلند ہوئی اور کچے فرش پر خون پھیلنے لگا۔ چوہدری عمردراز نے ایک اور لات ماری مگر اس بار ان کی چیخ نہیں نکلی۔ وہ بالکل بے حس و حرکت پڑے تھے۔
چوہدری عمر دراز نے ماسٹر حمید کو گریبان سے پکڑ کر اُوپر اٹھایا۔
”دیکھو مجھے غور سے۔ کون ہوں میں۔ پورا گاﺅں مجھ سے ڈرتا ہے۔ تمہیں مجھ سے ڈر کیوں نہیں لگتا۔“
چوہدری عمردراز نے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے ماسٹرحمید کے جسم کو جھنجھوڑا۔
”چوہدری صاحب لگتا ہے یہ مر چکا ہے۔“
ایک ملازم نے کہا۔
اُس نے ماسٹر حمید کو چھوڑ دیا۔ ان کے سر سے بدستور خون بہہ رہا تھا۔
”چوہدری عمردراز سے ٹکرانے کا انجام یہی ہوتا ہے۔ صبح ہونے سے پہلے اِس کے ٹکڑے کر کے پیپل کے درخت پر لٹکا دینا۔ گاﺅں والوں کو ایک اور تحفہ دینے کا وقت آ گیا ہے۔“
”جی چوہدری صاحب۔“
چوہدری عمردراز کی بات سن کر دونوں ملازموں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”یہ پیجو‘ کالا اور اچھو کیوں نظر نہیں آ رہے۔ کہاں مر گئے ہیں یہ تینوں؟“
چوہدری عمردراز نے غصے سے پوچھا۔
”چوہدری صاحب وہ نیلی حویلی کی طرف گئے ہیں۔ میں اُنہیں دیکھ کر آتا ہوں۔“
ایک ملازم جانے کیلئے مڑا۔
”اوئے ماکھے انہیں دیکھنے بعد میں جانا۔ پہلے تم دونوں مجھے آ کر دباﺅ۔ صبح گاﺅں والے ماسٹرجی کی لاش دیکھ کر دوڑے دوڑے میرے پاس ہی آئیں گے۔ اس سے پہلے کچھ دیر آنکھ لگا لیتا ہوں اور اس لڑکی کو بھی صبح ہونے سے پہلے پارٹی کے حوالے کرنا ہے۔ بہت دنوں سے ہماری مہمان بنی بیٹھی ہے۔“
چوہدری عمردراز کی ہدایات سن کر دونوں نے ایک بار پھر مودبانہ انداز میں سر ہلایا اور چوہدری عمردراز کے پیچھے پیچھے زینے پر چڑھنے لگے۔ زینے ایک جگہ پر جا کر ختم ہو گئے۔ ایک ملازم آگے بڑھا اور بڑی احتیاط سے چھت پر ہاتھ رکھ کر اوپر کی جانب دباو¿ ڈالا تو اس کا ایک حصہ بلند ہوتا چلا گیا۔ اُس نے بڑی احتیاط سے چھت کے ٹکڑے کو ایک طرف رکھا۔ آخری زینہ پار کر کے تینوں اگلے ہی لمحے چوہدری عمردراز کے کمرے میں موجود تھے۔
چوہدری عمردراز نے اپنی حویلی کے نیچے زیرزمین تہہ خانہ بنا رکھا تھا۔ تہہ خانے سے ہوتی ہوئی ایک سرنگ سیدھی نیلی حویلی چلی جاتی تھی جہاں پر دور قدیم کا ایک اور خفیہ تہہ خانہ تھا۔ وہاں سے ایک سرنگ کھیتوں کے نیچے سے ہوتی ہوئی گاﺅں سے باہر نکل جاتی تھی۔ چوہدری عمردراز نے نیلی حویلی کے تہہ خانے سے باہر جانے کے لیے اپنی بیوی اور ماں کی برائے نام قبریں بنا رکھی تھیں جو درحقیقت اس کے لیے اور اس کے چیلوں کے لیے گزرگاہ کا کام دیتی تھیں۔ وہ اور اس کے چیلے نیلی حویلی کے تہہ خانے میں ہی اپنے تمام برے دھندے چلاتے تھے۔ سرنگ کے دوسرے راستے سے بچوں اور منشیات کی سمگلنگ کا کام کیا جاتا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چوہدری عمردراز کی نیلی حویلی کے نیچے تہہ خانے میں اتنا گھناﺅنا کھیل کھیل رہا تھا۔
دونوں ملازم چوہدری عمردراز کے پاﺅں دابنے لگے تو اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ کمرہ اس کے خراٹوں سے گونجنے لگا۔ دونوں نے اسے دابنا چھوڑ دیا۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ چوہدری عمردراز گہری نیند سو چکا ہے تو دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔
”اوئے گلو! تو اوپر سے کھیتوں سے ہوتا جا اور لڑکی کو نیلی حویلی سے لے کر نیچے سرنگ میں آ جا اور ہاں اُن تینوں حرامیوں کو بھی بلا لا۔ اتنی دیر ہو گئی ہے واپس نہیں آئے۔ لڑکی کو صبح ہونے سے پہلے پارٹی کے حوالے کرنا ہے اور ماسٹر جی کا کام بھی تمام کرنا ہے۔ بہت کام پڑا ہے ابھی۔“
ماکھے نے تحکمانہ انداز میں کہا تو گلو نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر نکل گیا۔ ماکھے نے ایک نظر چوہدری عمردراز پر ڈالی جو زور زور سے خراٹے مار رہا تھا اور دروازہ کھول کر ساتھ والے کمرے میں چلا گیا۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 22 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں