’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 10
تھانیدار احسان اللہ اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔
اس کی میز پر ایک جانب مختلف فائلوں کا ڈھیر لگا تھا اور دوسری جانب اخبارات کا پلندہ پڑا تھا۔ کھلی فائلیں اور اخبارات کے بکھرے صفحات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے تک وہ ان کے مطالعے میں غرق تھا۔ کمرے میں چکر کاٹتے کاٹتے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ رک کر اچٹتی نظر میز پر ڈالتا اور پھر ٹہلنا شروع ہو جاتا۔ تمام اخبارات روشن نگر میں وارث اور اکرم کی ہولناک موت کی خبروں اور اس کی حدود میں آنے والے دوسرے دیہاتوں میں ہونے والی پراسرار وارداتوں سے بھرے پڑے تھے جسے لے کر اس کے دل میں بہت سے وسوسے پل رہے تھے۔ حکومت اور اس کے اپنے محکمے کی جانب سے اس پر بے پناہ دبائو تھا لیکن اسے ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اس کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے ہیں اور وہ بس تماشا دیکھ سکتا ہے۔ عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 9 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
روشن نگر تھانے میں اس کی تعیناتی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ جب سے وہ یہاں آیا تھا اس نے سکھ کا سانس نہیں لیا تھا۔ اس علاقے کے زیادہ تر افراد روزگار کے سلسلے میں بیرون ممالک مقیم تھے اس لیے مالی لحاظ سے خوشحالی تھی۔ گائوں پھیلتے پھیلتے اب قصبے کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہاں لوٹ مار کے واقعات بھی عام تھے۔ منشیات فروشی کا دھندہ بھی عروج پر تھا۔ روشن نگر اور اس کے نواحی علاقوں میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں بھی تسلسل سے جاری تھیں۔ اور رہی سہی کسر تو اکرم اور وارث کے قتل نے نکال دی تھی۔ نیلی حویلی کا خوف الگ سے کسی بلیک ہول کی طرح لوگوں کو اپنے دامن میں نگلنے میں مصروف تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے گائوں کے باسی ایک عجیب سے عذاب میں مبتلا ہیں۔
تھانیدار احسان اللہ تھانے کی حدود میں ماضی میں رونما ہوئے جرائم کی وارداتوں کی فائلیں اس لیے پڑھ رہا تھا تاکہ اصل صورتحال کو سمجھنے میں آسانی رہے لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ اس سے پہلے اس تھانے میں تعینات سٹیشن انچارج نے کسی بھی کیس کے حل میں دلچسپی نہیں لی تھی اس لیے تمام فائلیں ادھوری تھیں۔ یہاں آ کر اسے جن سنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑا تھا ان میں قتل، بچوں کا اغوا، انسانی سمگلنگ، لوٹ مار اور منشیات فروشی شامل تھے۔
اس نے یہاں انتظام سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام یہی کیا تھا کہ پتا چلائے اس علاقے میں کوئی جرائم پیشہ گروہ تو کام نہیں کر رہا لیکن روشن نگر اور اردگرد کے دیہات میں کسی جرائم پیشہ گروہ کی موجودگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ہاں البتہ کبھی کبھار معمولی جرائم میں ملوث افراد پکڑے جاتے تھے لیکن کبھی کسی بڑی واردات میں ملوث کوئی سماج دشمن شخص ہتھے نہیں چڑھا تھا۔ اس لیے یہ صورتحال اس کے لیے گلے میں پھانس کی سی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ بہرحال اسے اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ وارداتیں کسی اکیلے شخص کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کسی بڑے اور انتہائی منظم مافیا کا ہاتھ تھا۔ لیکن کون؟ اسی بات نے تھانیدار احسان اللہ کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ بظاہر علاقے میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس پر وہ شک کر سکے۔
تھانیدار احسان اللہ کمرے میں مٹرگشت کے بعد تھک ہار کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سوچوں اور فکروں کے بوجھ نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ اکرم اور وارث کے واقعے کو چار روز گزر چکے تھے۔ اس نے فون پر ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کی ہدایت کی اور روشن پور کا رخ کر لیا۔ چونکہ ساون کا مہینہ تھا اس لیے آسمان پر چھائے بادلوں نے سورج کی تمازت کم کر دی تھی اور وہ ان سے آنکھ مچولی سے تھک ہار کر قبل از وقت ہی ڈوبنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ سارے راستے وہ سوچوں میں گم رہا۔ گائوں میں داخل ہونے سے پہلے اس نے دیکھا چوہدری عمردراز کی حویلی پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ اس نے ڈرائیور کو گاڑی ایک طرف روکنے کا اشارہ کیا اور حویلی کے اندر چلا گیا۔
چوہدری عمردراز لکڑی کی بڑی سی کرسی پر صحن میں بیٹھا تھا۔ اس کے پاس تھیلوں میں بند غلے اور اشیائے خورونوش کا ڈھیر لگا تھا۔ قطار میں کھڑے افراد باری باری اس کے پاس جاتے۔ ملازم چوہدری عمردراز کو تھیلے پکڑاتے جاتے اور وہ انہیں لوگوں میں بانٹتا جاتا۔ جو زیادہ مستحق ہوتا چوہدری عمردراز اسے خاکی لفافوں میں بند رقم بھی پیش کرتا۔ وہ ہر مہینے کی آخری تاریخ کو اسی طرح صدقہ خیرات کرکے گائوں والوں کی مدد کرتا تھا۔ اسی لیے وہ پورے گائوں میں سخی دل مشہور تھا۔ مجبور لوگ اپنی مالی مشکلات میں جب بھی اس کے پاس آتے وہ انہیں خالی ہاتھ نہ لوٹاتا۔ چوہدری عمردراز نے تھانیدار احسان اللہ کو اندر آتے دیکھا تو کرسی سے اٹھ کر اس کا استقبال کیا۔ ایک ملازم نے چوہدری عمردراز کے برابر ہی اس کی کرسی بچھا دی۔
”جی انسپکٹر صاحب! کیسے آنا ہوا؟“
تمام لوگوں کے چلے جانے کے بعد چوہدری عمردراز نے مسکرا کر تھانیدار احسان اللہ سے پوچھا۔
”بس جی چوہدری صاحب! ادھر سے گزر رہا تھا۔ سوچا آپ کو سلام کرتا چلوں۔“
تھانیدار احسان اللہ نے بھی جواباً مسکرا کا جواب دیا۔
”او جی۔ یہ آپ کا ہی گھر ہے انسپکٹر صاحب۔ دن آئیں رات آئیں۔ ہمارے دروازے تو سب کے لیے کھلے رہتے ہیں۔“
چوہدری عمردراز بولا۔
”جی شکریہ! چوہدری صاحب۔ یہ آپ کا بڑاپن ہے۔“
تھانیدار احسان اللہ نے کہا۔
اتنی دیر میں ملازم دو پیالیوں میں چائے ڈال لایا اور ان کے سامنے پڑے میز پر رکھ دی۔
”بڑے پن کی کیا بات ہے انسپکٹر جی۔ بس لوگوں کی خدمت کر کے اور ان کے کام آ کر دل کو سکون ملتا ہے۔“
چوہدری عمردراز نے خوشدلی سے کہا۔
”باتیں تو ہوتی رہیں گی انسپکٹر صاحب۔ آپ چائے پیئں۔ “
انسپکٹر احسان اللہ نے اپنے آگے رکھی چائے کی پیالی اٹھائی اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے کر پینے لگا۔
”چوہدری صاحب! آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔“
”جی جی۔ جو مرضی پوچھیں انسپکٹر صاحب۔“
”بات سیدھی سی ہے چوہدری صاحب۔ گائوں کے حالات نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ سمجھ نہیں آتی یہاں کے حالات خراب کرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔“
”تو آپ کو کس نے کہا تھا اس گائوں کا تھانہ سنبھالنے کو۔“
چوہدری عمردراز نے چائے کی پیالی سے بالائی نکال کر پھینکتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟“ تھانیدار احسان اللہ نے چونک کو پوچھا۔
”مطبل یہ کہ.... جب آپ نے ہی پریشان ہو جانا ہے تو ہمارا اور گائوں والوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔“
چوہدری عمردراز نے ہنستے ہوئے کہا تو اس کے ملازم بھی مسکرانے لگے۔
تھانیدار احسان اللہ کو اپنی بات پر شرمندگی محسوس ہونے لگی۔
”وہ .... میرا کہنے کا مطلب تھا.... میں ابھی تھانے میں نیا نیا آیا ہوں۔ گائوں کے حالات کو میں اتنی اچھی طرح نہیں سمجھتا جتنا کہ آپ سمجھتے ہیں۔“
تھانیدار احسان اللہ نے رک رک کر اپنی بات مکمل کی۔
”ہاں جی یہ بات تو ہے۔ “
چوہدری عمردراز نے چائے کا بڑا سا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
”کیا گاو¿ں میں ہونے والی وارداتوں پر آپ کو کسی پر شک ہے؟“
تھانیدار احسان اللہ نے ڈرتے ڈرتے ایک اور سوال پوچھا۔
”جی ہاں....“
چوہدری عمردراز نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں کہا۔
”کس پر....؟“
تھانیدار احسان اللہ نے بری طرح سے چونک کر پوچھا۔
”آپ پر۔“
چوہدری عمردراز نے کہا تو تھانیدار احسان اللہ اس کا منہ دیکھنے لگا۔
اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چوہدری عمردراز نے زوردار قہقہہ لگایا۔ اس کام میں اس کے ملازموں نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے جواب سے تھانیدار احسان اللہ ایک بار پھر شرمندہ ہو گیا لیکن دکھاوے کے لیے مسکرانے لگا۔
”وہ جی مذاق کر رہا تھا انسپکٹر صاحب!“
چوہدری عمردراز نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”دراصل گائوں کے حالات ہی ایسے ہیں کہ اس نے سب کو ایک دوسرے کی نظروں میں چور بنا دیا ہے۔ مجھے یہاں کسی پر شک وک نہیں ہے انسپکٹر صاحب۔ گائوں کے تمام لوگ بہت اچھے ہیں۔ پتہ نہیں یہ سب کون کر رہا ہے۔ کس کی کالی نظر نے ہمارے گائوں کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ آپ مجھے محنتی اور باصلاحیت بندے لگتے ہیں۔ امید ہے کچھ نہ کچھ سراغ لگا لیں گے۔“
اتنی بات کر کے چوہدری عمردراز خاموش ہو گیا۔
”جی چوہدری صاحب! میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔“
تھانیدار احسان اللہ نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا۔
”میری کسی مدد کی ضرورت ہو تو بلاجھجک بتائیں۔ میں ہروقت حاضر ہوں۔“
چوہدری عمردراز نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سر کو قدرے جھکا کر کہا۔
”آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ چوہدری صاحب۔“
چائے کا آخری گھونٹ بھرنے کے بعد تھانیدار احسان اللہ کرسی سے اٹھا اور مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
چوہدری عمردراز نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ملازموں کو اشارہ کیا تو انہوں نے چاول اور گندم کی بوریاں اٹھا اٹھا کر پولیس کی گاڑی میں رکھنا شروع کر دیں۔
”یہ کیا ہے چوہدری صاحب۔“
تھانیدار احسان اللہ نے بوکھلا کر پوچھا۔
”میری طرف سے چھوٹا سا نذرانہ ہے انسپکٹر صاحب۔ مہمانوں کو خالی ہاتھ بھیجنا ہماری روایت نہیں ہے۔“
چوہدری عمردراز نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ملازم بوریاں گاڑی میں رکھ چکے تو چوہدری عمردراز تھانیدار احسان اللہ کو چھوڑنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
ابھی وہ دروازے سے چند قدم دور ہی تھے کہ کسی نے حویلی کا دروازہ زور زور سے دھڑدھڑانا شروع کر دیا۔ ایک ملازم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا توگائوں کا ایک ادھیڑعمر شخص گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا۔
”کیا ہوا کرامت! سب خیر تو ہے۔ اتنا گھبرایا ہوا کیوں ہے تُو؟“
چوہدری عمردراز نے پوچھا۔
”غضب ہو گیا چوہدری صاحب!“
”سیدھی طرح بتا۔ ہوا کیا ہے ۔“
”وہ اپنا فرمان علی ہے ناں۔“
نووارد نے اپنی سانس بحال کرتے ہوئے کہا۔
”اس کی بیٹی اغوا ہو گئی ہے۔“
”کیا؟؟“
چوہدری عمردراز اور تھانیدار احسان اللہ کے منہ سے بیک وقت نکلا۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 11 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں