’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 9
”اماں کیسی لگ رہی ہوں میں؟“
پروین نے لال رنگ کا کامدار دوپٹہ سر پر اوڑھتے ہوئے کہا۔
”بالکل چاند کا ٹکڑا۔“
انہوں نے بیٹی کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
”رجو بس کر۔ میری بیٹی کو نظر نہ لگا دینا۔“
بوڑھے فرمان علی نے حقے کا کش لگاتے ہوئے کہا۔
”بس کر پروین کے ابا۔ بھلا ماں کی نظر کب لگتی ہے بیٹی کو۔ سچ تو کہہ رہی ہوں چاند کا ٹکڑا ہے میری بیٹی۔“
انہوں نے پھر بیٹی کی بلائیں لینا شروع کر دیں۔
”اچھا میرا سر نہ کھا۔ ویسے بات تیری سچ ہے رجو۔ اللہ بس ہماری بیٹی کو سدا خوش رکھے۔ کبھی بھی غم نہ آئیں اس کی زندگی میں۔“
فرمان علی نے بیٹی کو دعائیں دینا شروع کر دیں۔
”ابا ! میں آپ کیلئے چائے لے کر آﺅں۔“
پروین نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”جُگ جُگ جیو میرا پتر۔“
فرمان علی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
پروین چلی گئی تو اماں فرمان علی کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 8 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
”پروین کے ابا بات سن۔ ایک ہفتہ رہ گیا ہے پروین کی شادی کو۔ میں نے حساب کیا تھا پیسوں کا۔ باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن بارات کی روٹی کے پیسے کم پڑ رہے ہیں۔“
”فکر نہ کر رجو! اللہ سب چنگیاں کرے گا۔“
فرمان علی نے حقے کا کش لگاتے ہوئے کہا۔
”فکر کیوں نہ کروں فرمان۔ خیر سے میری سب سے بڑی بیٹی کی شادی ہے۔ جب تک پیسوں کا انتظام نہیں ہو جاتا مجھے فکر لگی رہے گی۔“
رجو نے تشویش ناک لہجے میں کہا۔
”ویسے مجھے ڈر لگا رہتا ہے اس لڑکی سے۔ پتا ہے کل کیا ہوا؟“
”کیا ہوا؟“
فرمان علی حقہ پیتے پیتے اس کی جانب دیکھنے لگا۔
”کل ناں پروین بازار گئی تھی بانو کے ساتھ۔“
اماں نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
”اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے؟“
فرمان علی نے اس کی بات ٹوک دی۔
”میری بات تو پوری سن۔“ اماں نے جھنجھلا کر کہا۔
”وہاں کسی نے بانو کو چھیڑ دیا۔ بانو تو شرم کے مارے چپ رہی مگر تیری بیٹی نے اس لڑکے کو اتنا پیٹا کہ بے چارا معافیاں مانگتا رہ گیا۔ سارا بازار اکٹھا ہو گیا تھا۔ میں نے خود دیکھا پروین نے جوتوں سے اس کی اتنی پٹائی کی کہ ڈراو¿نا بھوت بنا دیا اسے۔ “
اماں چپ ہو گئیں۔
فرمان علی نے غور سے اپنی بیوی کا پریشان چہرہ دیکھا اور پھر زور دار قہقہہ لگایا۔
”ہاہاہاہا۔ بس اس بات سے پریشان ہو رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا پتا نہیں کیا کہوگی۔ حدہے رجو ویسے۔ یہ تو اچھی بات ہے تیری بیٹی اتنی بہادر ہے۔“
”تیری انہی باتوں نے اسے سر پہ چڑھا رکھا ہے۔“
اماں نے منہ بنا کر کہا۔
”زمانہ چنگا نہیں ہے پروین کے ابا۔ مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔ کچھ دنوں بعد اس کی شادی ہے۔ شہزادیوں کی طرح پالا ہے بیٹی کو۔ پتا نہیں پرایا گھر کیسا ہو گا۔“
”سب چنگا ہی ہو گا رجو۔ تو خوامخواہ کی فکر نہ کر۔“
فرمان علی نے حقے کا کش لگایا۔
”گھر بیٹھے حقہ پینے سے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ بڑی مشکل سے بڑی برادری میں رشتہ ہوا ہے۔ میں کہتی ہوں جلد سے جلد پیسوں کا انتظام کر لے۔ ویاہ کی روٹی اچھی نہ پکائی تو کہیں دولہا والے ناراض نہ ہو جائیں اور میں نہیں چاہتی کہ میری لاڈلی بیٹی کو ساری عمر صرف اسی وجہ سے طعنے پڑتے رہیں۔“
فرمان علی نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے آسمان کو دیکھنے لگا۔
”دیکھ پروین کے ابا۔ میں جانتی ہوں ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے لیکن ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو پیسوں کا انتظام کرنا پڑے گا ناں۔ پروین کو لکھایا ہے پڑھایا ہے، اس کے سارے نازنخرے اٹھائے ہیں۔ اب خیر سے اس نے رخصت بھی ہو جانا ہے۔ اس کی شادی ہو جائے اچھے طریقے سے۔ فیر مینوں کوئی ٹینشن نئیں۔“
فرمان علی کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کی باتین سن رہا تھا۔
”پروین کے ابا۔ کچھ تو بولو۔“
”رجو تیری ساری باتیں ٹھیک ہیں۔ تُو فکر نہ کر۔ پروین کی شادی اچھے طریقے سے ہی ہو گی۔ اور مجھے یہ اونچی برادری والی بات نہ سنایا کر۔ یہ ہماری نہیں ان کی خوش قسمتی ہے کہ ہماری بیٹی ان کے گھر کی بہو بنے گی۔ پڑھی لکھی ہے، بہادر ہے، گھر کے سارے کام کاج جانتی ہے اور کیا چاہئے انہیں۔“
فرمان علی پھر حقہ پینے لگا۔
”پروین کے ابا۔ شادی کیلئے بنک سے قرضہ نہ لے لیں۔“
”ہمارے پاس کون سی اپنی زمین ہے رجو۔ جس کے بدلے قرضہ ملے گا۔“
”بات سن!“
اماں نے سرگوشی کی۔
”بنک کو مار گولی۔ چوہدری عمردراز کے پاس جا۔ وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔“
”نہیں۔“
فرمان علی نے سختی سے کہا۔
چوہدری عمردراز کا نام سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”کیوں؟“
اماں کو اس کے بدلے ہوئے لہجے کی سمجھ نہ آئی۔
”میں گیا تھا اس کے پاس۔ پتا ہے اس نے کیا کہا۔“
فرمان علی نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ پروین چائے کے تین کپ لیکر آ گئی۔
اس کی آمد پر دونوں خاموش ہو گئے مگر اماں فرمان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ آخر چوہدری عمردراز نے ایسا کیا کہہ دیا ہے کہ جسے بتاتے ہوئے اس کے خاوند کے چہرے کا رنگ اور لہجہ دونوں بدل گئے ہیں۔
پروین نے چائے کی ٹرے دونوں کے آگے کی۔ انہوں نے اپنے اپنے کپ اٹھا لیے تو پروین بھی اپنا کپ لیکر ان کے پاس بیٹھ گئی۔
فرمان علی کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی تھی اور یہی بات رجو کو کھائے جا رہی تھی۔
عنصر نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کے دونوں پٹ کھلتے چلے گئے۔ ریاست اُس کا بے تابی سے منتظر تھا۔
”یار اس منحوس جگہ کی طرف جانے کا خیال دل سے نکال دے۔ اپنا نہیں تو میرا ہی خیال کر۔ میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔“
اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
”پریشان کیوں ہو رہا ہے یار۔ ہم بچوں کو ساتھ لے کر نہیں جا رہے۔“
عنصر نے مسکرا کر کہا۔
”تمہیں دیکھ کر ناں مجھے وہ ’آ گینڈے مجھے مار والا‘ محاورہ بالکل سچ لگنے لگتا ہے۔“
ریاست نے گھبرا کر کہا۔
”آ گینڈے نہیں آ بیل مجھے مار۔“ عنصر نے تصحیح کی۔
”ویسے بھی تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے دنیا میں گینڈوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ اس لیے گینڈا تمہیں صرف چڑیاگھر میں ہی ملے گا۔ “
”کیا لوگ اس سے ٹکر کھانے اب چڑیا گھر جاتے ہیں؟“
ریاست نے حیرانی سے پوچھا۔
”لوگ چڑیا گھر ٹکر کھانے نہیں۔ گینڈے کو دیکھنے جاتے ہیں۔ ٹکر بیل مارتا ہے۔“
عنصر نے اسے پیار سے سمجھایا۔
”کیوں....؟ کیاگینڈے نے ٹکریں مارنے سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے یا اس کے سینگ اگنے بند ہو گئے ہیں؟“
ریاست نے ایک اور سوال جھاڑ دیا۔
”مجھے نہیں پتا یار۔ کوئی گینڈا ملے گا تو اس سے پوچھ لوں گا۔ فی الحال تو ایک بھینس سے واسطہ پڑا ہوا ہے میرا۔“
عنصر نے اس بار جھنجلا کر کہا۔
”لیکن یہاں تو کوئی بھینس نہیں ہے۔ ویسے بھی گینڈا ہو یا بیل مجھے فرق نہیں پڑتا۔ مطلب تو مصیبت کو دعوت دینا ہی ہے ناں۔“
ریاست نے منہ بنا کر کہا۔
”گھبراﺅ مت ڈیئر۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ “
عنصر نے سینے پر ہاتھ مارا۔
”میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی مصیبت چھو بھی نہیں سکتی۔“
” تمہارے ہوتے ہوئے بھلا اس کی گنجائش کہاں رہتی ہے؟“
ریاست منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تو عنصر اُس کی بات سن کر مسکرانے لگا۔
ریاست نے دروازہ بند کیا اور دونوں چل پڑے۔ عشا کی نماز ہوتے ہی گاﺅں کی گلیوں میں سناٹا چھا گیا تھا۔ کبھی کبھار اِکادُکا شخص نظر آ جاتا۔ راستے میں ریاست نے عنصر کو وارث اور اکرم کی موت کا قصہ سنایا۔ نیلی حویلی سے جڑے تمام واقعات وہ بڑی تفصیل سے بتاتا جا رہا تھا۔ عنصر بڑے غور سے ریاست کی باتیں سن رہا تھا، اس کا ذہن ماضی میں چلا گیا۔ اس کا گاﺅں بہت خوشحال ہوا کرتا تھا اور چوپالوں میں رات گئے تک خاصی رونق لگی رہتی تھی مگر اب تو جیسے کسی کی بری نظر سب رونقوں کو کھا گئی تھی۔ اس کے لیے یہ سب باتیں بہت حیران کن تھیں کیونکہ اس کے یونان جانے سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو اکثر اپنی اماں کے ساتھ نیلی حویلی جایا کرتا تھا۔
دونوں دوست اپنی ہی باتوں میں مگن جا رہے تھے حتیٰ کہ گاﺅں سے نکلنے کیلئے آخری گلی رہ گئی۔ گلی میں خاصا اندھیرا تھا۔ دونوں ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ فضا میں دردناک غیرانسانی چیخیں گونجنے لگیں۔ خاموش سناٹا جاگ اُٹھا۔
عنصر کو ایسے لگا جیسے اس کا دِل اچھل کر حلق میں آ گیا ہے۔ ریاست بھی بلند آواز سے چیخیں مار رہا تھا۔ چونکہ گلی میں اندھیرا تھا اس لیے عنصر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بہرحال اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ٹارچ نکال کر روشن کر دی۔ تنگ و تاریک گلی میں ٹارچ کی روشنی نہایت سرعت سے پھیلتی چلی گئی۔
گلی میں بھاگتے کتے پر نظر پڑی تو عنصر ساری صورتحال سمجھ گیا۔ دراصل ریاست کا پاﺅں سوئے ہوئے کتے پر پڑ گیا تھا چونکہ یہاں روشنی بالکل نہیں تھی اور عنصر بھی باتوں میں محو تھا کہ اسے ٹارچ روشن کرنے کا خیال ہی نہ آیا۔ اسی وجہ سے دونوں ہی گلی میں سوئے ہوئے کتے کو نہ دیکھ سکے اور ریاست نے اپنا پاو¿ں بے دھیانی میں اس پر رکھ دیا۔ کچھ دیر پہلے تک نیند کی وادی میں گم بیچارا کتا ناگہانی آفت ٹوٹنے پر چیختا چلاتا ہوا گلی سے باہر نکلنے کیلئے سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ ریاست ابھی تک صورتحال کا ادراک نہیں کر پایا تھا اس لیے مسلسل چیخیں مار رہا تھا۔
عنصر نے اسے پکڑ کر جھنجوڑا اور کتے کی طرف اشارہ کیا تو وہ چپ ہو گیا۔ دونوں نے تیزتیز قدموں سے گلی عبور کی۔ باہر نکلتے ہی عنصر کے منہ سے ہنسی کا فوارہ ابل پڑا۔ ہنس ہنس کر اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے مگر ریاست پسینے میں شرابور ہانپ رہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر عنصرکو اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا۔
”ہنسو ہنسو.... جتنا ہنسنا ہے ہنس لو۔ بدشگونی کی ابتدا ہو گئی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے واپس لوٹ چلتے ہیں۔“
ریاست نے ہانپتے ہوئے کہا۔
”ایک تو تم نے اپنا ہاتھی جتنا پاﺅں کتے پر رکھ کر اُس کی جان نکال دی اور اب مجھے بھی خوامخواہ ڈرا رہے ہو۔“
عنصر نے ہنستے ہوئے کہا۔
”یہ تو عجیب بات ہو گئی۔ وہ محاورہ سچ ثابت ہو گیا کتے کے پائوں پر ہاتھی کا پائوں۔“
اس کی بات سن کر عنصر ایک بار پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔
”تم نے تو محاوروں کا بھی کچومر نکال دیا۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں صحیح محاورہ یہ ہے۔ ویسے مجھے نہیں پتا تھا تم اب بھی کتوں سے ڈرتے ہو۔“
عنصر نے ہنستے ہوئے کہا۔
”وہ .... دراصل اندھیرے کی وجہ سے مجھے نظر نہیں آیا۔ مجھے پتا ہوتا یہاں کتا سو رہا ہے تو اِس گلی میں آتا ہی ناں۔“
ریاست نے کھسیانے انداز میں کہا۔
”ویسے ہم واپسی پر بھی اسی گلی سے گزریں گے۔ “
عنصر نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
آخری گلی طے کرنے کے بعد اب وہ گائوں کی آبادی سے باہر آ چکے تھے۔ چوہدری عمردراز کی عالیشان حویلی ان کے سامنے تھی اور اس سے آگے تاحدنگاہ پھیلے کھیتوں کا دراز سلسلہ۔ دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا اور چل پڑے۔ چوہدری عمردراز کی حویلی کے سامنے گزرے تو گیٹ بند کرتے ہوئے حویلی کے ملازم کی نظر اُن پر پڑگئی۔ وہ حیرانی سے ان کی طرف دیکھنے لگا کیونکہ عموماً رات کے وقت کھیتوں کی طرف جانے کی کوئی بھی ہمت نہیں کرتا تھا۔ اوپر سے اکرم اور وارث کے ہولناک واقعے کو بھی ابھی بمشکل دو روز گزرے تھے اس لیے اس کی حیرانی بجا تھا۔
بڑی بڑی مونچھوں والا ہٹاکٹا درازقد وہ شخص چوہدری عمردراز کا خاص ملازم ماکھا تھا۔ اس کا داہنا کان ایسے نظر آ رہا تھا جیسے کسی نے اس کو بری طرح چبا ڈالا ہو۔ ریاست کو تو وہ جانتا تھا البتہ عنصر اور وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ بہرحال ریاست نے اسے بتایا کہ عنصر ماسٹر حمید کا بیٹا ہے تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگا۔ پھر اس نے ان کی اس طرف آمد کی وجہ پوچھی تو ریاست نے اسے بتایا کہ ہم چہل قدمی کیلئے نکلے ہیں۔
”یہ کون سا وقت اور جگہ ہے سیر کیلئے؟“
اس نے حیرانی مگر قدرے کرختگی سے پوچھا۔
ریاست سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ بالآخر عنصر نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ”جناب ہم کچھ دُور جا کر واپس آ جائیں گے۔ گاﺅں میں کافی دیر بعد واپسی ہوئی ہے اس لیے کھانا ہضم کرنے کھیتوں کی طرف جا رہے ہیں۔“
ہٹے کٹے ملازم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اسے گھور کر دیکھا جیسے نظروں ہی نظروں میں کھا جائے گا اور پھر دھڑام سے دروازہ بند کر دیا۔ غالباً اسے اُن دونوں کا رات کے اس وقت اس طرف آنا ناگوار گزرا تھا۔
چوہدری عمردراز کی حویلی سے روشنی نکل کر آس پاس کے مناظر کو منور کیے ہوئے تھی۔ دونوں نے کھیتوں کی طرف ابھی چند قدم ہی بڑھائے تھے کہ اچانک ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ چوہدری عمردراز کی حویلی مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب چکی تھی۔
”لگتا ہے چوہدری صاحب کا ملازم ناراض ہو گیا ہے۔ چوہدری صاحب کو پتا لگ گیا تو وہ بھی ناراض ہوں گے۔ واپس چلتے ہیں یار۔ “
ریاست نے عنصر کو منانے کی آخری کوشش کی۔
”مجھے کسی کے ناراض ہونے کی پروا نہیں۔“
عنصر نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
” ویسے بھی میرے پاس لائٹ کا انتظام ہے۔ ہو ہاہاہاہاہا“
عنصر نے بھوتوں کی طرح قہقہہ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا اور جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کر دی۔
”تم مجھے ڈرا کیوں رہے ہو؟“
ریاست نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔
”میں صرف تمہارا ڈر بھگانے کی کوشش کر رہا ہوں۔“
عنصر نے مسکرا کر کہا۔
”بھوت پریت قصے کہانیوں میں اچھے لگتے ہیں۔ “
ریاست کے پاس اس کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ عنصر نے ٹارچ مضبوطی سے تھامی اور نیلی حویلی کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر قدم جما دیے۔ ریاست کو بھی مجبوراً اس کی تقلید کرنا پڑی۔ ٹارچ کی روشنی میں دونوں دوست فاصلہ طے کرنے لگے۔ تقریباً پانچ منٹ کی پیدل مسافت کے بعد بالآخر وہ اس چوکی تک پہنچ گئے جو چوہدری عمردراز نے نیلی حویلی سے کچھ فاصلے پر بنوائی تھی تاکہ یہاں تعینات گارڈ لوگوں کو اس طرف آنے سے روکیں مگر چوکی خالی تھی اور وہاں کوئی ملازم نظر نہیں آ رہا تھا۔
”یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ کہاں گئے چوہدری عمردراز کے ملازم؟“
عنصر نے ریاست سے پوچھا تو اس نے کندھے اچکا دیے کیونکہ اس سوال کا جواب بھلا وہ کیسے دے سکتا تھا۔ عنصر نے ٹارچ کی روشنی تاریک نیلی حویلی پر ڈالی۔ دُور سے وہ کسی سیاہ ہیولے کی مانند نظر آ رہی تھی۔ غیرارادی طور پر اس نے نیلی حویلی کی طرف قدم اٹھا دیے۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید آگے بڑھتا ریاست اس کی راہ میں حائل ہو گیا۔
”ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ نیلی حویلی کو دور سے ہی دیکھ کر واپس لوٹ جائیں گے۔“
ریاست نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے یاد ہے لیکن اسے ایک نظر دیکھ تو لینے دو۔“
یہ کہہ کر عنصر نے ریاست کو نظرانداز کر دیا اور آگے بڑھتا رہا۔ مجبوراً ریاست کو بھی ساتھ چلنا پڑا۔ وہ بہت ڈرا ہوا تھا۔ نیلی حویلی ان سے کچھ فاصلے پر رہ گئی۔ دونوں آگے بڑھ رہے تھے کہ معاً ایک آواز سن کر انہیں رکنا پڑا۔
وقفے وقفے سے فضا میں گھنگھرﺅں کی آواز تحلیل ہو رہی تھی۔
”چھن چھن....چھن چھن چھن....چھن چھن۔“
ریاست نے خوف کے مارے فوراً عنصر کا ہاتھ تھام لیا۔
”مم.... مم.... میں نے تمہیں منع کیا تھا ناں۔ لگتا ہے ہم بدروحوں کے علاقے میں آ گئے ہیں۔“
ریاست نے سخت گھبرائی آواز میں کہا۔
اگرچہ نئے مہینے کا چاند پیدا ہو چکا تھا لیکن ابھی وہ اس قابل نہیں تھا کہ رونمائی کرا سکے اس لیے ہر طرف تاریکی کا راج تھا۔ گھنگھرﺅں کی آواز پہلے ایک سمت سے سنائی دے رہی تھی پھر وقفے وقفے سے چاروں سمتوں سے آنے لگی مگر انہیں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
چونکہ ساون کا مہینہ تھا اس لیے حبس بھی خوب تھا۔ اوپر سے ایسے ڈراو¿نے ماحول کی موجودگی سے ریاست پسینے میں ڈوب گیا۔ وہ زیرلب آیت الکرسی پڑھ رہا تھا لیکن خوف کا عالم یہ تھا کہ اس کی آواز کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی بالکل آہستہ۔
گھنگھرﺅں کی آواز مسلسل وقفے وقفے سے فضا میں تحلیل ہو رہی تھی۔
”چھن چھن....چھن چھن چھن....چھن چھن۔“
عنصر نے ٹارچ کو چاروں طرف گھما کر اچھی طرح دیکھ لیا لیکن اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ وہ اس بات پر حیران تھا کہ گھنگھرو¿ں کی آواز چاروں طرف سے آ رہی ہے تو انہیں پہننے والا نظر کیوں نہیں آ رہا۔ چند لمحے وہ ادھر ادھر ٹارچ گھماتا رہا لیکن لاحاصل۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گردوبیش کے ماحول کی پراسراریت نے اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
”میں کہتا ہوں اب بھی وقت ہے بھاگ چلتے ہیں۔“
ریاست نے بیٹھی بیٹھی آواز میں کہا تو عنصر فوراً راضی ہو گیا۔ اس صورتحال میں بھلا وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور واپس چل پڑے۔
پگڈنڈی پر واپسی کی راہ اختیار کرتے چند قدم ہی طے کیے تھے کہ انہیں محسوس ہوا جیسے دائیں جانب کھیتوں میں سفید کپڑوں میں ملبوس کھڑا کوئی انہیں گھور رہا ہے۔ عنصر نے ٹارچ فوراً ادھر کی لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد انہیں محسوس ہوا جیسے ان کے بائیں جانب موجود کھیتوں میں بھی سفید کپڑوں میں ملبوس کوئی انہیں گھور رہا ہے۔
ریاست نے عنصر کو ادھر ادھر دیکھنے سے منع کر دیا۔ اس کے ذہن میں لوگوں کی یہ باتیں گھوم رہی تھیں کہ اگر ایسی مخلوق کو جتنی اہمیت دی جائے یہ اتنا ہی تنگ کرتی ہیں۔ اگر انہیں نظرانداز کر دیا جائے تو یہ جلد ہی پیچھا چھوڑ دیتی ہیں۔ عنصر نے بھی اس کے مشورے پر عمل کرنے میں غنیمت جانی اور دونوں تیزتیز قدموں سے سیدھے چلتے رہے لیکن مصیبت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اسی عالم میں ان پر ایک اور افتاد نازل ہو گئی۔
اچانک انہیں محسوس ہوا جیسے گھنگھرو باندھے کوئی بڑی تیزی سے ان کے پیچھے آ رہا ہے۔ وہ پہلے ہی بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ اس صورتحال سے ان کی دل کی دھڑکنیں بالکل ہی بے ترتیب ہو گئیں۔ جوں جوں آواز گھنگھرو¿ں کی آواز ان کے قریب آتی جا رہی تھی توں توں ان کا خون خشک ہوتا جا رہا تھا۔ حتی کہ آواز اتنے قریب سے آنے لگی کہ مجبوراً عنصر کو رک کر پیچھے دیکھنا پڑا لیکن خالی پگڈنڈی دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ گھبراہٹ سے دونوں بری طرح پسینے میں نہا چکے تھے۔ جیسے ہی وہ واپس جانے کے لیے مڑے تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سامنے کا منظر کسی بھی کمزور دل انسان کی رُوح پرواز کرنے کیلئے کافی تھا۔
اُن کے سامنے سیاہ لباس میں ملبوس ایک ہیولا کھڑا تھا جس کے لمبے لمبے بال اس طرح بکھرے ہوئے تھے کہ چہرہ ان کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ بالوں سے خون کے سرخ سرخ قطرے ٹپک رہے تھے اور وہ بالکل ساکت کھڑا تھا۔ گھنگھرو اسی نے باندھ رکھے تھے۔ عنصر کو چکر آ گیا۔ ٹارچ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ بیہوش ہو کر زمین پر گرنے سے پہلے اس کے کانوں میں پڑنے والی آخری آواز ریاست کی دلدوز چیخ تھی۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 10 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں